کورونا سے پہلے جب ایک نجومی نے پیش گوئی کی تھی کہ وہ اس خطے میں بڑی تباہی دیکھ رہے ہیں‘ شاید پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ چھڑ جائے اور دنیا ہی ختم ہو جائے‘ تو میں نے سوچا اگر سب کچھ ختم ہونے والا ہے تو مجھے فوری طور پر ٹالسٹائی کے War and Peace کو دوبارہ پڑھنا چاہئے اور ساتھ میں دوستووسکی کے عظیم ناول ''برادرز کرامازوف‘‘ کو بھی مکمل کرنا چاہئے جس کے دو سو صفحات پڑھ چھوڑے تھے۔ تیسرا ناول جو ذہن میں آیا وہ وکٹر ہوگو کا ناول Les Miserables تھا۔
میں نے سوچا‘ شاید تیسرے ناول تک کا وقت نہیں ہے‘ لہٰذا ''وار اینڈ پیس‘‘ اور ''برادرز کرامازوف‘‘ فوراً شروع کر دوں۔ بعض ناول اتنے بڑے اور اہم ہوتے ہیں کہ وہ ملکوں، تہذیبوں اور انسانوں کے سینکڑوں برس کی تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں۔''وار اینڈ پیس‘‘کے بارے میں نعیم بھائی کہتے تھے: اگر انیسویں صدی کے یورپ اور زارِ روس دور کی تاریخ پڑھنی ہے تو وار اینڈ پیس پڑھ لیں۔ گارشیا مارکیز کا ناول One Hundred Years of Solitude‘ جس کا اردو ترجمہ ''تنہائی کے سو سال‘‘ کے نام سے نعیم بھائی نے کیا تھا‘ میں بھی آپ کو ایک گائوں سے جنم لینے والی تہذیب اور نسلوں کی کہانی ملتی ہے۔ ایلکس ہیلی کا ناول ''روٹس‘‘ بھی ایسے ہی ناولوں میں شمار ہوتا ہے جن میں نسلوں کی تاریخ رقم کی گئی ہے۔'برادرز کرامازوف‘ وہ ناول ہے جس کے بارے میں ناول godfather کے مصنف ماریو پزو نے لکھا تھا کہ اگر وہ اسے نہ پڑھتے تو ادیب نہ بنتے۔ ایک دفعہ ہلیری کلنٹن سے پوچھا گیا: دنیا میں کون سی ایسی کتاب ہے جو وہ دوبارہ پڑھنا چاہیں گی؟ ان کا فوری جواب تھا: برادرز کرامازوف۔
پاکستان میں جو چند بڑے تراجم ہوئے ہیں‘ ان میں جہاں دیگر بڑے نام ہیں وہیں میں ذاتی طور پر شاہد حمید اور مرحوم باقر نقوی کے کام کو بہت سراہتا ہوں۔ شاہد حمید نے فوت ہونے سے پہلے 'وار اینڈ پیس‘ اور 'برادرز کرامازوف‘ کا اردو میں ترجمہ کیا جو اپنی جگہ بہت بڑا کام ہے۔ باقر نقوی‘ جو لندن میں رہتے تھے‘ نے وکٹر ہوگو کے عظیم ناول Les Miserables کا ترجمہ ''اضطراب‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے تک وہ ایک بڑے جاپانی ناول کا ترجمہ بھی مکمل کر چکے تھے۔ کمال کام کیا ہے مرحوم باقر نقوی نے۔ میرے بس میں ہوتا تو میں شاہد حمید اور باقر نقوی کو بعد از مرگ پاکستان کا ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی دیتا۔ کراچی سے اجمل کمال نے بھی تراجم کی دنیا میں کمال کیا۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے گارشیا کے ناولٹ اور کہانیوں کے تراجم چھاپے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اجمل کمال کو بھی ایوارڈ ملنا چاہئے کہ یہ سب unsung ہیروز ہیں جنہوں نے کمال کام کیے۔
قرۃ العین حیدر نے بھی انگریزی ناولوں کے تراجم کیے۔ ترجمہ کرنا اصل ناول لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے‘ لیکن میں حیران ہوں‘ اس ملک میں 'برادرز کرامازوف‘ اور 'وار اینڈ پیس‘ کا ترجمہ ہوا اور شاید ایک ایک ایڈیشن بھی نہ بک سکا۔ لاہور کے پبلشر نے شاہد حمید کا کمال مہارت سے کیا گیا ترجمہ چھاپا لیکن پھر انہوں نے اس بھاری پتھر کو دوبارہ اٹھانے کی کوشش نہ کی؛ تاہم اس ناول کی اہمیت وہی جانتے ہیں جو دوستووسکی کے قاری ہیں۔ اس ناول کے اردو ترجمے کی پُرانی کاپی پانچ ہزار روپے میں فروخت ہورہی تھی۔ اللہ بھلا کرے جہلم کے دو بھائیوں گگن شاہد اور امر شاہد کا جنہوں نے ''برادرکرامازوف‘‘کا بھاری پتھر اٹھانے کا فیصلہ کیا اور کیا کمال دوبارہ چھاپا ہے‘ اس عظیم ناول کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ میں نے گگن اور امر سے کہا: لگے ہاتھوں شاہد حمید کا ''وار اینڈ پیس‘‘کا ترجمہ بھی دوبارہ چھاپ دیں‘ بڑا کام ہے۔ وہ افسردہ ہوکر بولے کہ لاہور کے مین بلیووارڈ پر واقع ایک کتب خانے نے اس ناول کے ترجمے کے رائٹس شاہد حمید مرحوم سے لیے تھے کہ اسے دوبارہ چھاپیں گے لیکن شاید وہ بھی ڈر گئے اور وہ ناول ویسے کا ویسے کہیں پڑا ہوگا اور اسے دیمک چاٹ رہی ہوگی۔ دل کو ایک دھچکا سا لگا‘ اتنا بڑا ناول اوراتنے شاندار مترجم شاہد حمید کی محنت کسی کتب خانے کی بیسمنٹ میں پڑی ضائع ہو رہی ہے اور کسی کو ملال تک نہیں۔
ابھی گگن اور امر نے ایک اور بڑے ناول کا ترجمہ چھاپا ہے‘ روسی ناول ''ڈاکٹر ژاگو‘‘جسے بورس پاسترناک نے لکھا۔ یوسف صدیقی نے خوب صورت ترجمہ کیا ہے۔ امر شاہد کا فون تھا کہ شکیل عادل زادہ صاحب نے وہ ترجمہ چھاپنے کا حکم دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ناول کا بیک کور تعارف رئوف کلاسرا سے لکھوائیں۔ میں نے کہا: خدا کا خوف کریں‘ کہاں گنگو تیلی کہاں رام بھوج‘ میری کیا مجال کہ ڈاکٹر ژاگو جیسے بڑے ناول کا بیک کور لکھوں‘ شکیل عادل زادہ سے بڑا نام اور اہل کون ہو سکتا ہے جو اس ناول کی چند تعارفی لائنیں کھینچ دے۔ میں سمجھا امر شاہد شاید مجھ سے مذاق کررہے ہیں۔ وہ بولے: نہیں بھائی‘ شکیل عادل زادہ صاحب نے کہا کہ میرا رئوف کو کہو کہ انہوں نے کہا ہے۔ حیرت کا عالم ہے اور میں ہوں۔
جہاں تراجم کی دنیا میں کمال ہورہا ہے وہیں بہت سی اوریجنل کتابیں بھی چھپ رہی ہیں۔ ہمارے کالم نگار دوست شاہد صدیقی صاحب کی کتاب ''موسمِ خوش رنگ‘‘نے دھوم مچائی ہوئی ہے۔ پروفیسر طاہر ملک کا فون تھا کہ میجر عامر کے گھر پر شاہد صدیقی کی اس کتاب کی رونمائی ہورہی ہے۔ صرف چار لوگ ہوں گے۔ میں نے کہا: پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلی دفعہ کتاب کی رونمائی کسی کے گھر ہورہی ہے‘ میجر عامر کا گھر بڑے دستر خوان اور دوستوں کی محفلوں کیلئے تو مشہور تھا ہی اب وہاں کتابوں کی رونمائی بھی ہوا کرے گی‘ اور پھر اتنی بڑی کتاب کی رونمائی میں صرف چار پانچ لوگ۔طاہر ملک صاحب بولے: یہی تو خوبصورتی ہوگی اس محفل کی۔ میجر عامر کے وسیع ڈرائنگ روم میں پروفیسر فتح محمد ملک، شاہد صدیقی، قیصر بٹ اور عمار مسعود موجود تھے۔ جب اس کتاب پر گفتگو ہوئی تو یوں لگا چار نہیں چار سو لوگ گفتگو کررہے ہیں۔ شاہد صدیقی اس وقت نثر میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
کتابوں کے اس موسم میں ایک اور کتاب جس نے سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے وہ ''قصہ چار نسلوں کا۔ میرے چند اداس کاغذ‘‘ ہے۔ یہ غیرمعمولی کتاب قیصرہ شفقت صاحبہ نے لکھی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی استاد نے کیا کمال کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں چار نسلوں کا قصہ ہے۔ یہ پاکستان کے مغرب میں دوردراز کے پہاڑوں سے اترے خاکوانی پٹھانون کی نسلوں کی کہانیاں ہیں۔ ایسی کہانیاں جو آپ کو ہنستے ہنستے رُلا دیں اور رُلاتے رُلاتے ہنسا دیں۔ ان دنوں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد الشمس الحسن کی تصنیف نے مجھے مصروف رکھا ہوا ہے۔ واجد صاحب کی یادداشتوں پر مشتمل یہ کتاب بہت اہم ہے۔ اگرچہ اس کا فوکس ان کے بھٹو خاندان کے ساتھ گزرے سالوں کی کہانیاں ہیں لیکن اس میں پاکستانی تاریخ کے حوالے سے اور بھی اہم ابواب ہیں۔ ایک اور کتاب سابق وفاقی وزیر انور سیف اللہ کی یادداشتوں پر مبنی ہے۔ میرا خیال تھا اس کتاب میں انور سیف اللہ نے اپنا غصہ نکالا ہوگا۔ کئی لوگوں کے ساتھ اپنا سکور سیٹل کیا ہوگا‘ لیکن مجھے ان کی ایک بات پسند آئی کہ انہوں نے اپنے بدترین دشمنوں اور مخالفوں کا ذکر بھی احترام سے کیا۔
آج کل کتابوں کے ڈھیر میں گم ہوں اور حیران بھی کہ ہم کیسے لوگ ہیں جہاں ''وار اینڈ پیس‘‘ اور ''برادرز کرامازوف‘‘ جیسے بڑے ناولوں کی ہزار ‘ہزار کاپیاں بھی نہیں بکتیں۔ اسلام آباد کی ڈھلتی رات میں اکیلا بیٹھا سوچ رہا ہوں‘ وہ عظیم ناول جنہوں نے دنیا بھر میں کئی نسلوں کو متاثر کیا‘ ہماری ایک نسل کو بھی متاثر نہ کر سکے۔ اس معاشرے سے کیا گلہ جہاں شاہد حمید جیسے مترجم کا ''وار اینڈ پیس‘‘ کا اردو ترجمہ لاہور کے پبلشر کے ہاں دوبارہ چھپنے کے بجائے کسی بیسمنٹ کی تاریکی میں دیمک کی خوراک بن رہا ہے۔