تونسہ ڈیرہ غازی خان کے علاقے میں بس کے حادثے میں تیس سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع پر دل بہت دکھی ہے لیکن حیران نہیں ہے۔ پہلے ہم خود کو یہ کہہ کر تسلی دے دیتے تھے کہ سرائیکی علاقوں کی پسماندگی کے ذمہ دار سینٹرل پنجاب، مرکزی حکومتیں اور سرکاری بیوروکریٹس ہیں۔ اب وہ طعنہ بھی تمام ہوا۔ آخری دفعہ سرائیکی علاقوں سے وزیراعلیٰ بنا تھا تو وہ بھٹو دور میں ستر کی دہائی تھی۔ اس کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف نے باریاں سنبھال لیں۔ اب تیس چالیس سال بعد کوئی جنوب سے وزیراعلیٰ بنا ہے تو نہ ہونے کے برابر۔ پہلے ہم دل کو تسلی دے لیتے تھے کہ کبھی سرائیکی علاقوں سے کوئی وزیراعلیٰ بنا تو ترقی کا رخ ہمارے علاقوں کی طرف بھی ہوگا‘ لیکن لگتا ہے جان بوجھ کر ایک ایسے بندے کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جو ابھی تک سیکھ رہا ہے۔ ویسے جہاں ذاتی مفاد نظر آئے وہاں وہ ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔
یاد آیا‘ میں نے میانوالی مظفرگڑھ (ایم ایم روڈ) پر رولا ڈالا ہوا تھا تو وزیراعظم سیکرٹریٹ میں وزیراعظم عمران خان کی میڈیا کو دی گئی بریفنگ کے بعد مجھے ہاتھ سے پکڑ کر جناب عثمان بزدار نے کہا تھا: رئوف صاحب مبارک ہو‘ ایم ایم روڈ منظور ہوگئی ہے‘ بس کچھ دنوں کی بات ہے‘ مٹھائی تیار رکھیں۔ کاشف عباسی ساتھ کھڑے تھے‘ انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے: رئوف صاحب مبارک ہو۔ کاشف عباسی کے اس قہقہے کے پیچھے وہ ملاقات تھی جو ہم صحافیوں کی وزیراعظم سے ان کے یہ عہدہ سنبھالنے کے ایک ماہ بعد ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں میں نے ایک ہی بات کی تھی کہ دس سال تک شریف خاندان نے ہمارے علاقوں کو جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا۔ ہمارے بلدیاتی اداروں تک کے فنڈز بھی لاہور منگوا کر میٹرو پر لگا دیے۔ ایم ایم روڈ جس پر روزانہ حادثے ہوتے ہیں اس پر ایک اینٹ تک نہیں لگائی۔ میانوالی آپ کا حلقہ ہے۔ میانوالی کے لوگوں نے آپ کو عزت دی۔ ایم ایم روڈ ان کی قاتل بن چکی ہے۔ سینکڑوں لوگ جانیں دے چکے ہیں۔ میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ سے ملتان‘ ڈیرہ غازی خان تک آپ کی پارٹی کو ووٹ پڑے ہیں۔ سی پیک کا روٹ بھی یہی بنتا تھا لیکن نہ بنایا گیا۔ اور کچھ نہ کریں ان پانچ اضلاع سے گزر کر کراچی سے پشاور اور کابل کو ملانے والی اس اہم سڑک کو بنوا دیں۔ عمران خان صاحب نے قدرے ناراضی سے مجھے کہا: یہ میرا کام نہیں ہے اور نہ میرے پاس فنڈز ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور چل دیے۔ یہ بات وہ بندہ کہہ رہا تھا جو اس ایم ایم روڈ کے ایک ایک چپے اور حالت سے واقف تھا‘ جس نے بیس برس اس سڑک پر سفر کیا تھا۔ اسی علاقے کی وجہ سے آج وہ وزیراعظم تھا۔ اگر اسے بھی اس سڑک کی اہمیت کا اندازہ نہیں تو پھر کسی اور کو کیا دوش دیں۔
اسی سڑک سے لیہ، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان تک کے ایم این ایز اور وزیر سفر کرتے رہے لیکن مجال ہے کہ انہوں نے کبھی اس سڑک کی حالت زار پر قومی اسمبلی یا پنجاب اسمبلی میں اٹھ کر کبھی بات کی ہو۔ غریب لوگ اور گھرانے اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر مرتے رہے لیکن اس ملک کی سیاسی یا بیوروکریٹ ایلیٹ کو ترس نہ آیا۔ ایک دفعہ میری اس ایم ایم روڈ پر اس وقت کے این ایچ اے کے چیئرمین شاہد تارڑ سے بات ہوئی۔ میں نے کہا: سرکار آپ اور نواز شریف کبھی سینٹرل پنجاب سے نکل کر کچھ سڑکیں ہمارے سرائیکی علاقوں میں بھی بنوا دیں۔ بولے: کون سی سڑک؟ میں نے کہا: ایم ایم روڈ۔ کہنے لگے: رئوف صاحب وہ سڑک پنجاب حکومت کی ملکیت ہے‘ این ایچ اے کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اسی سڑک کی مٹھائی اب عثمان بزدار مانگ رہے تھے۔ اور پھر کئی ماہ گزر گئے اور میں نے پھر ایم ایم روڈ کا رولا ڈالا تو ایک دن وزیرمواصلات مراد سعید کا مجھے فون آیا کہ اب ہم نے وہ سڑک پنجاب حکومت سے لے کر این ایچ اے کو دے دی ہے۔ مطلب تھا کہ پنجاب حکومت کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ حال تھا جناب بزدار صاحب کا جو مجھ سے مٹھائی مانگ رہے تھے۔ یاد آیا‘ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو مجھے کہا: آپ لیہ سے ہیں‘ بتائیں کیا ایسا منصوبہ دوں کہ یاد رکھا جائے؟ میں نے کہا: لیہ میں یونیورسٹی بنوا دیں۔ آج افسوس ہوتا ہے کہ انہیں ایم ایم روڈ کا کہتا تو ان برسوں جو سینکڑوں خاندان اجڑے‘ شاید وہ بچ جاتے۔ یونیورسٹی بھی نہ بنی اور روڈ بھی نہ بنی۔ انڈس ہائی وے کی بھی یہی حالت تھی۔ وہاں بھی روزانہ حادثے ہورہے تھے۔ سرائیکی علاقوں کے سیاستدانوں کو تھانیدار، پٹواری کی تعیناتی سے فرصت نہ ملی۔ تھانیدار مخالفوں کو پٹوانے اور ان پر جھوٹے مقدمے کرانے کیلئے درکار تھا تو پٹواری نے سرکاری زمینیں ڈھونڈ کر ایم پی اے اور ایم این ایز کو الاٹ کرنی تھیں۔ ہمارے ضلع لیہ میں یہی کام ہوتا رہا۔
مجھے پارلیمنٹ رپورٹنگ کرتے بیس برس گزر گئے۔ حسرت ہی رہی کہ کبھی کوئی ایم این اے یا وزیر اُٹھ کر رولا ڈالے۔ کسی قائمہ کمیٹی میں لڑ پڑے کہ ہمارے علاقوں سے موٹروے کیوں نہیں گزرتی‘ ایکسپریس روڈ یا ون وے سڑکیں کیوں نہیں بنتیں تاکہ حادثے کم ہوں۔ ہمارے ہاں سڑکوں پر پٹرولنگ پولیس کیوں نہیں ہے جو تیز رفتار بسوں اور ٹرکوں کو روکے، حادثے کی صورت میں ایم ایم روڈ، انڈس روڈ پر ٹراما سینٹرز کیوں نہیں، پانچ سو کلومیٹر طویل ایم ایم روڈ پر کوئی سینٹر نہیں جہاں کوئی ایمبولینس کھڑی ہو یا ابتدائی طبی امداد دینے کا بندوبست ہو۔ ہیلی کاپٹر زخمیوں کیلئے نہیں مانگتے کہ بڑوں کے استعمال کیلئے ہیں۔ کسی نے چیک کرنے کی زحمت کی کہ کون سا ڈرائیور کتنے گھنٹے ڈرائیو کر چکا اور پھر بھی اس کے مالک نے اگلے روٹ پر بٹھا دیا؟ کتنے ڈرائیور نشہ کرکے ڈرائیو کرتے ہیں اور ریس لگاتے ہیں؟ کیسے لائسنس ہر ضلع میں دو دو سو روپے میں مل جاتے ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت اور بیوروکریسی نے عام انسان کی جان بچانے کیلئے کوئی پروجیکٹس ان علاقوں میں شروع نہیں کیے۔ آپ بتائیں بندہ کہاں جا کر سر ٹکرائے۔ ان واقعات میں ہمیشہ غریب اور کم وسائل والے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جس بس کو حادثہ پیش آیا اس پر کہا جا رہا ہے: چھت تک غریب لوگ اور مزدور سوار تھے۔ ہمارے علاقے میں تیز رفتار بسوں ٹرک کے ٹوٹی پھوٹی روڈز پر آمنے سامنے ٹکرانے سے درجنوں لوگوں کے مارے جانے کا رواج بہت پرانا ہے۔ کبھی جنوب کا نوحہ سننے کو دل چاہے تو میرے ملتانی دوست ناصر محمود شیخ سے سن لیں جو ان حادثوں کے خوفناک فگرز اپنی فیس بک وال پر شیئر کرتا رہتا ہے۔ وہ اکثر کہتا ہے: لالہ تم بڑی سڑکوں کی حالت کو روتے ہو‘ یہاں ملتان شہر میں ٹریفک کی حالت دیکھو تو بھول جائو۔ شہر میں نہ کیمرے ہیں نہ ہی ریڈ سگنلز ہیں‘ فری فار آل۔ تو پھر ٹریفک پولیس کا سربراہ کیوں وہاں پر لگایا ہوا ہے؟
بہرحال انہی عوام کے پیسوں سے یہ حکمران سڑکوں پر پورے پروٹوکول اور روٹ لگوا کر چلتے ہیں۔ روٹ کے دوران اگر کوئی بھولا بھٹکا بندہ گاڑی لے کر آجائے تو نہ صرف اس کی موقع پر سپاہی دھلائی کرتے ہیں بلکہ مقدمہ بھی درج ہوتا ہے کہ وی آئی پی صاحب کی زندگی خطرے میں ڈالی جبکہ وہی عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح خود سڑکوں پر مررہے ہوتے ہیں۔
سوچ رہا ہوں عثمان بزدار صاحب کو کیسے تلاش کروں اور انہیں مٹھائی کا ڈبہ پیش کروں جو دو سال پہلے انہوں نے مجھ سے اس ایم ایم روڈ کی تعمیر کی منظوری کی خوشی میں مانگا تھا جو آج تک نہیں بن سکی۔ اب تو بزدار صاحب کے اپنے گھر کی سڑک پر درجنوں خاندان اجڑ گئے ہیں۔ حکمرانوں اور بابوز کی بے حسی اور روز ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر خاندانوں کے خاندان اجڑتے دیکھ کر فیض احمد فیض یاد آتے ہیں:
نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا