مقامی سیاست اور شہری جمہوریت کے بغیر آپ جو بھی حکومتی نظام قائم کرتے ہیں‘ وہ بے بنیاد ہوگا۔ اوپر‘ اوپر سے جمہوریت کے لیے نعرہ بازی کرنا اور اندر ہی اندر اس کی بنیادیں‘ جو استعماری دور میں ڈالی گئی تھیں‘ کھوکھلی کرنا ہمارے حکمران سیاسی گھرانوں کے مفاد میں ہے۔ میں صرف تین چار بڑی موروثی سیاسی جماعتوں اور ان کے پرکاروں کی بات نہیں کر رہا‘ یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ بگڑا ہوا ہے۔ پارلیمانی نظام میں عوام اراکینِ اسمبلی کو ووٹ ڈالتے ہیں‘ وزیراعظم یا صدر کو نہیں۔ وزرائے اعلیٰ‘ وزیر ہوں یا پھر وزیراعظم‘ اُنہی کی تائید کے محتاج ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت موروثیوں کے ہاتھوں میں ہو یا کسی اور کے‘ وہ اقتدار حاصل کرنے اور اس کی بقا کو یقینی بنانے کیلئے ان اراکین کو ساتھ رکھتے ہیں۔ یہ اپنی اہمیت کے پیش نظر آزادیا کسی سیاسی جماعت کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنا گروہ بنا لیتے ہیں تاکہ اپنی صحیح قیمت وصول کر سکیں۔ عدم اعتماد کی تحریک کے تناظر میں چند ماہ پہلے ملک میں آئین‘ ملکی مفاد‘ معیشت‘ عوام اور جمہوریت کی تڑپ ایسے اٹھی کہ کچھ نہ پوچھیں‘ اس تپش میں کتنے ہی گروہ اور اراکین پگھل گئے۔ دھاتوں کی طرح ایسے ہی تو انسانوں کی بھی نئی صورت گری ہوتی ہے۔ پنجاب میں جو نئے وزیر‘ وزارتوں کی حلف برداری کا مقدس فریضہ انجام دے چکے ہیں‘ وہ اور ان کے سرپرست کتنے خوش ہیں کہ جمہوریت کا رنگ اب خوب نکھر ا ہے۔ وفاق میں بھی دیکھ لیں‘ سب اپنی قیمت کھری کر چکے ہیں۔
ایسی بے بنیاد جمہوریت موروثی سیاست کو ہر سطح پر قائم رکھتی ہے‘ تروتازگی اور تقویت بخشتی ہے اور یہی ہماری بے رنگ و بو اور کھوکھلی سیاست کی کامیابی کا کھلا راز ہے‘ مگر اپنے مفادات کے اسیر لوگ اُسے اِسی طرح قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ حکمران طبقات کی سیاسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے تاکہ نسل در نسل ان کی سیاسی اجارہ داری کو کوئی چیلنج نہ کر سکے۔ سب جانتے ہیں کہ متبادل قیادت یا تومقامی حکومتوں کے قیام سے پیدا ہوتی ہے یا پھرسیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت قائم کر نے سے۔ ہمارے حکمران ہمیشہ ان دونوں اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ رہے ہیں۔ اس کے برعکس برطانوی سامراج نے جب برصغیر میں جدید سیاست کی بنیاد ڈالی تو ادارے بنانے کے ساتھ ساتھ انگریزوں نے مشاورتی کونسلوں اور مقامی حکومتوں کو بھی متعارف کرایا۔ یہاں سب سے پہلے انتخابات ان حکومتوں کی تشکیل کے لیے ہی کرائے گئے تھے۔ انگریز یہاںمغربی ریاست کا تصور لے کر آیا تھا‘ جو ہر شکل میں وہاں بھی جدید تھا اور دنیا کے کونے کونے میں بھی جدید سیاست کی بنیاد بنا۔ یورپ ہو یا امریکہ‘ جمہوریت کا سفر مقامی حکومتوں سے شروع ہوا اور اب یہ ایسی اساس ہے کہ اس کے بغیر کہیں کوئی جمہوریت کا دعویٰ کرے تو مذاق اور فریب کاری تصور ہوگا۔
یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وطن عزیز میں آمروں نے جہاں ملکی سطح پر جمہوریت کو رخصت کیا وہیں اس کا متبادل مقامی حکومتوں میں تلاش کیا۔ انہیں متبادل قیادت پیدا کرنے کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ ہمارے گھسے پٹے سیاسی نظام میں تو تاش کے وہی باون پتے تھے‘ جو ہر بار نئے انتخابات کے بعد نئے سرے سے بڑے کھلاڑیوں میں تقسیم ہو جاتے تھے۔ غیر جمہوری حکمرانوں کو بھی جمہوریت کا باریک لبادہ اوڑھنے کا بہت شوق تھا‘مگر حقیقت سب کو نظر آ جاتی تھی۔ ہر دور میں جب بھی مقامی حکومتیں قائم ہوئیں‘ متبادل قیادت ابھر کر سامنے آئی۔ باون پتوں کے ساتھ کھیلنے والے جب دوبارہ مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تو پرانی بازیاں کھیلنا شروع ہو گئے۔ ہمارے آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کا قیام صوبائی اختیارات کے زمرے میں آتا ہے‘ صوبائی حکومتیں ہی اس حوالے سے قانون سازی کرتی ہیں‘ اس لیے ہرنئی آنے والی حکومت پہلے سے قائم شدہ مقامی حکومتوں کو جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینک دیتی ہے‘ اس خوف سے کہ حریف جماعتوں کی نمائندگی کو مقامی سطح پر ختم کر دیا جائے۔ یہی کارنامہ عمران خان صاحب نے بھی پنجاب میں حکومت سنبھالتے ہی انجام دیا تھا کہ مقامی حکومتوں میں زیادہ تر نمائندگی مسلم لیگ (ن) کی تھی۔ عمران خان تقریباً چار سال اقتدار میں رہے مگر پنجاب میں اپنی مقامی حکومتیں قائم نہ کر سکے۔ انہوں نے ایک نیا اور میرے خیال میں بہتر نظام وضع کیا تھا‘ مگر اس خوف سے کہ کہیں دوسری جماعتیں اس نظام سے ابھر کر سامنے نہ آئیں‘انہوں نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بلدیاتی انتخابات منعقد نہ کرائے۔ خیبر پختونخوا میں صورتحال مختلف ہے‘ سندھ میں مگر وہاں کی غالب موروثی سیاسی جماعت نے شہریوں کو اپنی غلامی کی زنجیر میں مضبوطی سے جکڑ رکھا ہے۔ صوبے کی نوکر شاہی اور وسائل پر وہ قابض ہیں اور اب تو اٹھارہویں ترمیم کے بعد اُن کے خوب وارے نیارے ہیں جبکہ سیاسی طاقت کی مرکزیت نے سندھ کے عوام اور معاشرے کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ سندھ میں کئی بار مقامی حکومتوں کے قانون کو تبدیل کیا جا چکا ہے تا کہ اگر عدالت عظمیٰ کے حکم پر شہری حکومتیں بنانا بھی پڑیں تو ان کے پاس اختیارات اور وسائل محدود ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران باتیں توعوام اور عوام کی حکمرانی کی کرتے ہیں مگر اُن کی طاقت‘ آواز اور حقوق کی ممکنہ تحریکوں سے خوفزدہ ہیں۔ کس کو معلوم نہیں کہ اگر جمہوریت اور شہری حکومتیں اپنی اصلی اور عالمگیری روح میں یہاں کام کریں تو موروثی سیاست کرنے والے بیرونی ممالک میں موجود اپنے بلند و بالا اور ٹھنڈے محلوں میں جا کر دم سادھ لیں گے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ بہت جلد یہاں سے دم دبا کر بھاگ جائیں گے‘ مگر جو تحریکیں یکے بعد دیگرے یہاں ہمارے پھیلتے ہوئے شہروں سے اٹھیں گی‘ اُس کے بعدانہیں ہمیشہ کے لیے ہمارے ملک سے بوریا بستر لپیٹنا پڑے گا۔ ایسا کب ہو گا‘ ہم یہ فیصلہ آنے والے وقت اور تاریخ کے تیز و تلخ دھاروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ شاید ہم وہ دن نہ دیکھ سکیں‘ مگر ہمارے بعد آنے والے ضرور دیکھیں گے۔
بہت عرصہ سے جہاں بھی یہ بات کہنے یا اس موضوع پر لکھنے کا موقع ملتا ہے‘ میں یہ بات کہہ اورلکھ رہا ہوں کہ پاکستان اور اس خطے کی سیاست کا رنگ شہروں سے اٹھتی ہوئی سیاسی‘ نظریاتی اور سماجی تحریکوں سے بدلے گا۔ کئی عوامل ہیں جو اس ضمن میں اہم کردار ادا کریں گے مگر سب سے بڑا یہ ہے کہ شہریوں کو منظم اور متحرک کرنا اربن معاشروں میں آسان ہے۔ دہلی سے اٹھی عام آدمی پارٹی اب بھارتی پنجاب اور ملک کے دوسرے حصوں میں پھیل چکی ہے۔ گزشتہ ماہ بلوچستان کی مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی نئی تحریکوں اور متبادل قیادت کے سامنے آنے کی گواہی دیتے ہیں۔ ہم نے کبھی جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمن کا نام تک نہیں سنا تھا۔ انہوں نے اس سال کے شروع میں گوادر کے حقوق کے لیے کئی دنوں تک دھرنا دیے رکھا۔ اُن کے دھرنے نے ''گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کی صورت اختیار کرلی اور حالیہ انتخابات میں شہر ی کونسل کی 39میں سے 27نشستیں جیت لیں۔ صوبے بھر میں 4556نشستوں کے لیے 16195امیدوار میدان میں تھے۔ بلوچستان‘ جسے کچھ حلقے پسماندہ تصور کرتے ہیں‘وہاں سے132خواتین نے بھی مختلف عہدوں کے لیے الیکشن میں حصہ لیا۔ سب سے بڑی بات موروثی سیاسی جماعتیں یہ انتخابات مجموعی طور پر ہار چکی ہیں‘ سب سے زیادہ تعداد آزاد امیدواروں کی ہے۔ایسی صورت میں خود ہی سوچیں غالب حکمران گھرانے کیوں متبادل قیادت پیدا ہونے دیں گے؟ وہ ہر جگہ ایسا ہی کرتے ہیں‘ مگر تاریخ اور سماجی تحریکیں ان کی مرضی کے تابع نہیں۔ وقت تیزی سے بدل رہا ہے اور مزید بدلے گا‘ پتا نہیں وہ سحر ہم دیکھ سکیں یا نہیں۔