"RBC" (space) message & send to 7575

اُسی راہ گزر پر

جی تو نہیں چاہتا کہ کنویں کے اندر چکر کاٹتی اور مٹی کے گہرے گارے میں دھنسی سیاست کے بارے میں کچھ لکھیں یا بات کریں مگر جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں‘ ان کے بارے میں سوچ کر خاموشی اختیار کرنے کی بھی سکت نہیں۔ فقط تین چار کردار ہی ہیں جو سیاسی بحران اور اس کے پیشِ نظر اٹھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی خطرات کے ذمہ دار ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ انسانی کرداروں یا شخصیات نے قائم شدہ اور فروغ پاتے ہوئے ادارے بھی اپنے محدود مفادات کی بھینٹ چڑھا دیے‘ جن میں آئین‘ عدلیہ‘ پارلیمان اور انتخابات کے علاوہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ اور وہ بھی جو بظاہر عوامی تائید سے اقتدار میں آئے۔ ان کا رویہ اداروں کے بارے میں خصوصاً بیوروکریسی کو اپنی سیاست کے تابع کرنے کے حوالے سے کوئی مختلف نہ تھا۔ آج کل کی اتحادی برکات میں آپ خود اپنی قومی تاریخ کو دہراتے دیکھ رہے ہیں کہ عدلیہ‘ آئین‘ انتخابات کی شفافیت اور یہاں تک کہ بنیادی انسانی حقوق تک کو جو نقصان پہنچا‘ وہ جسے ہم غیرجمہوری ادوار کہتے ہیں‘ سے کم نہیں۔ خاندانی‘ موروثی سیاسی جماعتیں جمہوری سیاسی جماعتوں کے کسی معیار پر نہ کبھی پورا اُتری ہیں نہ اُتر سکتی ہیں۔ جمہوریت ہو یا آمریت یا پھر آمرانہ جمہوریت‘ جو کہ ہماری یکسانیت کی ماری سیاست کے ملتے جلتے رنگ ہیں‘ سب میں فرد اور شخصیات کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ ادارے اس لیے نہیں بننے دیے گئے کہ اداروں سے نئی قیادتیں ابھرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں سے ہی نچلی سطح سے متحرک کارکن اور لیڈر نکل کر صوبائی اور قومی سیاست میں اپنا مقام بناتے ہیں۔ یہ میں جمہوری ملکوں کی تاریخ کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ ہمارے ہاں آگے کون آتے رہے ہیں‘ اور ابھی تک آرہے ہیں‘ ان کے بارے میں کیا کہنا اور کیا لکھنا۔ اس تمہید کے بعد پھرسے دہرائے دیتا ہوں کہ تین چار شخصیات‘ جن کے بارے میں کچھ کہنے اور نام لینے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ آپ سب کو معلوم ہے‘ بحران‘ جمود اور قومی اُفق پر اٹھتے ہوئے گونا گوں خطرات کی ذمہ دار ہیں۔
اگر ادارے‘ جن میں آپ ریاست اور حکومت میں تمیز نہیں کر سکتے‘ کمزور ہوں تو شخصی طاقت‘ آمرانہ رویوں اور بند کمروں میں فیصلوں کو تقویت ملتی ہے۔ اپنی ہی تاریخ سے گھناؤنی مثال موجود ہے جس کے منفی اثرات ہماری قومی نفسیات سے آج تک زائل نہیں ہو پائے۔ 1970ء میں انتخابات ہوئے‘ ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا جائے۔ ایک اور اس طرح کی وزنی اور بااثر شخصیت اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی تھی‘ اور ایک ایسی ہی شخصیت ریاست کے ساتھ مشرقی پاکستان میں عوامی حمایت کے زور پر ٹکر لینے پر تل گئی تھی۔ اس تکونی اقتدار میں رسہ کشی اور بحران کا نتیجہ ملک کو دو ٹکڑے کرنے کی صورت نکلا۔ اُس شخصیت کو‘ جس کے پاس ریاستی اقتدار اور فیصلہ کرنے کا اختیار تھا‘ ان کے اپنے ہی ادارے کے بڑوں نے لاکھ سمجھایا کہ اجلاس ملتوی کرنے سے جو حالات پیدا ہوں گے ہم نہیں سنبھال سکیں گے۔ اس کے بعد جب اس نے بگڑے ہوئے ماحول میں لوگوں کو دبانے کے لیے ملٹری ایکشن کی ٹھان لی تو پھر بھی بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا کرنے سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کے بعد نہ جانے کتنے اور آئے اور کتنے باری باری آ رہے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ادارے مضبوط کرنے کے بجائے شخصیات نے اپنی کرسیاں مضبوط کرنے کے لیے اداروں کو کمزور کیا۔ یہ بات ہم کیسے سمجھائیں کہ ادارے کمزور ہوں تو ریاست کمزور ہوتی ہے جس کے مظاہرے آپ ملک بھر میں قتل و غارت گری کے بڑھتے واقعات اور ہر روز دہشت گردوں کے حملوں کی صورت دیکھ رہے ہیں۔ ہماری سیاست کی کمزوری میں بنیادی عوامل میں سے آمرانہ رویوں اور خاندانی جماعتوں کا کردار میرے نزدیک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی ادارے مضبوط ہوتے تو تیسرا فریق بھی مداخلت کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا۔ کمزوری ہی تو تھی کہ دیکھنے میں تو ایک ہی تقریر میں سب کچھ پلٹ دیا۔ اگر ریاستی اور حکومتی اداروں میں توازن کی وہی صورت ہو‘ جو ہمارے ہاں رہی ہے اور اب بھی ہے تو میرے ہم وطنو کہنا ہی کافی ہوتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جن سیاسی حلقوں اور جماعتوں سے کسی مزاحمت کی توقع تھی وہ اندرونِ خانہ ملی ہوئی تھیں۔ چند ہی شاید ایسے لوگ ہوں گے جو خاموشی سے کنارہ کش ہوئے ہوں۔ حالات بدلتے ہی اکثریت نے اپنے سیاسی لبادے بدل لیے۔ عوامی نمائندوں سے درباری نمائندوں میں تبدیل ہونے میں ہماری سیاست میں کبھی کوئی دیر نہیں لگی۔ اب تو مقابلہ ہے کہ کون دربارِ عالیہ میں مقبولیت حاصل کر سکتا ہے‘ کس کو اعتماد ہے کہ اسے اعتما د حاصل ہے اور کون ہے جو انتظار میں ہے کہ شاید اب اس کی پرچی بھی نکل آئے۔ ایسی سیاسی چکر بازیوں نے ہماری ریاست کو انتہائی کمزور اور معاشرے کو بحران کا شکار کر رکھا ہے۔
سیاست مضبوط ریاستوں میں قانون اور قاعدوں کی پابند ہے کہ یہ ایسا کھیل ہے کہ اگر اسے قواعد کے مطابق نہ کھیلا جائے تو معاشرے میں اطمینان‘ سکون اور امن قائم نہیں ہو پاتا۔ جو ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جنہیں تاریخ میں ڈکٹیٹر کا نام دیا گیا ہے‘ وہ ریاست کی قوت‘ اس کے وسائل اور ذرائع کو لوگوں کو دبانے‘ خوف و ہراس پھیلانے اور کچھ لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا کر کام چلانے پر صرف کرتے ہیں۔ کئی مثالیں آپ کے سامنے دورِ حاضر سے بھی ہیں۔ لیبیا‘ سوڈان‘ شام‘ عراق اور افغانستان کے حالات بدلتے ہی سب کچھ ریت کے گھروندے کی طرح بکھر کر زمین بوس ہو گیا۔ گزارش ہے کہ ہمیں اپنی اور دوسرے ممالک کی تاریخ سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہیے۔ آج کل جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں‘ اسے کئی بار دہرا چکا ہوں۔ وہ علاقائی اور عالمی ماحول کے تناظر میں انتہائی خطرناک ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا مسئلہ یہ رہا ہے اور اس وقت تو کہیں زیادہ ہے کہ کوئی پروا نہیں‘ ہم سب سنبھال لیں گے۔
دو ہفتے پہلے اچھی خبر آئی کہ معتوب پارٹی نے لچک دکھائی اور بغیر کسی شرط کے اتحادی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوئی۔ مذاکراتی کمیٹی بھی انہوں نے پہلے بنائی۔ حکومت کو کم از کم ایک ہفتہ لگا کہ سوچ میں پڑ گئے کہ اب کیا کریں۔ آخر کمیٹی بنائی بھی گئی لیکن ابھی تک گل محمد وہیں ہے جہاں ہم نے دو مہینوں پہلے دیکھا تھا۔ ان مذاکرات کے تعطل‘ شرائط اور اُٹھک بیٹھک کو دیکھ کر دو ایسے ہی مذاکراتوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ پہلے تو وہ جو عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اسمبلی کے اجلاس سے پہلے آئینی امور پر ہوئے تھے۔ سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے ہمارے وسیب کے ایک نوجوان سیاستدان شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کے لیے نامزد ہوئے تھے۔ عجیب بات تھی کہ آئین کے خد و خال پہلے طے کرو‘ اسمبلی کا اجلاس بعد میں ہو۔ دوسرا‘ وہ ہفتے اور چند ماہ تو ہماری نسل کے لوگوں کو ابھی تک یاد ہیں کہ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے بعد تحریک چلی اور حزبِ اختلاف کی سب سیاسی جماعتیں اکٹھی تھیں۔ مذاکرات چلتے رہے‘ کبھی جیل سے نکال کر حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو سہالہ پولیس گیسٹ ہاؤس میں لایا جاتا‘ پھر جیل میں بند کر دیا جاتا۔ اس زعم میں ہمارے وزیراعظم صاحب مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر نکل گئے کہ خارجہ پالیسی ان کے نزدیک داخلی مسائل کو سلجھانے سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ خطرہ یہ ہے کہ ہم آج بھی اس راہ گزر کے مسافر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گھوم پھر کر وہیں واپس آگئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں دیکھیں گے کہ چند شخصیات کی ذاتی مفاد کی سیاست غالب آتی ہے یا کچھ تبدیل ہوا ہے اور قومی مفاد کی سیاست ان کی ترجیح ہے۔ دعا کرتے رہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں