امریکہ میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ نیا صدر جو بائیڈن ہو گا یا پھر ٹرمپ ہی صدر رہیں گے۔ اس وقت امریکیوں کے لیے بڑا درد سر یہ بن گیا ہے کہ ہارنے کی صورت میں ٹرمپ کو وائٹ ہائوس سے کیسے نکالا جائے گا‘ کیونکہ وہ اپنی ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ٹرمپ صاحب کسی صورت ہار نہیں مانتے۔ زندگی بھر مسلسل کامیابیاں انہیں ذہنی طور پر اس بات کا قائل کر چکی ہیں کہ وہ دنیا میں پیدا ہی بڑے کاموں اور حکمرانی کے لیے ہوئے ہیں‘ خدا نے ان کے اندر ایسی خوبیاں ڈال دی ہیں جو عام انسانوں میں نہیں ہیں‘ انہیں کبھی زوال نہیں آ سکتا‘ ان کا سورج کبھی غروب نہیں ہو گا۔ اور جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو انہیں لگتا ہے ان کے خلاف پوری دنیا نے سازش کی ہے اور وہ حقائق ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔
یہ صرف ٹرمپ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہر اس بندے کے ساتھ ہوتا ہے جو مسلسل اوپر جاتا رہے، لیکن ایک دن اگر اسے نیچے آنا پڑے تو وہی سیڑھی اسے بری لگنا شروع ہو جاتی ہے جو اسے اوپر لے کر گئی تھی۔ جب زوال قریب آتا ہے تو بندے کو اچانک محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو بہت سارے کام رہتے ہیں۔ ابھی تو پوری دنیا کو ٹھیک کرنا باقی ہے۔ ابھی تو کتنے منصوبے میرے ذہن میں ہیں۔ ان سب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ مجھے زوال نہیں آ سکتا۔ مجھے شکست نہیں ہو سکتی۔ حکمرانوں کو مسلسل اپنی تعریف اور خوشامد سننے کی اتنی عادت ہو جاتی ہے کہ وہ ایک خیالی دنیا میں رہنا شروع کر دیتے ہیں‘ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
1999 کے واقعات کے بعد جب نواز شریف صاحب کو باہر بھجوا دیا گیا تو وہاں جدہ میں بھی وہ خود کو وزیر اعظم ہی کہلوانا اور سنسنا پسند کرتے تھے۔ جدہ کے سرور پیلس میں ان کے ملٹری سیکرٹری انہیں تب بھی مسٹر وزیر اعظم کہہ کر بلاتے تھے۔ نواز شریف صاحب وہ لفظ سننا چاہتے تھے‘ جن سے وہ آشنا تھے۔ وہ برسوں تک اس حقیقت کو تسلیم نہ کر سکے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم نہیں رہے‘ لیکن ان کے ارد گرد موجود لوگ انہیں یہی احساس دلاتے تھے۔ بینظیر بھٹو بھی اسی رومانس کا شکار تھیں۔
نصرت بھٹو کا وہ جملہ سب کو آج بھی یاد ہو گا کہ بھٹوز حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ حکمرانی کا تصور پورے بھٹو خاندان کو ختم کر گیا‘ لیکن حکمرانی کا راستہ پھر بھی ترک نہ کیا گیا۔ اپنے جیسے انسانوں پر حکم چلانے کا نشہ اتنا خوفناک ہے کہ بندہ پھانسی لگ جاتا ہے‘ جلا وطنی کا دکھ سہہ لیتا ہے اور ایک ہیرو کی زندگی ترک کر کے اپنے لیے مسلسل عذاب خرید لیتا ہے۔ وہ زندگی جس میں اگر ایک کروڑ بندہ آپ کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے تو ایک کروڑ مردہ باد بھی بولتا ہے۔ آپ دن رات اپنے دشمن کے بارے میں سوچتے ہیں‘ یہ کہ آپ اسے کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کیسے اپنی برتری ثابت کر سکتے ہیں۔ دوسروں سے ممتاز اور نرالا ہونے کا یہ شوق جہاں انسانوں کو تخت پر بٹھاتا ہے‘ وہیں یہ تختے پر بھی لے جاتا ہے۔
پھر آپ اپنی دنیا تخلیق کر لیتے ہیں جس میں آپ ہی اپنے ہیرو ہوتے ہیں‘ جس پر کبھی زوال نہیں آتا۔ بھارتی اداکار راجیش کھنہ کی موت پر ان کے دوست نے کہا تھا: وہ اپنے عروج کے زمانے میں سمجھتے تھے کہ وہ نہ کبھی بوڑھے ہوں گے‘ نہ انہیں موت آئے گی۔ وہ خود کو دیوتا سمجھ بیٹھے تھے۔ جب وہ بوڑھے اور تنہائی کا شکار ہوئے تو انہیں محسوس ہوا کہ اب انہیں ملنے کوئی نہیں آتا۔ ان کے دروازے پر اب ان کے فین کی بھیڑ نہیں لگتی۔ اب ان کا کوئی انتظار نہیں کرتا۔ اب انہیں کوئی خط نہیں لکھتا۔ اب کسی حسینہ کا دل ان کے لیے نہیں دھڑکتا۔ اب ان سے ملنے کا کوئی منتظر نہیں۔ اب وہ خوبصورت نہیں رہے۔ اب لاکھوں لوگ ان کی فلمیں نہیں دیکھتے کیونکہ اب وہ فلمیں کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اچانک ہم سب کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے اور پھر ہم اس نئی صورتحال کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
