بچپن سے ہی شہزادے اور شہزادوں کی کہانیاں سناتے جہاں ماں باپ اپنے بچوں کو ان کرداروں کے روپ میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں وہیں ہر انسان یہ کہانیاں قصے سنتے سنتے بڑا ہوکر یہی سوچتا رہتا ہے کہ اس کی زندگی کتنی مشکل ہے جبکہ یہ بادشاہ‘ شہزادے‘ شہزادیاں‘ ملکائیں کیسی عیاشی کی زندگی بسر کرتے ہوں گے اور انہوں نے زندگی میں کبھی دکھ نہیں دیکھے ہوں گے۔ آنکھ جھپکنے کی دیر ہے سب کچھ مل جاتا ہو گا۔ ان قصے کہانیوں نے ہمارے اندر یہ احساس پیدا کردیا ہے کہ دکھ صرف ہمارے جیسے لوگوں کی زندگی میں لکھے جاتے ہیں اور ہم ان دکھوں پر دکھی اور خدا سے شاکی رہتے ہیں۔ گلہ کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں کیوں نہ شہزادہ یا شہزادی بنایا۔
کبھی ہم نے سوچا ان کی زندگیوں کے دکھوں کی کیا نوعیت ہوتی ہوگی؟انہیں کتنی مصنوعی زندگی گزارنا پڑتی ہوگی؟ وہ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیں سکتے ہوں گے۔اگر باہر بھی نکلنا ہو تو گارڈز کے جھرمٹ میں۔ بازار نہیں جاسکتے‘ شاپنگ نہیں کرسکتے‘ سڑک کنارے کسی جگہ کھڑے ہو کر قلفی نہیں کھا سکتے۔ان کے پاس کمپنی نہیں ہوتی کہ دوستوں کے ساتھ بغیر وقت کی پروا کئے گھنٹوں گپیں لگا سکیں۔ان کی زندگی تنہا اور ڈپریس ہوتی ہوگی۔ لیڈی ڈیانا کی جب شہزادہ چارلس سے شادی ہوئی تھی تو دنیا کی سب لڑکیوں نے رشک کیا تھا کہ واہ ایک سکول کی استانی کی قسمت کھل گئی کہ وہ شاہی خاندان کی بہو بن گئی۔ کتنی لڑکیاں یہ خواب دیکھنا شروع ہوگئی ہوں گی کہ اگر ڈیانا شاہی محل کی بہو بن سکتی ہے تو پھر ان کی قسمت کا ستارہ بھی چمک سکتا ہے۔ اور پھر ڈیانا کی افسردہ زندگی کی وہ کہانیاں سامنے آئیں کہ پورا جہاں آج تک ان کے دکھ سے نہیں نکل سکا۔ وہ ایک عام سی استانی جس کی قسمت پر رشک کیا جاتا تھا‘ ایسی دکھی زندگی گزار رہی تھی کہ آج تک لوگ اس کے انجام پر آنسو بہاتے ہیں۔ابھی جو کچھ شاہی خاندان کی نئی بہو میگھن نے اپنے انٹرویو میں شاہی خاندان میں گزارے گئے اپنے چند برسوں کی کہانیاں سنائی ہیں اور رو رو کر احوال شیئر کئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں بادشاہ‘ ملکہ‘ شہزادے اور شہزادیاں‘ سب ناخوش ہیں‘افسردہ ہیں‘ ڈپریس ہیں۔ دکھی سب ہیں لیکن ان دکھوں کی نوعیت مختلف ہے۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ جو دکھ ہمارے ہیں اس سے بڑے دکھ اور کسی کے نہیں ہوں گے۔جب نیٹ فلیکس پر برطانوی خاندان پر بنایا گیا سیزن ''دی کرائون‘‘ دیکھا تو بھی ان بڑے محلوں کے مکینوں کے دکھوں کا اندازہ ہوا۔ان سے حسد یا رشک کرنے کے بجائے ان سے ہمدردی محسوس ہوئی۔ اپنی زندگی ان سے بہتر لگی۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے عام انسان پیدا کیا۔
میں جوں جوں تاریخ کی کتابیں پڑھتا گیا میرے اندر خدا کا شکر زیادہ بڑھتا گیا کہ اس نے کسی شاہی محل میں پیدا نہیں کیا ۔ تاریخ میں اگر پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا ایک عام انسان ہونا کتنی بڑی نعمت ہے۔ پہلے زمانوں میں جب کوئی حملہ آور کسی ریاست پر حملہ کرتا یا قبضہ کرتا تو سب سے پہلے اس جگہ کے بادشاہ‘ اس کی بیگمات اورشہزادوں کا سر قلم کیا جاتا تھا تاکہ اس علاقے کے عوام کو یہ امید ہی نہ رہے کہ شاہی خاندان میں سے کوئی بچا کھچا شہزادہ‘ چاہے وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو‘ کل کو اپنا تخت حاصل کرے گا۔ سب شہزادے قتل ہوتے تھے۔ اس کا ثبوت آپ کو میکاولی کی کتاب ''دی پرنس‘‘ سے ملتا ہے جہاں وہ شہزادے کو تلقین کرتا ہے کہ اگر کسی مخالف کی ریاست پر جنگ کے بعد قبضہ کرو تو اس ریاست کے شاہی خاندان کو پورا ختم کرنا۔ اس خاندان کے کسی بچے تک کو نہ چھوڑنا۔ اس کی لاجک وہ یہ دیتا تھا کہ اگر تم نے کسی ایک کو بھی چھوڑ دیا تو اس ریاست کے عوام کی وفاداری ہمیشہ مشکوک رہے گی۔ عوام وقتی طور پر فوج کے زور پر دب جائیں گے لیکن ان کے اندر ایک امید رہے گی کہ ہوسکتا ہے کسی دن وہ بچہ اس قابض شہزادے یا بادشاہ کو شکست دے کر اپنا تخت واپس لے لے۔ یہی کچھ ہوتا رہا‘ اقتدار کے بدلتے ہی بادشاہ سمیت پورے شاہی خاندان کا خاتمہ کیا جاتا تھا۔
یورپ میں تو ایک اور بھی رواج تھا کہ اگر دو بادشاہوں کے درمیان کوئی ڈیل ہوتی یا وقتی طور پر صلح بھی کی جاتی تو ضمانت کے طور پر شہزادے یرغمال بنا کر رکھے جاتے تھے۔ اس طرح شاہی خاندان کی شہزادیاں بھی حملہ آوروں کے عذاب سے بچنے یا کسی ریاست کے طاقتور بادشاہ کے ساتھ الائنس کیلئے کام آتی تھیں۔ ان کی شادیاں اجنبی لوگوں سے کر دی جاتی تھیں تاکہ ان کی ریاست یا شاہی خاندان کو نئے الائنس مل سکیں۔ یوں اگر شہزادے یرغمال بن کر ضامن کے طور پر کام آتے تھے تو شہزادیاں شادی الائنس کے کام آتی تھیں۔اب آپ کہیں گے یورپین بہت ظالم اور وحشی لوگ تھے جو پورے کا پورا شاہی خاندان ختم کرڈالتے تھے‘بچوں تک کسی کو نہیں چھوڑتے تھے۔ ویسے یہ کام دنیا کے ہر حصے میں ہوتا رہا بلکہ دیکھا جائے تو یہ کام ہندوستان میں بھی ہوتا رہا ۔ باقی چھوڑیں‘ اکبر بادشاہ کواپنے بیٹے کے خلاف جنگ لڑنا پڑ گئی تھی۔ اسی شہزادہ جہانگیر کے بیٹے نے بھی باپ سے جنگ کی ۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ جہانگیر کے بعد شاہجہاں نے اپنے بھائی کو قتل کر کے ہندوستان کا تاج سر پر سجا لیا۔ یہ وہی شاہجہاں تھا جس سے ہم سب آج تک ہمدردی رکھتے ہیں کہ اس کے سگے بیٹے اورنگزیب نے اسے قید کر لیا تھا۔ ہم آج تک نہیں سمجھ پائے کہ بھلا ایک بیٹا کیسے باپ کو قید کر کے زندان میں ڈال سکتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اورنگزیب وہی کر رہا تھا جو اس نے اپنے باپ کے بارے سن رکھا تھا کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر کے ہندوستان کا تاج سر پر رکھا تھا۔ اس لیے جب اورنگزیب اپنے بھائیوں مراد‘ شجاع‘ دارا شکوہ اور اپنے بھتیجوں کے سرقلم کر رہا تھا تو اسے پتہ تھا کہ اس کا باپ سب سمجھ جائے گا کہThere was nothing personal, it was all business۔اب تصور کریں کہ چار شہزادے بھائی ہندوستان کا تاج پانے کیلئے جنگیں لڑ رہے تھے۔ پورے ہندوستان میں ان بھائیوں کی ایک بہن تھی جو دن رات سو نہیں پارہی تھی کہ اس کے چار بھائی ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے تھے۔ اب شاہی محل میں رہنے والی اس شہزادی کی حالت کا تصور کریں کہ باپ جو ہندوستان کا بادشاہ تھا وہ قید ہوچکا تھا اور چار بھائیوں کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھیں۔ وہ جن بھائیوں کے ساتھ کھیل کود کر بڑی ہوئی تھی اب وہی بھائی اس کی نظروں کے سامنے قتل ہورہے تھے۔ ہمیں کچھ اندازہ ہے کہ ان شاہی گھرانوں میں کیا حالت ہوگی جب اورنگزیب‘ مراد‘ دارا شکوہ اور شجاع کی فوجیں لڑ رہی تھیں اور ان کی بیگمات‘ بچوں سب کو پتہ تھا کہ ان کے گلے کٹیں گے۔ کچھ دیر کیلئے خود کو اس شاہی خاندان کا حصہ سمجھیں۔کیا آپ ایسی زندگی چاہتے ہیں جہاں بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے‘ پورا دلی گھروں سے باہر نکل آیا ہے اور اورنگزیب سے گڑ گڑا کر التجا کررہا ہے کہ وہ زنجیروں میں قید اپنے خوبصورت بھتیجے کو بخش دے۔ اورنگزیب انکار کردیتا ہے۔ کہتے ہیں اس رات دلی کے کسی گھر اس نوجوان کے سوگ میں چولہا نہ جلا تھا۔
ہم سب جو اپنی اپنی زندگیوں سے ناخوش ہیں‘ غیرمطمئن ہیں تو وہ برطانوی شاہی خاندان کی میگھن اور ہیری کا انٹرویو سن لیں جو دنیا بھر کی عیاشیاں چھوڑ گئے۔ اس شہزادے کا دکھ محسوس کریں کہ وہ اپنے باپ چارلس کو فون کرتا ہے تو وہ فون پر بات کرنے سے انکاری ہوجاتا ہے۔جو جتنا بڑا ہوتا ہے وہ اتنا ہی اکیلا ہوجاتا ہے۔ اکیلی زندگی کے اپنے دکھ ہیں۔ میگھن جیسی شہزادی اور ہیری جیسا شہزادہ اپنی دنیا سے تنگ ہیں تو ہم اپنی زندگیوں کے دکھوں میں گم ہیں۔ کوئی اپنی جگہ خوش نہیں‘چاہے بادشاہ کا محل ہو یا غریب کی جھونپڑی۔وہی ندافاضلی کا مصرع ع
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا