جو ظلم و بربریت کی انتہا سندھی اور سرائیکی مزدووںکے ساتھ بلوچستان میں ہوئی اور اس سے پہلے پنجابیوں کے ساتھ ہوتی رہی‘ اس کے بعد کیا لکھا جائے؟ دوست لکھاریوں ارشاد عارف‘ عامر خاکوانی اور حسن مجتبیٰ نے لکھنے کے لیے چھوڑا ہی کیا ہے؟ سب دکھی گیت لکھ دیے ہیں‘ جن کے اندر وہی دکھ موجود ہے جو سرائیکیوں کے مزاج میں رچ بس گیا ہے۔
شاید میرے اندر کہیں احساسِ جرم بھی ہے۔ میں بھی ان لکھاریوں میں شامل ہوں جو اسلام آباد میں رہتے ہوئے بلوچستان کو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ سے نہیں دیکھتے اور بلوچوں کے حقوق کے حامی رہے ہیں ۔ تو کیا ہماری حمایت اس لیے تھی کہ آپ غریب پنجابیوں، سرائیکیوں اور سندھیوں کو بسوں سے اتار کر قطار میں کھڑا کر کے گولیاں ماریں یا پھر سوئے ہوئے نوجوان بچوں کو رات گئے اٹھا کر شناخت کے بعد قتل کردیں اور بہادری کے نغمے گائیں کہ آپ نے اپنی بلوچ قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے؟ اپنے لوگوں کو تسلی دیں کہ آپ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں نہتے مزدوروں کا لہو بہانا جائز ہے؟ اگر آپ مظلوم تھے اور ہمارے جیسے لکھاری آپ کے دکھ کو سمجھتے تھے تو کیا جن مزدوروں کو آپ نے مارا ہے وہ مظلوم نہیں تھے جو اپنے گھر چھوڑ کر پردیس میں روزی کی تلاش میں گئے تھے؟
آپ کا استحصال ہورہا تھا تو کیا ان مزدوروں کا نہیں ہورہا جو پنجاب سے ہیں لیکن بدترین استحصال کا شکار ہیں؟ وزیراعلیٰ پنجاب کو چھوڑیں‘ کوئی ایم این اے تک ان مزدوروں کے روتے بچوں کا دکھ بانٹنے نہیں گیا ۔ اگر یہ سب مزدور اس طاقتور طبقے سے تعلق رکھتے ہوتے جو آپ بلوچوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے‘ تو کیا وہ بلوچستان کی بے رحم پہاڑیوں میں اپنی جوانیاں اس طرح ضائع کررہے ہوتے؟ اگر انہیں دس پندرہ ہزار روپے کی مزدوری اپنے علاقوں میں مل جاتی تو کیا وہ اتنی دور بے رحم آسمانوں کے نیچے کام کرنے جاتے اور آپ کے ہاتھوں مارے جاتے؟
عجیب و غریب خیالات مجھ پر حملہ آور ہیں۔ کیا جو دوسروں کو مارتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ زندہ رہنے کا حق صرف انہی کو ہے؟ کیا فرق پڑتا ہے‘ قاتل چند برس مزید جی لیں گے۔ کچھ چند برس پہلے تو کچھ چند برس بعد‘ مریں گے تو سب ۔ ان چند برسوں میں‘ جب تک موت کا فرشتہ آپ کو آ نہیں دبوچتا‘ کہاں لکھا ہے کہ آپ اس دھرتی کو قتل گاہ بنانے کا حق رکھتے ہیں؟
میرے خیالات کا تسلسل اس وقت ٹوٹا جب میری بیوی نے ٹی وی پر ان بے رحمی سے مارے گئے مزدوروں کی خواتین کو دیکھا اور چیخ پڑی کہ غربت اور بھوک سے ان بے چاریوں سے تو رویا بھی نہیں جارہا ۔ لگتا ہے عمر بھر انہیں ایک وقت کا کھانا بھی جی بھر کر نصیب نہیں ہوا۔ میں نے ٹی وی سکرین کی طرف دیکھا تو سمجھ آیا کہ غربت چہرے پر کیسے لکھی ہوتی ہے۔ میں ان غربت زدہ چہروں کو دیکھتا رہا جن سے اپنے جوان بچوں کی المناک موت پر رویا بھی نہیں جارہا تھا۔ بیگم ان مظلوم عورتوں کے غم میں ڈوبی رہی اور میں اپنے خیالات میں۔ اس کا خیال تھا میں کچھ بولوں گا‘ مگر میں چپ رہا۔ اچانک میں بولا‘ تمہیں علم ہے سرائیکیوں کو کیا کیا طعنے سننے پڑتے ہیں؟ سرائیکی سست ہیں‘ کاہل ہیں‘ گھر سے باہر نکلیں تو پردیسی بن جاتے ہیں‘ مونجھ آتی ہے‘ گائوں کے علاوہ کہیں کام نہیں کر سکتے‘ بھوکے مر جائیں گے لیکن دھرتی چھوڑ کر نہیں جائیں گے‘ سرائیکی منافق ہیں‘ بزدل ہیں‘ مگر ان نفسیاتی وجوہ پر کسی نے غور کیا کہ سرائیکی ایسے کیوں ہوتے ہیں؟