حکمران آج کے ہوں یا ہزاروں سال پہلے کے‘ سب خود کو دوسرے انسانوں سے بالا سمجھتے رہے ہیں۔ شاید اس میں ان کا قصور بھی نہیں کیونکہ وہ دوسرے لوگوں سے مختلف تھے، بہتر تھے تو بادشاہ بنے۔ آخر ان میں کچھ خاص تھا جو دوسروں میں نہیں تھا۔ قدیم ہندو متھ میں تو باقاعدہ انسانوں کو مختلف ذات پات میں بانٹا گیا کہ کون سے انسان افضل اور کون سے شودر ہیں‘ کون سے لوگوں کو اس دنیا میں حکمرانی کرنے بھیجا گیا ہے اور کون سے لوگ ان کے غلام اور محکوم ہوں گے۔ ان سب کرداروں کو ہم انسانوں نے قبول کیا۔
ویسے کبھی ہم نے سوچا کہ ہم جن انسانوں کی زندگیوں پر رشک کرتے ہیں ان کی اپنی زندگیاں کتنی مشکل کا شکار ہوتی ہیں۔ پچھلے سال آپ نے برطانوی شہزادی میگھن کا وہ آنسو نہیں دیکھا تھا جو ایک ٹی وی انٹرویو میں اس وقت ٹپک پڑا تھا جب ایک رپورٹر نے پوچھ لیا: آپ کا اپنا کیا حال ہے؟ پورے زمانے کی اپنے چہرے پر پھیلی اداسی کے درمیان انہوں نے جواب دیا تھا: بہت شکریہ کسی نے میرے بارے میں مجھ سے پوچھا تو سہی کہ میں کیسی ہوں۔ یہ وہ تنہائی تھی‘ اداسی تھی جو آپ کو بکنگھم پیلس میں رہ کر بھی خوش نہیں رہنے دیتی‘ اور آخر ایک دن وہ اپنی یہ زندگی چھوڑ کر محل سے نکل گئیں تاکہ ایک عام انسان کی زندگی جی سکیں۔ انہوں نے وہ زندگی چھوڑی جس کو پانے کے لیے اس دنیا کی ہر عورت کوشش کرے گی اور اس زندگی پر رشک کرے گی۔
دوسری طرف تصور کریں اس وقت وائٹ ہائوس میں کیا کیفیت ہو گی جب آپ کو لگ رہا ہو کہ ابتدائی رزلٹ میں آپ دھڑادھڑ جیت رہے ہیں۔ آپ لیڈ لے رہے ہیں۔ آپ کو اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ آپ کہتے ہیں: بس اب گنتی روک دیں کیونکہ میں صدر بن گیا ہوں۔ ابھی آپ نے 70 سیٹیں مزید لینی ہیں لیکن آپ نے خود کو صدر ڈیکلیئر کر دیا۔ آپ کو احساس ہوا کہ اگلے چار سال آپ نے یہی زندگی گزارنی ہے‘ جس میں آپ لوگوں کی قسمت کے فیصلے کریں گے۔ پوری دنیا آپ کی ایک جنبش کی منتظر ہو گی... اور پھر اچانک آپ دھڑام سے نیچے گرتے ہیں۔ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ آپ ہار رہے ہیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کی بربادی ہورہی ہے۔ آپ دوبارہ ایک عام انسان بننے جارہے ہیں۔ دیوتا کا جو رول آپ نے چار سال نبھایا‘ وہ اب کسی اور کو سونپ دیا گیا ہے۔ آپ کو پوری کائنات اپنے اوپر گرتی محسوس ہوتی ہے۔ آپ کو لگتا ہے‘ پوری دنیا کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ بھلا آپ کیسے ہار سکتے ہیں۔ آپ کا حشر وہی کنگ لئیر والا ہوتا ہے کہ آپ ایک دن تخت پر بیٹھے ہیں اور اگلے دن جنگلوں کی خاک چھان رہے ہیں۔
اب پورا امریکہ سوچ رہا ہے‘ ٹرمپ کو ہارنے کی صورت میں وائٹ ہائوس سے کیسے باہر نکالا جائے گا۔
کیا آپ ان حکمرانوں سے عبرت نہیں پکڑتے جو کچھ عرصے کی حکمرانی کے لیے پھانسی، جلاوطنی، قتل، جیلیں تک بھگت لیتے ہیں۔ پوری دنیا کہہ رہی ہو آپ الیکشن ہار گئے ہیں لیکن آپ وائٹ ہائوس کو کسی بھی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ چاہے آپ کا سامان سڑک پر ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے؟ تاریخ ایسے حکمرانوں سے بھری پڑی ہے۔ یقین نہیں آتا تو صدام حسین اور قذافی کے انجام دیکھ لیں کہ کب سوچا ہو گا‘ اپنے دور کا طاقتور صدام حسین اور درجنوں محلوں کا مالک جس سے پورا عرب ڈرتا تھا وہ ایک دن ایک تنگ و تاریک گڑھے میں زندگی گزار رہا ہو گا یا قذافی جیسا شان و شوکت کا مالک‘ جس کی حفاظت دنیا کی خوبصورت خواتین گارڈز کرتی تھیں‘ وہ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ایک پل کے نیچے اذیت ناک موت مارا جائے گا۔
آپ نے ان حکمرانوں کی قسمت پر رشک کرنا ہے یا عبرت پکڑنی ہے، فیصلہ آپ کا ہے۔