سردیوں کا موسم اپنے گائوں میں گزارنے کو جی چاہتا ہے لیکن ایک دن سے زیادہ نہیں گزار پاتا ۔ ہر طرف پھیلی دھوپ ، گھر کے باہر تاحد نظر پھیلے کھیت ، چارپائی پر لیٹ کر کوئی ناول، کہانی، سب رنگ کے پرانے شمارے، محمد طفیل مرحوم کے نقوش کے خاص نمبرز پڑھنے کو من چاہتا ہے۔ اس دفعہ میں نقوش کے پرانے شمارے ساتھ لے گیا تھا۔
مجھے بلونت سنگھ بہت پسند ہے اور نقوش میں اس کے بہت افسانے چھپے تھے۔ بلونت سنگھ سے بہتر پنجاب کے کلچر پر شاید ہی کوئی لکھ سکا ہو۔ مجھے بلونت سنگھ کی تحریریں اپنے دل کے قریب محسوس ہوتی ہیں ۔ اس کے ناول ہوں یا کہانی، ہرجگہ ڈھونڈتا ہوں ۔ سب رنگ کا 1979 ء کا پرانا شمارہ بھی لے گیا تھا ۔ اس میں بھی بلونت سنگھ کا افسانہ پڑھا تو کتنی دیر تک اس کے ٹرانس میں رہا ۔ نقوش میں بلونت سنگھ کا مشہور زمانہ افسانہ 'جگا‘ پڑھا ۔ کمال کا افسانہ ہے۔
گائوں کی خاموش اور گہری رات میں بلونت سنگھ کے کمال کے اس افسانے کی لذت اسلام آباد پہنچ کر بھی باقی ہے۔ ابوالفضل صدیقی، قاضی عبدالستار، جیسے لکھاریوں کی تحریریں پڑھنے کے لیے ضروری ہے آپ کسی گائوں میں پھیلی دھوپ میں چارپائی پر لیٹے ہوں ۔ آپ تبھی ان کی تحریروں کی خوبصورتی محسوس کر سکتے ہیں۔
اس دفعہ گائوں جانا تھا کیونکہ نعیم بھائی کی برسی قریب آرہی تھی اور ان کے پرانے دوست ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال نے ہمارے گائوں میں فری میڈیکل کیمپ اور ادویات کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس سے بہتر اپنے دوست کو یاد کرنے کا بہتر طریقہ نہیں ہوسکتا تھا جو ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال نے اختیار کیا تھا ۔ لیہ کے ہمارے ڈاکٹر جاوید کنجال اور ان کے ڈاکٹر بھائی اور دیگر ٹیم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ تک نہیں۔
میرا جانا ضروری تھا ۔ چھوٹے بھائی خضر نے پہلے ہی بندوبست کر رکھا تھا ۔ مجھے توقع نہیں تھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئیں گے۔ ڈاکٹر جاوید کنجال گیارہ بجے دن سے لے کر شام گئے تک مریضوں کو دیکھتے رہے اور دوائیاں بھی بانٹتے رہے۔ درمیان میں کئی دفعہ کہا ،کھانا کھا لیں، بولے اس وقت زیادہ ضروری کام میں مصروف ہوں اور جو خوشی ان غریب لوگوں کے علاج اور انہیں دوائی دینے میں مل رہی ہے وہ بھلا کھانے میں کہا ۔ ڈاکٹر کنجال پیپلز پارٹی سے سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ لیہ میں پیپلز پارٹی کی عزت بچ گئی ہے تو اس میں ڈاکٹر کنجال کا بڑا ہاتھ ہے۔
لیہ میں ڈاکٹر جاوید کنجال کے بارے میں مشہور ہے وہ فارما سوٹیوکل کمپنیوں سے دیگر ڈاکٹروں کی طرح گاڑیاں ، فریج، ایئرکنڈیشنر، سیر سپاٹے اور فرنیچر لینے کی بجائے مفت دوائیاں لیتے ہیں جو وہ لیہ کے مختلف غریب علاقوں میں فری کیمپ لگا کر مریضوں میں بانٹ آتے ہیں ۔ میں گھر کے باہر بیٹھا مجمع میں موجود لوگوں کی شکلیں دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ ہم کہتے ہیں کہ گائوں کے لوگوں کو اصلی اور نسلی قسم کی خوراک ملتی ہے اور یہ زیادہ صحت مند ہوتے ہیں ۔ میرے بس میں ہوتا تو وہ سب تصویریں میں یہاں شیئر کرتا کہ دیکھیں کہ گائوں میں انسانوں کی کیا حالت ہوگئی ہے۔ یرقان کی بیماری بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہر دوسرا بندہ بیمار ہے۔ ہر ایک کو دوائی کی ضرورت ہے۔ یہ سن کرکہ دوائی بھی مفت ملے گی اور ڈاکٹرز بھی چیک اپ کے لیے موجود ہوں گے مجھے یوں لگا جیسا پورا علاقہ وہاں امڈ آیا ہو۔ خضر نے اچھا کیا کہ کھانے کی کئی دیگیں پکوا رکھی تھیں تاکہ دور دراز سے آنے والے ان غریب لوگوں کو کچھ کھانے کو بھی مل سکے۔
