زندگی تو سفر‘ مسافت اور مسافر کی سب خصوصیات اپنے وسیع دامن میں سمیٹے رواں دواں رہتی ہے۔ پیدائش‘ بچپن‘ جوانی‘ تعلیم‘ روزگار‘ پیشہ اور نہ جانے کتنے مراحل سے ہم گزرے ہیں۔ سب کرشماتی معلوم ہوتے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں جب بہت کچھ دیکھ چکے اور ہم نے تو کچھ ضرورت سے زیادہ اور اپنی استعداد سے بڑھ کر دنیا کے کئی بدلتے رنگوں کا مشاہدہ کرۂ ارض کی ہر سمت کیا ہے تو کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ خواب تھا‘ جو بھی دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ ہماری زندگی کہانی در کہانی کی صورت صحرائوں‘ دریائوں‘ سمندروں‘ پہاڑوں کی وادیوں اور جنگل کے ایک چھوٹے سے مکان سے شروع ہوتی‘ دنیا کے بڑے بڑے شہروں کے بازاروں اور جامعات کے ماحول میں ابھی تک نامکمل‘ مگر جاری ہے۔ جی تو ہمارا نہیں چاہتا کہ وہ دن کہیں قریب ہو مگر وقت کا گھوڑا تو بڑے بڑے شہسواروں کو گرا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ ہم تو نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ ویسے شکر ہے کہ ہم ان تیرہ میں واقعی نہیں جو آج کل اس بدقسمت قوم کی تقدیر اور مستقبل کے ٹھیکے دار بنے بیٹھے ہیں۔ دیکھیں ہم کب تک ان کے گھوڑوں کی ٹاپ اور ویران ملک کی خاک اڑتی دیکھتے رہیں گے۔ ایک بات پر تو یقین ہے‘ بقول احمد فراز: چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں۔ میں کوئی سرگزشت نہیں لکھ رہا۔ ہم سب کئی مقامات سے گزرتے ہیں۔ حوادثِ زمانہ‘ المیے‘ غم اور خوشی سب ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ویسے تو سب خوش قسمت ہیں کہ ہم زندہ ہیں‘ صحت مند ہیں‘ سکون کی نیند سوتے ہیں لیکن کوئی اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جائے تو اس کا علاج سوائے اُس آدمی کے کسی اور کے پاس نہیں ہو سکتا۔ اچھی تعلیم‘ اچھی صحت‘ اچھے دوست اور کتابوں کے درمیان ہوں تو زندگی کا سلیقہ آہی جاتا ہے۔ سفر کے کچھ حصے ہم سب کے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب دھیان ماضی کی طرف جاتا ہے تو افسوس ہوتا ہے۔ داغِ ندامت کبھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سب انسان ہیں‘ فرشتے نہیں۔
ماضی میں نہ ہم رہ سکتے ہیں اور نہ اُن اچھے اور برے دنوں کو دل سے لگا کر اپنے حال کو برباد کرنے میں کوئی عقل مندی ہے۔ جو گزر گیا‘ گز ر گیا ۔ زندگی تو ہمیشہ حال میں ہوتی ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے۔ آج کا دن بھی گزشتہ کل میں تبدیل ہو جائے گا۔ نورِ سحر کے ساتھ ابھرتے سورج کی پہلی کرنیں اور شام کے مغرب میں سرمائی رنگوں کی دھیمی سرخی اور پھر ہلکی گلابی اور چاندنی میں تبدیلی کا منظر نصیب میں ہو اور پھر کچھ غوروفکر کرنے کا موقع بھی مل جائے تو واقعی زندگی اور صحت سے بہتر کوئی نصیب نہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد کی باتیں‘ دولت‘ عہدہ طاقت بے معنی ہو جاتے ہیں۔ نہ جانے ہم کن کن حرص و ہوا کے پھندوں کے اسیر رہتے ہیں۔ ان سے محفوظ رہیں تو یہ بھی خوش قسمتی ہے۔ مجھے چلتے پھرتے‘ خوش گپیوں میں مصروف بزرگ بھلے لگتے ہیں۔ انہیں بابے کہیں تو برا محسوس کرتے ہیں۔ کچھ تو اپنی گزری جوانی دکھانے کی دھن میں سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عمر تو اپنی بھی اس حصے میں داخل ہو چکی جب بال سفیدی مائل ہو جاتے ہیں مگر بزرگ کوئی غلطی سے کہہ بھی دے تو ہونٹوں سے مسکراہٹ رخصت ہو جاتی ہے۔ قنوطیت پسند بابوں سے نہ ملنے کو جی چاہتا ہے نہ بات کرنے کو مگر زندگی کے سفر میں ہر قسم کے مسافر ہوتے ہیں۔
تقریباً نصف صدی پہلے دہلی کے عمر رسیدہ افرادکے گروہ کے بارے میں ٹائمز میگزین میں ایک مضمون نظر سے گزرا تھا۔ وہ سورج طلوع ہونے سے پہلے لودھی گارڈنز میں اکٹھے سیر کو نکلتے اور پھر آخر میں دائرہ بنا کر ورزش کرتے اور زور زور سے قہقہے لگاتے۔ اصل میں ان کے زور دار قہقہے اس تحریر کی روح اور وجۂ تصنیف تھے۔ کسی معاشرے میں مایوسیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں تو ایسے افراد کے بارے میں یہ کہنے سے ہم باز نہیں آسکتے کہ کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے۔ کئی بار مجھے بھی لودھی گارڈنز میں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں رہنے کا موقع ملا تو پہلی ہی فرصت میں ان بابوں کو دیکھنے کا اشتیاق لے کر منہ اندھیرے اس طرف نکل گیا۔ ہر مرتبہ کچھ دور کھڑے ہوکر ان کے قہقہوں سے لطف اندوز ہوا۔ دنیا کے کسی بھی شہر میں جانا ہو تو اس کے باغوں اور پارکوں میں گھومنا اولین ترجیح رہی ہے۔ لودھی گارڈنز اپنی تاریخی حیثیت کے اعتبار سے منفرد ہیں کہ لودھی بادشاہ کے خستہ حال مقبرے اور پرانے درختوں کی جڑوں میں گم ہوتی امرا کی قبریں نشانِ عبرت ہیں۔ لودھی گارڈنز میں کوئی صبح یا شام ایسی نہیں جب سینکڑوں کی تعداد میں ہر عمر کے لوگ سیر کو نہ نکلتے ہوں۔ لاہور میں اس کا کچھ عکس باغِ جناح میں دیکھا ہے جو میری نظرمیں دنیا کے بہترین باغات میں سے ایک ہے۔ یہاں بھی کئی صبحیں اور شامیں چلتے پھرتے گزاری ہیں۔ یہاں بھی معمر افراد کی ٹولیاں صبح سویرے گشت کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دعا سلام کا تبادلہ‘ احوال دریافت کرنا‘ کچھ ملاقاتوں کا وقت طے کرنا یا باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ یقین جانیں‘ صبح کی یہ ساعتیں کسی اور وقت کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔ آج کے نوجوانوں کو کیسے سمجھائیں کہ جلدی سونا اور جلد ی اٹھنا کتنی بڑی خوش قسمتی ہے اور ان دوستوں کو بھی جن کی زندگیوں میں صبح کا نور اور شاموں کے بدلتے رنگ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
لاہور میں طویل عرصہ ہم نے صبح کی سیر کا لطف اٹھایا ہے مگرشاموں کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ دن کی ذمہ داری نبھانے کے بعد غروبِ آفتاب سے ایک ساعت پہلے ایک ایک کرکے ہمارے ساتھ بابے ٹریک پر ڈگمگاتے ایک گروہ کی صورت چلنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم جرأت کرکے انہیں بابے تو کہہ دیتے ہیں مگر کوئی بھی یہ مقامِ آدمیت دل سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ گالی سمجھ کر یہ الزام ہم پر بھی دھر دیتے ہیں۔ دہلی اور لاہور کے بابوں میں بڑا فرق ہے کہ نہ یہ دائرہ بناتے ہیں اور نہ بیک آواز قہقہے لگاتے ہیں۔ چلتے بھی یہ ڈاچی ایکسپریس کی رفتار سے ہیں۔ مسلسل باتیں کرتے ہیں اور قہقہے ختم نہیں ہوتے۔ اسی لیے میں نے انہیں ''واکی ٹاکی‘‘ گروپ کا نام دے رکھا ہے جو انہوں نے بخوشی گزشتہ دس پندرہ برس سے اپنی فطری شناخت سمجھ کر گلے سے لگا لیا ہے۔ کچھ تو چند چکروں کے بعد کناروں پر پڑے بنچوں پر بیٹھ کر سیل فونوں پر نظریں جمائے ہنستے رہتے ہیں۔ بعض اوقات مجھے احساس ہوتا ہے کہ ان بیچارے بابوں کی ان قیمتی اور جدید ترین فونوں کی سکرین پر گھر میں نظر ڈالنے پر کسی بے رحم نے پابندی لگارکھی ہے۔ باتیں اور قہقہے ان کی وہ جوہری توانائی ہے جو پھیلتی رہتی ہے‘ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ قسم اسلام آباد کے قنوطی بابوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور اپنے دوستوں اور ہم کاروں کو بھی خوش رکھتے ہیں۔ ہمارا یہ گروہ خوش خوراک بھی ہے۔ گوشت خور کہوں تو بیجا نہ ہوگا۔ ہر ایک اتنا فیاض کے ہر وقت کڑاہی منگوانے اور کہیں بھی مدعو کرنے کے لیے تیار۔ صرف ایک ہیں جن پر چند ماہ اور بعض اوقات ایک سال تک محنت کرنا پڑتی ہے۔ پھر کہیں جا کر وہ اپنی بھاری جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اب آثار تو ایسے ہیں کہ شاید ہماری لاہوری زندگی کا اکیس سالہ سفر ہمیں اسلام آباد کی طرف واپس لے جائے۔ واکی ٹاکی بابوں کے قہقہوں کی گونج اگلی منزل تک ساتھ رہے گی‘ خوش رہیں۔ قہقہے کبھی ختم نہ ہوں اور قنوطیوں سے کنی کتراتے رہیں۔