بینظیر بھٹو کافی دیر سے ظفر علی شاہ کو وہ سب کچھ سنا رہی تھیں جو ان کے ساتھ بیتی تھی۔ وہ اپنے تمام دکھوں کا ذمہ دار نواز شریف کو قرار دے رہی تھیں۔ وہ ایک ایک کرکے تمام الزامات دہرا رہی تھیں۔ اس ملاقات میں امین فہیم بھی موجود تھے۔ جب بینظیر بھٹو کا غصہ کچھ کم ہوا تو انہوں نے ظفر علی شاہ کی طرف دیکھا کہ وہ بتائیں اب اس نواز شریف کا ساتھ کیوں دیا جائے جن کی وجہ سے انہیں پاکستان چھوڑ کر دبئی جلاوطنی اختیار کرنا پڑ گئی تھی اور ان کا شوہر زرداری جیل میں تھا؟
ظفر علی شاہ ایک وکیل تھے‘ لہٰذا انہیں پتہ تھا کہ ایک ایک لفظ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے خصوصاً جب معاملہ بہت گمبھیر ہو اور سامنے بیٹھا بندہ اس انسان کا ڈسا ہوا ہو جس کی وکالت کرنے آپ اتنی دور سے یہاں آئے تھے۔ ظفر علی شاہ کے ذہن میں نواز شریف سے اٹک قلعہ میں ہونے والی اس ملاقات کی یاد تازہ تھی‘ جب نواز شریف نے ان سے اچانک پوچھا لیا تھا آپ بینظیر بھٹو سے بات کر سکتے ہیں؟ نواز شریف کی امید ٹوٹ چکی تھی کہ شاید لوگ باہر نکل کر جنرل مشرف کا اسی طرح تختہ الٹ دیں گے جیسے جنرل پرویز مشرف نے الٹ دیا تھا۔
ظفر علی شاہ نے کہا تھا: میاں صاحب لوگ باہر نہیں نکلتے ہوتے۔ ایسے مارشل لاء اتنی جلدی اور اس طرح ختم نہیں ہوتے‘ اس کے لیے آپ کو سیاسی لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملانا ہوگا‘ اپنے سیاسی دشمنوں سے بات کرنا ہوگی۔ نواز شریف یہی چاہتے تھے کہ ظفر علی شاہ اس پر بات کریں؛ چنانچہ اچانک ہی پوچھ لیا: تو پھر آپ بینظیر بھٹو سے بات کریں گے؟ ظفر علی شاہ نے نواز شریف کو جواب دیا کہ وہ خود ایک معمولی ورکر ہیں‘ لیکن ایک کوشش کر سکتے ہیں‘ باقی اللہ مالک ہے۔
یوں اپنے داماد عسکری حسن سید کے ذاتی دوست چوہدری ریاض کی وجہ سے وہ یہ ملاقات کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پہلے بینظیر بھٹو نے ظفر علی شاہ کو لندن بلوایا‘ جہاں وہ چار پانچ روز ٹھہرے لیکن وہاں بینظیر سے ملاقات نہ ہو سکی۔ لندن سے بینظیر امریکہ چلی گئیں اور ظفر علی شاہ کو کہا گیا کہ یا تو وہ امریکہ آ جائیں یا پھر لندن انتظار کریں‘ وہ دبئی لندن سے ہوتی جائیں گی‘ لیکن پھر وہ امریکہ سے سیدھی دوبئی پہنچ گئیں اور ظفر علی شاہ کو چودھری ریاض کے ذریعے میسج دیا گیا کہ وہ دبئی آ جائیں۔
اب ظفر علی شاہ دبئی میں بینظیر بھٹو کے گھر میں بیٹھے نواز شریف کے خلاف چارج شیٹ سن رہے تھے۔ ظفر علی شاہ نے نپے تلے انداز میں بات شروع کی اور بولے: محترمہ میں معمولی ورکر ہوں۔ میری کیا مجال کہ آپ کی بات سے اختلاف کروں‘ لیکن جیسے آپ کو نواز شریف سے شکایتیں ہیں ایسی ہی شکایتیں نواز شریف کو بھی آپ سے ہیں۔ وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے والد میاں شریف کو ایف آئی اے کے ذریعے گرفتار کرانا آپ کا ذاتی انتقام تھا۔ وہ بھی یہ بات نہیں بھول سکتے۔ ان کے خاندان کے کاروبار کو بھی آپ نے نقصان پہنچایا۔ اب یہ باتیں موجودہ حالات میں پرانی ہو گئی ہیں کہ نواز شریف نے آپ کے ساتھ کیا کیا یا آپ نے کیا کیا۔ دونوں کے جو بھی بس میں تھا وہ آپ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر کیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ ایک تو یہی طریقہ ہے کہ نواز شریف اٹک قلعہ میں بیٹھے قید کاٹیں اور آپ یہاں دبئی میں جلاوطنی کاٹیں‘ اور ایک دوسرے کے لیے پیدا کی گئی مشکلات پر خوش ہوتے رہیں۔ اس طرح نہ آپ کو کچھ فائدہ ہوگا نہ ہی نواز شریف کا۔ جنرل مشرف آرام سے بیٹھ کر اس ملک پر دس سال حکومت کرے گا اور آپ ایک دوسرے کو الزام دیتے رہیں گے۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو میں آپ کے ساتھ شیئر کرنے آیا ہوں۔ میری اتنی اوقات تو نہیں تھی لیکن کیا کریں نواز شریف کا پورا خاندان جیل میں ہے اور میں ہی آپ تک ان کا پیغام پہنچا سکتا ہوں۔ آپ پچھلی باتوں کو اس وقت جانے دیں‘ بھول جائیں۔ آپ ایک سیاسی الائنس بنائیں جس میں دس بیس سیاسی پارٹیاں شامل ہوں اور وہ جنرل مشرف کے مارشل لا کے خلاف تحریک شروع کریں۔ اگر آپ لوگ آج مشکلات کا شکار ہیں تو ذہن میں رکھیں کہ پاکستان کے عوام بھی وہی مشکلات فیس کررہے ہیں۔ اب جب لوگوں کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے اس وقت ہی آپ اگر ذاتی دشمنی میں پڑے رہے تو ملک اور عوام کا فائدہ نہیں ہوگا۔ عوام ان موقعوں پر اپنے لیڈرز کی طرف دیکھتے ہیں۔
بینظیر بھٹو یہ سب باتیں سن کر کچھ دیر تک خاموش‘ سوچتی رہیں۔ وہ سمجھ چکی تھیں کہ انہیں جنرل مشرف سے کچھ فائدہ نہیں ملنے والا۔ اگرچہ بینظیر بھٹو نے نواز شریف حکومت کی برطرفی کی مذمت نہیں کی تھی بلکہ اس رات عالمی نشریاتی اداروں کو انٹرویوز میں نواز شریف کے ان مظالم کو ہائی لائٹ کیا تھاکہ کیسے وہ امیرالمومنین بن کر حکومت کرنا چاہ رہے تھے۔ بینظیر بھٹو نے تو اپنے تئیں جنرل مشرف کو دعوت بھی دی تھی کہ اب وہ ان سے بات کریں‘ لیکن جنرل صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی تھیں کہ وہ نواز شریف کو برطرف کرکے اس کی جگہ بینظیر بھٹو کو لا کر بٹھا دیتے۔ مشرف کا یہی پلان تھاکہ وہ نواز شریف کو جیل میں اور بینظیر بھٹو کو جلاوطن میں رکھ کر حکومت کریں گے۔ بینظیر بھٹو کو بھی جنرل مشرف کے اس ایک سال میں یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ ان تلوں سے تیل نہیں نکلے گا۔ جنرل مشرف انہیں اقتدار میں لانا تو ایک طرف چھوٹی موٹی رعایتیں دینے کو بھی تیار نہیں تھے۔
جیسے نواز شریف کو لگ رہا تھاکہ اگر بینظیر بھٹو ان کے ساتھ مل جائیں تو وہ پیپلز پارٹی کا دبائو استعمال کرکے جنرل مشرف سے کوئی ڈیل کر سکتے ہیں‘ اسی طرح بے نظیر بھٹو کو بھی محسوس ہونے لگ تھا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ الائنس کا دبائو جنرل مشرف پر استعمال کر سکتی ہیں اور کچھ رعایتیں انہیں بھی مل سکتی ہیں اور جنرل مشرف ان سے رابطہ پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح جنرل مشرف کو پیغام جائے گا کہ اب جنگ اوپن ہوگی۔ بینظیر بھٹو سوچ رہی تھیں کہ وہ عالمی سطح پر جنرل مشرف کے خلاف رائے عامہ ہموار کرسکتی تھیں تو پاکستان کے اندر نواز شریف قید میں بیٹھا بھی پرابلم پیدا کرسکتا تھا۔ دنیا کو یہ میسج جائے گا پاکستان میں جمہوریت کا قتل عام ہورہا تھا کہ ایک وزیراعظم کو آمر نے جیل میں ڈال دیا تھا تو دوسری وزیراعظم جلاوطن تھی۔ اور پھر ایک سال گزر گیا تھا لہٰذا لوگوں کا جنرل مشرف سے جڑا رومانس اب دھیرے دھیرے کم ہونے کا وقت آرہا تھا۔
اچانک بینظیر بھٹو کی نواز شریف کی اس سیاسی الائنس کی پیشکش میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ انہیں لگا واقعی اب یہ وقت نواز شریف سے پرانے سکورز سیٹل کرنے کا نہیں تھا بلکہ نواز شریف کو ساتھ ملا کر جنرل مشرف کو چنے چبوانے کا تھا۔ بینظیر بھٹو اس بات پر جنرل مشرف سے ہرٹ تھیں کہ اس نے ان کے بارہ اکتوبر کی بغاوت کے رات ان کی طرف سے دیے گئے گڈ ول gesture کا وہ جواب نہیں دیا تھا جس کی توقع رکھ کر انہوں نے نواز شریف کی اقتدار سے برطرفی اور گرفتاری کا کسی حد تک جواز پیش کر کے پاکستانیوں اور عالمی برادری کو جنرل مشرف کو شاید قابل قبول بنا دیا تھا۔ گہری سوچتی آنکھوں سے ظفر علی شاہ کو دیکھتے دیکھتے بینظیر بھٹو اچانک اٹھیں اور وہ کمرے کے اندر چلی گئیں۔
وہ کچھ دیر بعد واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں ایک سفید کاغذ تھا جس پر ان کے اپنے ہاتھ سے لکھیں سات آٹھ سطریں تھیں۔ وہ کاغذ بینظیر بھٹو نے ظفر علی شاہ کے ہاتھ میں دیا۔ ظفر علی شاہ نے وہ کاغذ لے کر پڑھا اور اس کی آخری سطر پر نظر پڑی تو وہ ششدر رہ گئے۔ تحریر مکمل پڑھ کر ظفر علی شاہ نے بے ساختہ سر اٹھا کر بینظیر بھٹو کی طرف دیکھا جو ان پر نظریں جمائے بیٹھی ان کے ردعمل کا شدت سے انتظار کررہی تھیں۔ (جاری)