مجھے ہاتھوں سے لکھی گئی کتابیں پڑھنا زیادہ پسند ہے۔ کمپیوٹر کی لکھائی نے دنیا بدل دی ہے لیکن آج بھی میری پہلی ترجیح ہاتھ کی کتابت والی کتاب ہوتی ہے۔ لاہور میں میرے دوست ریاض گمب نے مجھے قرۃ العین حیدر کی تصنیف 'کارِ جہاں دراز ہے‘ خرید کر دی تھی لیکن وہ برسوں میرے بستر کے قریب پڑی رہی کیونکہ وہ جدید کمپیوٹر کی اردو لکھائی میں چھپی ہوئی تھی۔ مجھے شاید یہ عادت ڈائجسٹ سے پڑی۔ ستر اور اسی کی دہائی میں سب رسائل کی کتابت ہاتھ سے کی جاتی تھی۔
نقوش کے پرانے شمارے ڈھونڈے تو ان میں ہاتھ کی کتابت والی ''کارِ جہاں دراز ہے‘‘ کی قسطیں تھیں۔ وہ پڑھنے بیٹھ گیا اور ساری پڑھ کر ہی دم لیا۔ ابھی پرانی کتابوں سے مکتبہ اردو ادب کا شائع کردہ ''کارِ جہاں دراز ہے‘‘ کا پرانا ایڈیشن خریدا تو دل پھر مچل اٹھا کہ دوبارہ پڑھا جائے۔ ساتھ ہی جوش ملیح آبادی کی ''یادوں کی برات‘‘ کا بھی بہت پرانا ایڈیشن بھی پرانی کتابوں سے مل گیا۔ جوش صاحب اور نہرو صاحب کی دوستی بہت مشہور تھی۔ کنور مہندر سنگھ بیدی نے بھی تفصیل سے کئی واقعات جوش صاحب اور نہرو بارے لکھے ہیں‘ اس لیے اب میں نے جوش صاحب کی یہ پرانی کتاب دوبارہ پڑھنا شروع کی تو میرے ذہن میں پہلا خیال یہی ابھرا کہ باقی چھوڑیں دیکھتے ہیں نہرو پر جوش صاحب نے کیا لکھا تھا۔ آج کل تو پاکستان اور بھارت کے مابین جس طرح کے حالات ہو گئے ہیں‘ اس کے بعد ایک دوسرے کے سیاسی لیڈروں کی تعریف کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ بھارت میں کوئی جناح صاحب کی تعریف کرے تو اس کا حشر ہو جائے۔ پہلے یہ سب نہیں ہوتا تھا لیکن اب یہاں بھی یہ کام شروع ہو رہا ہے۔ تازہ ترین مثال گاندھی جی کی ہے جن کے فرمودات پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی کہ اس سے پاکستان کی نئی نسل گمراہ ہو رہی تھی۔
ان حالات میں جب جوش صاحب کی کتاب میں نہرو کا ذکر پڑھنا شروع کیا تو یہی بات ذہن میں آئی کہ کیا ہمارے ہاں ابھی اتنا ظرف بچ گیا ہے کہ کسی انسان کو اس کے سیاسی یا فکری خیالات سے ہٹ کر بھی پرکھ سکیں؟ ویسے ایک بات کہنے دیں‘ نہرو سے تمام تر سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود جب آپ جوش صاحب کی نہرو پر کمنٹری پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اتنے بڑے عہدوں پر ایسے نہیں پہنچ جاتے۔ کچھ نہ کچھ ایسی بات ضرور ہوتی ہے جو انہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔ میں پہلے جب لوگوں کی یہ بات سنتا تھا کہ فلاں صاحب میں بڑا ظرف ہے تو مجھے کبھی سمجھ نہ آتی یہ ظرف کس بلا کا نام ہے۔ کسی بندے میں ظرف کو کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کیا مروت اور ظرف ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یا مختلف؟ اب جب جوش صاحب کی نہرو پر لکھی گئی تحریر پڑھی تو پتہ چلا کہ ظرف کس چڑیا کا نام ہے۔
بندہ وزیر اعظم بن جائے تو بھی ایک شاعر کی حجت، غصہ اور سخت انداز کو ہمیشہ ہنس کر ٹال جائے‘ یہ کیسے ممکن ہے۔ آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہوں اور ایک شاعر آپ کو سخت ترین خط لکھے اور آپ اپنی بیٹی اندرا کو کہیں کہ جوش صاحب مجھ سے ناراض ہیں‘ تم انہیں گھر بلائو‘ وہ میرے کہنے پر نہیں آئیں گے۔ ایک بار جوش صاحب کو پتہ چلا کہ نہرو کمبھ کے میلے میں شریک ہونے الہ آباد گئے تھے۔ ان کے بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ غصے میں بھرے نہرو کے پاس گئے اور کہا: بروٹس تم بھی؟ نہرو نے پوچھا: صاحب کیا غلطی ہوگئی کہ آپ مجھے بروٹس سے ملا رہے ہیں؟ جوش بولے: ویسے تو آپ بڑے دعوے کرتے ہیں کہ آپ کا دنیا کے کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے‘ لیکن پھر سنتا ہوں آپ کمبھ کے میلے میں گئے تھے۔ نہرو بولے: صاحب میں اگر وہاں پجاری کی حیثیت سے جاتا تو آپ کا اعتراض جائز تھا‘ میں تو وہاں عوام کے مزاج کے مطالعے کے واسطے گیا تھا۔ جوش صاحب بولے: نہیں صاحب آپ وہاں اپنے ووٹ کھرے کرنے گئے تھے۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر کاٹجو آ گئے۔ پنڈت جی نے ان سے کہا: جوش صاحب مجھ پر اعتراض کر رہے ہیں میں کمبھ کے میلے کیوں گیا تھا۔ اس پر کاٹجو نے کہا: یہ تو خیر میلے کی بات ہے مجھے تو جوش صاحب نے ایک دن پوجا کرتے دیکھ کر کہا تھا‘ کاٹجو صاحب آپ بالغ ہونے کے باوجود پوجا کرتے ہیں۔ پنڈت نہرو نے قہقہہ لگایا اور کہا: کاٹجو جی اس پر تو میں جوش صاحب کا ہم خیال ہوں۔ جوش صاحب لکھتے ہیں: تقسیم ہند کے بعد سردار پٹیل‘ جو وزیر داخلہ تھے‘ نے اس وقت کے دہلی کے مسلمان چیف کمشنر کے اختیارات زبانی احکامات کے ذریعے سلب کرکے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مسٹر رن دھاوا کے سپرد کردیے تھے۔ مسلمان لوٹے اور قتل کیے جا رہے تھے۔ اس بھیانک دور میں اگر نہرو کھل کر میدان میں نہ آتے اور اس آگ کو بجھا نہ دیتے تو دہلی میں ایک بھی مسلمان زندہ نہ بچتا۔
نہرو کو اردو زبان سے بھی بہت محبت تھی۔ ایک روز لکھنو سٹیشن پر ریلوے حکام کو بلا کر بری طرح ڈانٹ پلائی کہ آپ لوگوں نے مجھے نرا جاہل بنا کر رکھ دیا ہے‘ ہر طرف ہندی بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ نہرو اور اس کی بہنوں کے گھر اردو زبان ہی بولی اور پڑھی جاتی تھی۔ جوش صاحب نے رسالہ نکالا تو نہرو کو پیغام بھیجا کہ فوراً پیغام بھیج دیں ورنہ لڑائی ہو گی۔ نہرو نے فوراً پیغام لکھ کر بھیجا اور اس میں باقاعدہ لکھا کہ مجھے جوش صاحب نے دھمکی دی ہے کہ وہ جنگ کریں گے‘ اس لیے جلدی بھیج رہا ہوں۔ جواب میں جوش صاحب نے نہرو کو شکریہ کا خط لکھا اور شکایت بھی کی کہ آپ نے وہ پیغام اپنے سیکرٹری سے لکھوا کر بھیجا‘ آپ کو اپنے ہاتھ سے لکھنا چاہیے تھا‘ میرے ساتھ تو ایسا برتائو نہ کرتے۔ جوش صاحب کی اس شکایت پر نہرو نے خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجا اور معذرت کی کہ مصروفیت کی وجہ سے سیکرٹری سے خط لکھوایا تھا‘ آپ میری اس غلطی کو معاف کر دیں۔
جوش ایک دفعہ نہرو سے ملنے گئے تو وہ دروازے پر قدوائی صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔ جیسے ہی جوش نے برآمدے میں قدم رکھا اور نہرو سے آنکھیں چار ہوئیں تو وہ ایک سکینڈ میں روپوش ہو گئے۔ جوش صاحب کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے قدوائی صاحب سے کہا: اب ایک سکینڈ نہ رکوں گا‘ آپ پنڈت جی کو کہہ دیجیے گا کہ اپنی لیڈری اور وزارت عظمیٰ اپنے پاس رکھیں۔ قدوائی صاحب نے پوچھا: صاحب کیا ایسا ہوا کہ آپ غصے میں آگئے ہیں۔ جوش صاحب نے جواب دیا: آپ نے ابھی دیکھا نہیں کہ کیسے وہ مجھ سے سلام دعا، مزاج پرسی کیے بغیر اندر غائب ہو گئے۔ یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟ اتنی دیر میں نہرو دوبارہ نمودار ہوئے تو جوش صاحب منہ دوسری طرف کرکے کھڑے ہوگئے۔ نہرو نے پوچھا: جوش صاحب کیا معاملہ ہے؟ قدوائی صاحب نے سارا ماجرا بیان کیا۔ یہ سن کر نہرو‘ جوش کے قریب آئے اور کان میں کہا: مجھے اس قدر زور سے پیشاب آ گیا تھا کہ اگر ایک منٹ بھی رک جاتا تو پاجامے میں ہی نکل جاتا۔ یہ سن کر جوش صاحب نے انہیں گلے لگا گیا۔
ایک دفعہ جوش صاحب شملہ گئے ہوئے تھے تو وہاں پتہ چلا پنڈت نہرو بھی آئے ہوئے ہیں۔ ان کی جائے قیام پر فون کیا تو ریسیور ان کے نووارد سیکرٹری نے اٹھایا جو لہجے سے مدراسی لگ رہا تھا۔ اسے جوش صاحب کا پورا نام نہیں بولنا آتا تھا۔ اس نے پوچھا: آپ کے پارٹیکولرز )خصوصیات( کیا ہیں؟ جوش نے کہا: جو میرے پارٹیکولرز نہیں جانتا اسے ہندوستان رہنے کا حق نہیں ہے۔یہ سن کر مدراسی بولا: ہولڈ کرو‘ پنڈت جی سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔ دو منٹ بعد اس نے جوش کو بتایا: پنڈت جی کہتے ہیں ہم یہاں مجے )مزے( کرنے آیا ہے آپ ڈلی )دہلی( میں ملو۔ یہ جواب سن کر جوش کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ (جاری)