تاریخ میں جتنے حملے سرائیکی علاقوں میں ہوئے‘ وہ شاید ہی کسی اور خطے میں ہوئے ہوں ۔ اشوکا سے لے کر سکندر یونانی، محمود غزنوی اور دیگر کئی حملہ آوروں کی جنگیں اسی خطے میں لڑی گئیں۔ حملہ آور کہیں سے بھی ہندوستان پر حملہ آور ہوتے‘ ان علاقوں میں سے تباہی مچاتے گزرے جو آج سرائیکی علاقے کہلاتے ہیں ۔ سندھ کے کناروں پر آباد بستیوں کو تہس نہس کرتے‘ چناب عبور کر کے ملتان پر حملہ آور ہوتے اور اس کے بعد ہندوستان کے دیگر شہروں کا رخ کرتے اور بالآخر دلی پر جا قابض ہوتے۔ ایک مثل مشہور تھی ''جس کا ملتان مضبوط ہے اس کا دلی محفوظ ہے‘‘۔ جو حملہ آور ملتان کو فتح کر لیتا‘ وہ دلی کو بھی کچھ عرصے بعد زیرتسلط کر ہی لیتا ۔ اس لیے جب منگولوں کو‘ بادشاہ بلبن کے دور میں ملتان میں اس کے بیٹے گورنر محمد نے شکست دی تو تاتاری ملتان سے ہی واپس لوٹ گئے اور ہندوستان تباہی سے بچ گیا تھا ۔
اکثر لوگ طعنے دیتے ہیں کہ سرائیکی جنگجو نہیں ہوتے۔ کیسے ہوں؟ جن علاقوں سے سندھ، ستلج، چناب گزرتے ہوں ، چار موسم اپنا رنگ دکھاتے ہوں ‘ زرخیز زمین پر فصلیں پکتی ہوں‘ پانی وافر ملتا ہو‘ ان کے باسی کیونکر جنگجو ہوں گے؟ وہ کیوں گلے کاٹیں گے؟ تلوار تو وہ اٹھائے گا جس کے پاس پہاڑوں اور صحرائوں میں کھانے کو کچھ نہیں ہوگا ۔ تاریخ میں مذکور اکثر حملہ آور پہاڑوں اور صحرائوں کی پیداوار ہیں اور دریائوں کے کناروں پر آباد لوگ اور زرعی معاشرے ان کے ظلم اور حملوں کا نشانہ بنے ہیں ۔ ہندوستان کے لوگ کیوں دوسرے ملکوں پر حملہ کرتے جب ان کو صبح شام کھانے پینے کو وافر مل جاتا تھا؟ اس لیے جب ان علاقوں پر بھوک کے مارے حملہ آور ہوتے تو وہ سب کچھ ہاتھ باندھ کر حوالے کر دیتے کیونکہ انہیں امید ہوتی کہ وہ اگلے سال اسی زمین سے نئی فصل لے لیں گے‘ اس وقت جان تو بچائیں ۔ ہر نئے موسم کے ساتھ سرائیکی علاقوں میں نئے حملہ آور افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے آتے اور سب کچھ لوٹ کر لے جاتے۔ یوں زراعت کے ساتھ جڑے یہ زرعی معاشرے اپنی جانیں بچانے کے لیے ایسے رویوں کے عادی ہوئے جن کا آج مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان کی ڈپلومیٹک زبان اور رویوں‘ جو انہوں نے حملہ آوروں سے جانیں بچانے کے لیے اختیار کیے تھے‘ کو آج منافقت کا نام دیا جاتا ہے۔ جو ان سے سب کچھ لوٹ لیتے تھے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی نہیںچھوڑتے تھے وہ بہادر اور جنگجو کہلاتے ہیں۔ آج بھی حملہ آوروں کے گیت گانے والے ملتے ہیں لیکن سرائیکی بزدل اور منافق ٹھہرائے جاتے ہیں کہ انہوں نے دوسرے ملکوں میں جاکر انسانوں کا لہو نہیں بہایا۔