یاد آیا برسوں قبل شہباز شریف جب نئے نئے وزیراعلیٰ بنے تھے تو انہوں نے پنجاب ہائوس اسلام آباد بلوا کر پوچھا تھا کہ کوئی خدمت ہو تو بتائیں کیونکہ لندن کے دوران ان سے اچھا تعلق بن گیا تھا۔ میں نے فرمائش کی ‘جیسل کلاسرا گائوں میں ایک ہسپتال بنوا دیں، حالت بہت خراب ہے۔ لوگ مر جاتے ہیں، ہسپتال تک نہیں پہنچ پاتے۔ خواتین خصوصا ًشکار ہوتی ہیں۔ گائوں کی حالت بہت خراب تھی لہٰذا درخواست کی تھی اگرگلیاں بن جائیں، سکول اپ گریڈ ہوجائیں ، تو بھلا ہوگا۔ اچھے دن تھے۔ وہ لندن سے نئے نئے لوٹے تھے۔ لہٰذا انہوں نے فورا حکم دیا اور گائوں میں کچھ کام ہوئے۔ باقی ادھورے رہ گئے۔ حسب معمول آدھے سے زیادہ فنڈز لیہ کی بیوروکریسی کھا گئی۔ ہسپتال نہ بننا تھا‘ نہ بنا ۔ درمیان میں، میں نے پنجاب کے محتسب جاوید محمود صاحب کی مدد مانگی۔ ان کے میڈیا ایڈوائزر عابد بھٹی بڑے زبردست افسر ہیں۔ عابد کی طرح کم افسران دیکھے ہیں جنہیں کام سے محبت ہے اور اس سے بڑھ کر مظلوم سے محبت ہے۔ ان کی مہربانی کہ انہوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ بیوروکریسی ہی کیا جو لیہ کے کسی گائوں میں کام ہونے دیتی اور یوں آٹھ برس گزر گئے ہسپتال نہ بن سکا۔ میں بھی نالائق نکلا کہ شہباز شریف سے لندن کے دنوں کے بنائے گئے تعلقات کو اپنی خبروں کی نذر کر بیٹھا ۔ شاید وہ توقع رکھتے تھے اگر گائوں کی گلیاں بنوائی تھیں تو پھر قلم سے بھی ان کا ساتھ دیتا جو نہ دے سکا ۔ میری نالائقی کی وجہ سے میرے گائوں کے غریب لوگ ابھی تک مصیبت کا شکار ہیں ۔ کوئی دوائی، کوئی علاج نہیں ....گائوں کے ایک معزز زمیندار حاجی اصغر کلاسرا نے اپنے مرحوم بیٹے کے نام پر گائوں میں ہسپتال کے لیے زمین بھی فراہم کر دی تھی ۔ جاوید محمود نے بھی اپنا پورا زور لگا کر دیکھ لیا لیکن لاہور کی بیوروکریسی اور لیہ کے ڈپٹی کمشنرز نے مشترکہ فیصلہ کیا ہوا تھا اس کے لیے کبھی فنڈز نہیں ملیں گے اور نہیں ملے۔ موجودہ ڈپٹی کمشنر لیہ کے بارے میں تو مشہور ہے وہ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں لہٰذا انہیں کھلی چھٹی دی گئی ہے کہ بقیہ چند ماہ میں وہ اپنی دنیاوی زندگی جتنی سنوار سکتے ہیں‘ سنوار لیں اور وہ اس پیشکش سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سیلاب زدگان علیحدہ رو رہے تھے۔ پورا نشیبی علاقہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ کوئی سڑک سکول نہیں بچا۔ سیلاب سب کچھ بہا لے گیا۔ ڈپٹی کمشنر کو کبھی توفیق نہ ہوئی‘ کہ وہ ایک دفعہ ان علاقوں کا دورہ کرتے جہاں سیلاب نے تباہی مچائی تھی اور کچھ سڑکیں بنوادیتے۔ موصوف اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کے بندوبست میں مصروف ہیں اور ماشاء اللہ خاصے کامیاب جارہے ہیں۔
اپنے لیہ کے ایم این اے کی یہ حالت ہے کہ ثقلین شاہ بخاری کو احسن اقبال کی وزارت کے ساتھ پارلیمانی سیکرٹری لگایا گیا ہے۔اس وزارت کا کام منصوبہ بندی کرنا ہے اور منصوبوں کی منظوری دینا ہے۔ منگل کے روز اس وقت دلچسپ ماحول پیدا ہوا جب ثقلین بخاری قومی اسمبلی میں مختلف علاقوں کے ایم این ایز کو مبارکباد دے رہے تھے جناب آپ کے علاقے میں بھی ترقی ہوگی کیونکہ اب پاکستان چین کوریڈرو وہاں سے گزرے گا۔ انہوں نے پشتونوں ، سندھیوں، بلوچوں، پنجابیوں سب کو مبارک باد دی۔ تاہم وہ یہ بات بھول گئے جس لیہ کے ضلع سے وہ آئے ہیں وہ ساری دریائے سندھ کی چار سو کلومیٹر طویل ساری پٹی پس ماندہ ہی رہے گی۔ میانوالی سے لے کر بھکر، چوک اعظم، لیہ، کوٹ ادو، مظفر گڑھ، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان تک چار سو کلومیٹر سے زائد پٹی پر سڑک نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ حادثات میں مر رہے ہیں ۔ جو لوگ تلہ گنگ سے میانوالی، بھکر، لیہ کا سفر کرتے ہین انہیں اندازہ ہوگا کہ ان علاقوں میں کیا بربادی ہوچکی ہے۔ چین اقتصادی راہداری ان علاقوں سے گزارنے کی بجائے اسے ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام آباد ، لاہور، فیصل آباد اور ملتان کی طرف لے جایا گیا ہے‘ جہاں سے یہ سندھ جائے گی اور وہاں سے بلوچستان ۔ لیکن کوئی بولنے کو تیار نہیں ہے زیادہ غربت اور پس ماندگی تو میانوالی، بھکر، لیہ، کوٹ ادو، چوک اعظم، مظفرگڑھ، راجن پور اور ڈیرہ غازی کے علاقوں میں ہے اور وہاں سے بلوچستان قریب پڑتا ہے۔ دوسری بات ہے یہ کہ اسلام آباد ،لاہور، فیصل آباد اور ملتان تو پہلے ہی موٹر وے سے جڑ رہے ہیں لہٰذا زیادہ توجہ دریائے سندھ کے کناروں پر رہنے والے پسماندہ اور غریب علاقوں پر دی جاتی جہاں کوئی انڈسٹری نہیں ہے، جہاں کوئی ملازمت نہیں ملتی۔جہاں غربت کا جن ہر ایک کو گرفت میں لے چکا ہے۔ آپ ان علاقوں کے لوگوں کے چہروں پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ کو پتہ چل جائے گاکہ شائد ان لوگوں نے مدت ہوئی کچھ نہیں کھایا ہوگا۔ کسی کے پاس کوئی نوکری نہیں ۔ جس طرح کی ادھوری تعلیم آئی اس سے ان علاقوں میں بیروزگاری کا
سیلاب آرہا ہے۔ پہلے یہ غریب کوئی بھی مزدوری کر لیتے تھے۔ اب ان کے میٹرک پاس بچے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سب سرکاری نوکری چاہتے ہیں۔ نہ ان علاقوں میں کوئی انڈسٹری ہے اور نہ ہی کوئی کام کاج۔ سرائیکی علاقے کے نوجوان نوکری مانگنے جائیں تو ہر کوئی میرٹ کی بات کرتا ہے۔ میرے نزدیک ان علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا یہی میرٹ ہے انہوں نے میٹرک، ایف اے، بی اے یا ایم اے کر لیا ہے۔ لیکن یہ بات بھلا شہری بابوئوں کو کہاں ہضم ہوتی ہے لہذا ان سرائیکی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ اب پتہ چلا ہے کہ تونسہ ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں افغانیوں نے ہجرت کر کے رہنا شروع کر دیا ہے۔ ہر ایک کے پاس اسلحہ ہے۔افغانیوں نے مقامی آبادیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یوں ان پرامن سرائیکی علاقوںمیں جہاں پہلے غربت تھی تو اب اللہ کے فضل سے افغان بھی پہنچ گئے ہیں۔ ایک طرف غربت مار رہی ہے تو دوسری طرف افغان مار رہے ہیں۔ یہ ہے قسمت ان سرائیکی علاقوں کی جہاں کا ایم این اے کھڑا ہو کر پورے ملک کو مبارکباد دیتا ہے کہ جناب دیکھو پاک چین کوریڈور آپ کے علاقوں میں کیا کیا کرشمے دکھائے گا اور اپنے علاقے کی یہ حالت ہے کہ وہاں کوئی سڑک آپ کو سالم نہیں ملتی۔
لاہور کے حکمران بھی جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو سرائیکی علاقوں سے سامنے لاتے ہیں جو اپنے علاقوں کو پس ماندہ رکھ کر دوسرے علاقوں کے ایم این ایز کو مبارکباد دیں۔
اس سے زیادہ میرے لیہ کی بدقسمتی اور مذاق کیا ہوگا کہ ثقلین شاہ بخاری کو منصوبہ بندی کی وزارت کا پارلیمانی سیکرٹری لگایا جاتا ہے اور اس کے اپنے علاقے میں کوئی ایک پراجیکٹ بھی نہیں ہے۔ جب وہ پورے ایوان میں رٹے ہوئے جوابات بتا رہے تھے کہ پاک چین کوریڈور کے تحت کن کن علاقوں میں منصوبے شروع ہورہے ہیں اور کہیں بھی تلہ گنگ، میانوالی، بھکر، لیہ، چوک اعظم ڈیرہ غازی خان، راجن پور تک کا ذکر نہیں تھا تو مجھے پریس گیلری میں بیٹھ کر وزیرپانی و بجلی خواجہ آصف کے وہ تاریخی الفاظ یاد آرہے تھے...کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘کچھ گریس ہوتی ہے!