"RBC" (space) message & send to 7575

عہدِ امید کا زوال

آج کل اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس جاری ہے‘ اکثر چھوٹی بڑی ریاستوں کے سربراہانِ مملکت اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ دوسری بار ایسا ہو رہا ہے کہ غزہ میں بے رحمی سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور یوکرین میں خوفناک جنگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ ابھی تک سفارت کاری کی تمام کوششیں ان دونوں جنگوں کو رکوانے میں ناکام رہی ہیں۔ غزہ میں تو اسے جنگ کہنا سرے سے بنتا ہی نہیں کہ یہ کمزور اور لاچار آبادی کے خلاف ایک ریاست کی طرف سے بہیمانہ طاقت کا یکطرفہ استعمال ہے جس کے پیچھے مفروضوں پر مبنی صہیونیت کی فلسطینیوں کو اپنے ہی تاریخی وطن سے بے دخل کرکے اپنی ریاست قائم کرنے کی دھونس کارفرما ہے۔ اس کا قیام کچھ ایسے ہی حالات میں ہوا تھا‘ اور فلسطینیوں کی مجموعی حالتِ زار آج کل جاری نسل کشی سے کچھ کم نہ تھی۔ اُس وقت یہ کیمرے تھے‘ نہ سکرینیں اور نہ وہ سینکڑوں عرب اور فلسطینی نژاد صحافی جو اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر دنیا کو اس کی بے بسی کا آئینہ شیرخوار بچوں‘ خواتین‘ بوڑھوں اور جوانوں کی روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی بربریت کا نشانہ بننے کی صورت دکھا رہے ہیں۔ جب مغرب نے دوسری عالمی جنگ کے بعد اسرائیل کی ریاست کے قیام کے منصوبے پر پہلا قدم بڑھایا‘ فلسطینی تب سے آرام کی نیند نہیں سو سکے۔ ایک بہت بڑا حصہ ان کی آبادی کا تو خس و خاشاک کی طرح جبر کی آندھیوں میں دنیا کے ہر کونے میں بکھرا ہوا اپنے وطن کی یاد میں نوحہ خواں ہے۔
اس المیے کو سمجھنے کے لیے میں آپ کی توجہ تاریخ کے کچھ گوشوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں تاکہ آپ اندازہ لگا سکیں کہ دنیا میں نام نہاد صنعتی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ کیا بدل چکا ہے اور کچھ ہے جو شاید کبھی نہ بدل سکے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بنیادی اسباب میں زیادہ فرق نہ تھا‘ اور اگر تھا تو صرف بدلتے ہوئے سیاق و سباق‘ نئی ریاستی صف بندی‘ نئے نظریات اور نئی قیادتوں کے سامنے آنے کا فرق تھا‘ جن میں قوم پرستی‘ جارحیت اور توسیع پسندی ایک پختہ عقیدے کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ دونوں جنگوں میں دو دھڑے تھے۔ اس سے قبل بھی فوجی اتحادوں کی ساکھ اور خفیہ معاہدوں کے پیشِ نظر ریاستیں‘ خصوصاً یورپی ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف فوج کشی کرتی رہی تھیں۔ بات یہ ہے کہ جب بھی ریاستیں اندرونی ٹوٹ پھوٹ یا پھر انقلابی‘ معاشی‘ سیاسی‘ نظریاتی‘ سائنسی اور صنعتی نوعیت کی تبدیلیوں کے زیر اثر فکری الجھاؤ کا شکار ہوئیں یا نئی طاقت کے زعم میں دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں پڑ گئیں‘ انہوں نے عالمی امن اور سلامتی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ یہ نکتہ اس لیے اٹھایا ہے کہ سب ریاستیں‘ چھوٹی یا بڑی‘ اور جہاں بھی ہیں‘ ایک عالمی نظام کے اندر رہتی ہیں اور اس کی جو بھی کیفیت بنے‘ خصوصی طور پر بڑی طاقتوں کے رویوں کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتیں۔
جب سے عالمی نظام سترہویں صدی کے نصف میں یورپ کی صد سالہ جنگوں کے بعد قائم ہوا‘ اس کی بنیاد آج تک بڑی طاقتوں کے آپس میں کچھ اصولوں پر اتفاق اور ہم آہنگی پر ہے‘ کہ کوئی بڑا قدم یکجہتی کے بعد ہی اٹھایا جائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ عالمی امن کو قائم کرنے اور کسی جارحیت اور توسیع پسند ملک کو لگام دینے کے لیے بڑی طاقتوں کو یکجا ہونا ہو گا۔ دیکھنے میں یہ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے‘ مگر پانچ مستقل اراکینِ کونسل کے درمیان اتفاق کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے اگر ایک بھی اپنی رائے مخالفت میں دے‘ یعنی ویٹو کا حق استعمال کرے تو پوری کونسل بلکہ اقوام متحدہ کی پوری جنرل اسمبلی اور دنیا کی ریاستوں کی غالب اکثریت بھی اس کا فیصلہ تبدیلی نہیں کر سکتی۔ آج بے بسی دیکھیں کہ پوری دنیا اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے مگر امریکہ صرف نفی میں سر ہلا کر یا اس کا مندوب ہاتھ کھڑا کرکے عالمی رائے عامہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک امید بھرے عہد کی ابتدا ہوئی تھی کہ اقوام متحدہ‘ جس طرح اس کے نام سے ظاہر ہے‘ جارحیت‘ توسیع پسندی‘ سامراجیت اور نوآبادیات کے خلاف ایک ایسی قوت بنے گا کہ کسی کو اس کے منشور کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی جرأت نہ ہو سکے گی۔ اصولی طور پر جب بڑی طاقتیں یکجا ہو جائیں اور جارح کا تعین کر لیں تو سب کے سامنے کون سی ریاست قدم جما سکے گی۔ جنگوں کو روکنے کے لیے انفرادی طور پر ریاست یا اجتماعی انداز میں اقوام متحدہ کی چھتری میں خوف اور ڈر پیدا کرکے امن قائم رکھنے کی کوشش تھی۔ سوچ تھی کہ اگرکسی پر جنگی جنون طاری ہے لیکن اگر انہیں یقین ہو جائے کہ جنگ کرنا بے سود ہو گا اور نقصان کہیں زیادہ ہو جائے گا تو انسانی عقل کہتی ہے کہ وہ کسی بھی مہم جوئی سے باز رہیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر اس کی عقل دماغ کو خیرباد کہہ کر کہیں سیر سپاٹے کے لیے نکل جائے تو اس کا کیا حل ہے۔ اکثر ہمارے ایسے خیالات اور نظریات عقلیت پسندی کی بنیاد پر استوار ہیں۔ مگر جب کچھ ملکوں کی قیادت جنونیوں کے ہاتھوں میں آ جائے تو وہ طاقت کے زور پر اپنی جنونیت پر بھی عقلیت کا برش پھیر کر سب کچھ کر گزرتے ہیں۔
وہ امید جو لبرل ازم کے تین چار ستونوں پر استوار ہوئی تھی کہ بڑی طاقتیں حق اور انصاف کی بنیاد پر دنیا میں امن قائم رکھیں گی‘ کھل کر تجارت ہو گی‘ سامراجیت ختم اور حقِ خودارادیت کی بنیاد پر نئی ریاستیں اور ان کے اندر اسی اصول کی بنیاد پر لوگوں کو یہ حقوق ملیں گے‘ جو آئین میں درج ہوں گے۔ اب کیا کہیں کہ ابھی اقوام متحدہ کے منشور کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بڑی طاقتوں نے جن میں سوویت یونین بھی شامل تھا‘ فلسطین کو صہیونیوں کے حوالے کر کے دنیائے عرب کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ امیدیں تو عالمی نظام سے اس کے باوجود بھی جڑی رہیں مگر ہم نے نہ کبھی توسیع پسندی کو رکتے دیکھا اور نہ ان نظریاتی جنگوں کو جو ویتنام اور افغانستان میں ہوئیں۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا تو پھر عالمی صف بندی میں وہ بھونچال آیا کہ اس کے جھٹکے ہر چند سال بعد ہم دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اس وقت امریکہ کے اندر جو سیاسی طاقتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں‘ ان کی ایک جھلک تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی صورت دیکھ سکتے ہیں مگر پوری مغربی دنیا میں انہوں نے دائیں بازو کے نسل پرست گروہوں کو ہوا دی ہے۔ انہوں نے کتنے فخر سے دنیا کو بتایا کہ ان کے کہنے پر برطانیہ کے بادشاہ نے ان کے لیے شاہی دعوت میں لندن کے ہر دلعزیز میئر صادق خان کو نہیں بلایا تھا۔ اور یہ کہ میں انہیں بالکل پسند نہیں کرتا۔ مغرب میں نئی ابھرتی ہوئی نسلی فسطائیت کے خلاف جو آوازیں اٹھ رہی ہیں‘ ان کے خلاف امریکہ پابندیاں لگا کر دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے۔ دوسری عالمی جنگ فسطائیت اور اس کی داخلی اور خارجہ توسیع پسندی کے خلاف لڑی گئی تھی۔ آج ہم سب کچھ کسی اور سمت جاتا دیکھ رہے ہیں۔ جارحیت‘ نسل پسندی‘ نسل کشی اگر کمزور اور دیگر رنگوں کے لوگوں کی ہے تو دنیا کے طاقتور ملکوں میں اس کی کھلی نہیں تو خاموش تائید کا اشارہ ضرور ملتا ہے۔ طاقت کی بنیاد پر کھڑے عالمی نظام میں نظریہ‘ اصول اور انسانیت کمزور دلیل ہی رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں