بتانے کی ضرورت نہیں‘ ذرا خود ہی غور فرمائیں کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ ہماری خواہش یہ ہر گز نہیں کہ جو ہم لکھیں اور بولیں اس پر اعتبار کرلیں۔ مقصد اپنی رائے اور دعوتِ فکر ہے کہ تعصبات اور سیاسی وابستگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے سوچیں کہ ہم اس گرداب میں کیونکر پھنس گئے۔ ہمیں یہاں تک کون لایا ؟ کون ہیںوہ لوگ جنہوں نے ایک عرصہ تک اس ملک پر حکومت کی‘ اور کیسے وہ دنیا کے مالدار ترین خاندانوں میں شمار ہونے لگے۔ کوئی راز نہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ماہرینِ معیشت کہہ رہے ہیں مگر تیرہ جماعتی حکومت کا اصرار ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ کبھی نہیں ہوگا۔ ہماری دلی خواہش اور دعا ہے کہ کبھی ایسا نہ ہو۔ مگر جب یہ حضرات حزب ِاختلاف میں تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے درپے تھے تو یہی فرماتے تھے‘جو اَب عمران خان اور ان کی جماعت کہہ رہی ہے۔ اللہ کرے ہم دیوالیہ نہ ہوں مگر آپ یہ تو مانیں گے کہ ہماری معاشی حالت بہت پتلی ہے‘ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ جب قومیں اس قابل نہیں رہتیں‘ یا نظام اس قدر لولا لنگڑا ہوجاتا ہے کہ ظالموں‘ غاصبوں اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کا محاسبہ نہ کرسکے تو آپ کے دوست نہیں‘ اس کے برعکس لوگ آپ پر غالب آجاتے ہیں۔ وہ آپ کے وسائل استعمال کرکے پہلے تو آپ کی سوچوں پر پہرے لگاتے ہیں کہ جو بھی حالات ہوں‘ آپ انہیں اپنی تقدیر سمجھ کر سمجھوتا کرلیں۔ آپ کے کان‘ زبان اور ذہن ان کی منشا کے ہاں گروی رکھ دیے جائیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم کہتے تھے بیرونی دشمن ہمیں غیر مستحکم کررہا ہے۔ یقینا! اگر کوئی ایسا دشمن ہے تو ہمیں کیوں چین سے بیٹھنے دے گا۔مگر اس میں بھی مبالغہ آرائی بے حد تھی۔ مسائل اندر والوں نے اپنی نالائقی اور بددیانتی کی وجہ سے پیدا کیے ہوئے تھے۔ جو سیاسی تماشا ہم کئی برسوں سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں‘ کا ذمہ دار کوئی دوسرا نہیں۔یہ بھی غلط ہے کہ ذمہ داری کسی ایک شخص پر عائد ہوتی ہے۔ ہم گہرائی میں جا کر تجزیہ کیوں نہیں کرتے کہ سیاست میں آکر کن اکابرین نے اپنے فائدے کے لیے ملکی مفادات پر سودے بازی کی‘ اقتدار میں رہے تو اتنے اثاثے بنائے کہ گویا سونے کے پہاڑ کھڑے کرلیے۔ سیاست اور دولت کے تعلق پر غور ضروری ہوچکا۔جب تک ہم ان امور پرنہیں سوچتے‘ یونہی سطحی مکالموں میں الجھے رہیں گے۔ معاشیات‘ تاریخ اور تحقیقی مواد سے تعلق رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ قوموں کا زوال کیوں ہوتا ہے ؟ ملک کیوں غربت اور پسماندگی کا شکار رہتے ہیں اور ریاستیں کمزور ہوکر دھڑام سے نیچے کیوں گرتی ہیں ؟اس کی بنیادی وجہ حکمران طبقوں کا لالچ‘ خود غرضی‘اقربا پروری اور ملکی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کے چلن کو پائیں گے۔ ایسے میں قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوجاتا ہے‘ ادارے مفلوج ہوجاتے ہیں‘ دولت کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے اور حکومتی اداروں سے انصاف نہیں ملتا۔ جائز کاموں کے لیے بھی عوام سے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ کون ہے جو موجودہ حالات میں یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہا۔بلکہ اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی کو ریاستوں کی ناکامی کہتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے پیچیدہ فلسفوں میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔
مجھے کوئی ابہام نہیں کہ پاکستان کے مسائل کے ہم سب ہر گز ذمہ دار نہیں۔ یہ بات صرف معاملات کو الجھانے اور لوگوں کو ابہام میں رکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ہمارے مقتدر طبقات‘ موروثی حکمران گھرانے‘ ان کے گماشتے اور وہ جو اِن کی امیج سازی میں کرائے کے دانشوروں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ہم نہ سوچیں گے‘ نہ بولیں گے تو پھر جھوٹ اور فریب کاری ہمارامقدر کیوں نہیں بنے گی؟ تاہم ایسا کرنا ہمارے لیے خطرے سے خالی نہیں۔ آپ نے دیکھا کہ اسی اتحادی حکومت کے آٹھ ماہ میں بولنے اور لکھنے والوں پر کیا گزری۔ ارشد شریف پر وحشیانہ تشدد اور سفاکانہ قتل کو کون بھول سکتا ہے ؟ اور پھر بیچارہ اعظم سواتی۔ کتنے تھانے رہ گئے ہیں جہاں اس کے خلاف مزید مقدمات درج ہونے ہیں ؟ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سواتی صاحب کو نہ ذاتی طور پر جانتا ہوں‘ نہ کبھی ملاقات ہوئی ہے‘ مگر کیا ہم خاموش رہیں گے غلاموں کی طرح؟ عرصہ ہوا کہ ٹیلی ویژن چینلوں پر شام کئی کئی گھنٹوں پر محیط سیاسی ڈرامے دیکھنے موقوف کردیے۔ مگر کبھی نظر اُٹھ ہی جاتی ہے۔ دیکھ کر‘ سن کر عقل حیران ہوتی ہے کہ اب تو لفظ‘ زبان اور ذہن آزادی نہیں‘ اسیری چاہتے ہیں۔
گزشتہ آٹھ عشروں سے قوموں کے بننے‘ بگڑنے اور گردابوں میں غوطے کھانے پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اور یہ موضوع ہی ایسا اہم ہے کہ ہر سال نت نئے شواہد سامنے آتے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ معاشرے اور سیاست میں گہری تقسیم ہے جو ملکوں کو اوپر نہیں اٹھنے دیتی۔ ایسے ملک داخلی عدم استحکام‘ سیاسی کشمکش اور خلفشار کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو تقسیم کی ایک نہیں کئی لکیریں ہیں‘ جیسا کہ مذہبی‘ سماجی‘ علاقائی‘ لسانی‘ اور سب سے بڑھ کر تباہ کن‘ سیاسی۔ سب اختلافات کمزور ہوجاتے ہیں اور یہاں بھی ہوسکتے ہیں اگر سیاست میں ہم آہنگی‘ اصول پرستی اور آئینی روح پیدا ہوجائے۔ سیاست کی تعریف ہی ہمارے نزدیک ہر روز اٹھنے والے تنازعات اور تضادات کا پرامن حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ ہمارا تو مسئلہ ہی یہ ہے کہ ملک جن کے ہاتھوں میں یرغمال رہا ہے‘ معافی چاہتا ہوں‘ جو عوامی اور آسمانی تائید سے اقتدار میں رہے ہیں‘ ان کا مقصد اپنی کرسی اور آنے والی نسلوں کی گدی نشینی کو ہماری دولت کے زور پر مضبوط کرنا تھا۔ اگر آپ اس پہلو پر غور نہ کرنا چاہیں تو کوئی بات نہیں۔ سکون سے گہراسانس لے کر کچھ اور سوچنے لگیں‘ لیکن جب بھی آپ سوچوں کو آزادی دیں گے‘ یہی معنی نکالیں گے۔ اپنے نصیبوں پر اشک بہانے سے بھی بدتر یہ ہے کہ دوا کی بھیک ان سے مانگ رہے ہیں جو روگ کی وجہ ہیں۔ چلیں‘ اب اس موضوع کو یہیں چھوڑ کر پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے پنجاب میں جو کچھ ہوا ہے‘ مجھے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ریاست پنجاب کے سال یاد آرہے ہیں۔ جب وہ 1839 ء میں آنجہانی ہوئے تو انگریزوں کی ہندوستانی حکومت نے تختِ پنجاب کو گرانے کی سازشیں تیز تر کردیں۔ جب تک مہاراجہ حیات تھے‘ کسی کو جرأت نہیں تھی کہ پنجاب کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھے۔ انگریز ہر صورت ہماری پانچ دریائوں کی دھرتی کو ہتھیانے پر تلا ہوا تھا۔ کسی نہ کسی بہانے سے یلغار جاری تھی۔ کبھی ایک علاقے میں‘ کبھی دوسرے علاقے میں جنگ۔ پھر ایک بڑی یلغار اور لاہور کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ پنجاب سامراجی نظام میں ''سونے کی چڑیا‘‘ تھا۔ یہ افغانستان تک پہنچنے کا راستہ بھی تھا۔ آزادی کے بعد بھی پنجاب ہمارے حکمرانوں کے لیے سونے کی چڑیا ہی ہے پنجاب کے بغیر دیگر صوبے بھی آپ کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی دشمن کا علاقہ ہے جسے جلد از جلد فتح کرنے اور یہاں اپنا جھنڈا لہرانے کا جنون ہے۔ یہ ہے طرز ِحکمرانی‘ اور یہ ہے جمہوریت۔ کہاں گئے وہ ترقی اور استحکام کے اقدمات !