آج اگر سرائیکی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتا تو اس کے پیچھے صدیوں کا وہ خوف ہے جو ان بیرونی حملہ آوروں نے ان کے اندر اتار دیا تھا۔ وہ خوف آج سرائیکیوں کی نسلوں کی روح اور ڈی این اے تک میں داخل ہوچکا ہے۔ ماں ڈرتی ہے بیٹا باہر گیا تو ایسا نہ ہو کہ واپس نہ لوٹے! کسی بیرونی حملہ آور جتھے کے ہتھے نہ چڑھ جائے! پتہ نہیں کتنے ایسے نوجوان ان حملہ آوروں کے ہاتھوں مارے گئے ہوں گے‘ جن کی قبروں کے نشان تک نہ ملے۔ آج بھی کوئی گھر سے باہر نکلے تو ماں مصلّے پر بیٹھ جاتی ہے۔ گڑگڑا کر جو دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ میں ان کا خود عینی شاہد ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ کیا نفسیاتی خوف تھا جو ہماری مائوں کے دلوں میں تھا کہ پردیس نہیں جانا۔ ایک انجانے وچھوڑے کا خوف جس نے صدیوں کا سفر طے کیا تھا۔ ہر ماں کی زبان پر ایک ہی دعا ہوتی: ''میڈا پتر‘ جتھ پیر ہووی، اتھے خیر ہووی‘‘۔
تو پھر سرائیکی کیا کرتے؟ کہاں جاتے؟ گھر میں کچھ نہیں رہا ۔ چولستان اور تھل کی زمین باہر سے آنے والوں نے آپس میں بانٹ لی ۔ کوئی نوکری نہیں ۔ کوئی انڈسٹری نہیں۔کتنے لوگ کھیتوں میں کام کریں؟ زمین نہیں رہی ۔دریائے ستلج سوکھ گیا۔ سندھ سوکھ رہا ہے۔ تنکے اور مٹی سے بنے گھروں کے باسی پھر کیا کریں ؟ مائیں کیا کریں؟ ان مائوں نے حوصلہ دکھایا کہ بچوں کو پردیس جانے دیا تو انجام سب کے سامنے ہے۔ اب کتنی مائیں حوصلہ کر سکیں گی کہ وہ اپنے بچوں کو دوبارہ پردیس بھیجیں؟
اگر آپ سرائیکی فوک میوزک سنیں تو اندازہ ہوگا کہ سرائیکیوں کی نفسیات میں یہ خوف ہے کہ جو بھی پردیس گیا وہ واپس نہیں لوٹا ۔ سرائیکی نفسیات میں پردیس کو ہمیشہ ایک ولن کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اور اب اگر یہ مزدور بچے‘ صدیوں کی نفسیاتی غلامی سے نکل کر پردیس میں‘ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں پہنچ ہی گئے تو بھی مارے گئے۔ اسی لیے مائیں کہتی ہیں‘ تھوڑا کھانے کو مل جائے خیر ہے‘ بیٹا آنکھوں کے سامنے تو رہے گا۔ اسی سوچ کی وجہ سے سرائیکی طعنے سنتے رہتے ہیں۔
شاید طاقتور سے خوفزدہ اور کمزوروں کے لیے شیر بنے ان بے رحم قاتلوں کے ہاتھوں گولیاں کھا کر پردیس کی بے رحم دھرتی پر اپنے لہو میں لت پت ان نوجوان بچوں کے کانوں میں کہیں دور سے اپنی ماں، بیوی، بہن یا محبوبہ کا منتیں ترلے کرتا یہ گیت گونجا ہو۔ ایک ایسا فوک گیت جو سرائیکی اپنے پیاروں سے وچھوڑے کے خوف سے صدیوں سے گاتے اور کُرلاتے آئے ہیں!
ڈھولا لمے (پردیس) نہ ونج وے
لما دور دا پندھ (سفر) اے
لما دور سنڑیندا
جتھوں ول نئیں اَویندا
نئیں وطن چھوڑیندا
او بھیڑا پردیس داغم وے
او ڈھولا لمے نہ ونج وے
سارے لوک لمے دے
گلاں نال ٹھگیندے
نئیں او توڑ چڑیہندے
بوا (دروازہ) نہ کر توں بند وے
ڈھولا لمے نہ ونج وے
لما جھیڑا جو گیا
او‘ ول کے نئیں آیا
میڈا چھوڑ نہ سنگ وے
ڈھولا لمے نہ ونج وے
( ترجمہ : میری جان ! پردیس نہ جائو۔ سنا ہے جنوب (پردیس) بہت دور ہے۔ سنا ہے جنوب جو بھی گیا وہ واپس نہیں لوٹا ۔ پگلے بھلا اپنے وطن کو بھی کوئی چھوڑتا ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ۔ میںتمہارے پردیس جانے پر اداس ہوں ۔ سنا ہے پردیس کے چالاک لوگ بندوں کو ٹھگ لیتے ہیں ۔ یہ بھی سنا ہے پردیس کے لوگ کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ تم اپنا گھر کا دروازہ بند کر کے نہ جائو۔ تمہیںپتہ ہے جو بھی پردیس گیا ہے وہ واپس نہیں لوٹا۔ میری جان۔ میرا ساتھ چھوڑ کر نہ جائو۔ خدارا نہ جائو... پردیس مت جائو)