جنرل ضیاالحق اس بات پر بھڑک گئے تھے کہ ایک کرنل نے ملٹری کورٹ کی سماعت کے بعد جنرل نصیراللہ بابر کو بری کر دیا تھا۔ مارشل لا حکام نے فیصلہ کیا کہ اس کرنل کو سبق سکھایا جائے کہ اس نے بریگیڈیئر محمود اور لندن سے آئے کرنل ظفر کو جنرل نصیراللہ بابر سے ملوانے میں مدد کی تھی حالانکہ گورنر فضل الحق تک کا حکم تھا کہ اس قیدی سے ملاقات نہیں ہو سکتی تھی۔
سوچا گیا کہ کسی نہ کسی ایشو پر کورٹ مارشل کیا جائے۔ اب سوال یہ تھا کہ کرنل ظفراللہ کے خلاف کیا الزام لگا کر ان کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ آخر حکام کو ان کے خلاف ایک مزے دار جواز مل گیا اور ان کا ٹرائل شروع کر دیا گیا۔ کرنل ظفراللہ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے باڑہ مارکیٹ سے ایک ایئر کنڈیشنر خریدا اور پھر اسے موٹر سائیکل پر گھر لے گئے تھے۔
اس الزام سے وہ جلد بری ہو گئے تو انہیں ایک اور الزام پر چارج لگا کر پھر کورٹ مارشل شروع کر دیا گیا۔ وہ اس سے بھی بری ہو گئے۔ کچھ دنوں بعد ان کی پوسٹنگ کوئٹہ سٹاف کالج کر دی گئی۔ اس پوسٹنگ کی بڑی اہمیت تھی‘ لیکن جونہی جنرل ضیاالحق کو پتہ چلا کہ کرنل ظفراللہ کو کوئٹہ سٹاف کالج میں ایک اچھی پوسٹنگ مل گئی تھی تو انہوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوراً وہ آڈرز کینسل کرا دیئے۔
اس بار کرنل ظفراللہ نے سوچا کہ بس اب کافی ہو گیا ہے‘ مزید وہ برداشت نہیں کریں گے۔
یہ سوچ کر کرنل ظفراللہ نے ایک دن ایک خط جنرل ضیاالحق کے نام لکھا۔ کرنل صاحب اب پوری لڑائی پر تل گئے تھے۔ اب ان کو نتائج کی پروا نہیں رہی تھی کہ وہ ایک سرونگ کرنل ہو کر فوج کے سربراہ کو ایک ایسا خط لکھ رہے تھے‘ جس کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے تھے‘ اور یہ الزام بھی لگ سکتا تھا کہ وہ اپنے سربراہ کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ کرنل ظفراللہ نے جنرل ضیاالحق کو لکھا: سر آپ کو یاد ہو گا‘ آپ نے ملک پر مارشل لاء لگانے کے بعد حکومت برطرف کر کے بھٹو صاحب کو مری میں قید کر دیا تھا۔ ایک دن آپ بھٹو صاحب سے ملنے مری آئے تھے تو آپ گھبرا رہے تھے۔ آپ نے مجھے خصوصی ہدایت دی تھی کہ میں آپ کے ساتھ بھٹو صاحب کے ساتھ ملاقات میں موجود رہوں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میرے سامنے آپ اور بھٹو صاحب کے درمیان بہت حساس نوعیت کی باتیں ہوئی تھیں جس کا آج تک کسی کو علم نہیں ہے‘ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ وہ گفتگو کیا تھی۔ میں نے اس عرصے میں اس خطرناک گفتگو کو خفیہ رکھا ہے۔ آج تک میں نے وہ راز نہیں کھولے۔ اپنی زبان کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے کیونکہ مجھے اندازہ ہے کہ وہ کتنی حساس گفتگو تھی جو آپ دونوں کے درمیان ہوئی تھی۔ میں نے آج تک اپنی نوکری پوری ایمان داری سے کی ہے‘ لیکن میرا بھلا کیا قصور ہے کہ سب میرے پیچھے اس طرح پڑ گئے ہیں جیسا میں کوئی بڑا جرائم پیشہ انسان ہوں۔
اس خط میں اور بھی بہت کچھ لکھا گیا تھا۔
جنرل ضیاالحق کو جب خط ملا تو ان کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ جنرل ضیاالحق نے اس خط کو پڑھنے بعد کرنل ظفراللہ سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ جب کرنل ظفراللہ کی جنرل ضیاالحق سے ملاقات ہوئی تو جنرل ضیاالحق نے کہا: کرنل ظفراللہ آپ کو مزید فوج میں نہیں رکھا جا سکتا‘ لہٰذا میں آپ کو ریٹائر کر رہا ہوں۔ جنرل ضیاالحق کو علم تھا کہ کرنل ظفراللہ کے پاس بہت اہم راز تھا جس کا کسی اور کو علم نہ تھا کہ ان کے اور بھٹو کے درمیان مری میں ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی تھی۔ سب سے بڑھ کر کرنل صاحب اس بات کے گواہ تھے کہ وہ آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی بھٹو صاحب کو اکیلے ملنے سے گھبرا رہے تھے ‘ لہٰذا وہ کرنل صاحب کو ساتھ لے گئے تھے۔
جنرل ضیاالحق کو پتا تھا کرنل ظفراللہ کی زبان بندی ضروری ہے لہٰذا جنرل ضیاالحق نے سختی کرنے یا کچھ اور قدم اٹھانے کے بجائے کرنل صاحب کو زہر کے بجائے گڑ کھلا کر مارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے کرنل کو فوج سے ریٹائر کر کے فوری طور پر آئی جی جیل خانہ جات بلوچستان مقرر کر دیا تھا تاکہ وہ ان سے خوش رہیں اور وہ گفتگو سامنے نہ لے کر آئیں جو جنرل ضیاالحق کے لیے پشیمانی کا سبب بن سکتی تھی۔ کچھ عرصے بعد جنرل ضیاالحق نے کرنل صاحب کو وہاں سے بھی ریٹائر کر دیا۔
بریگیڈیئر محمود لکھتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ فوج دراصل جنرل ضیاالحق کی ذاتی جاگیر بن چکی تھی اور وہ اپنی مرضی سے جسے چاہتے عہدہ دیتے، ریٹائر کرتے یا سزا دیتے تھے۔ کرنل ظفراللہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا تھا کہ پہلے ان کا دو دفعہ کورٹ مارشل کرایا گیا کہ انہوں نے کیوں جنرل نصیراللہ بابر کو بری کر دیا تھا اور سب سے بڑھ کر ان کی ملاقات بریگیڈیئر محمود اور لندن سے آئے کرنل ظفر سے کیوں کرائی تھی جبکہ جنرل فضل الحق نے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔ اب انہیں آئی جی لگانے کے بعد بھی جنرل ضیاالحق ان کی طرف سے مطمئن نہیں تھے‘ لہٰذا انہیں وہاں سے بھی کچھ عرصے بعد ہٹا دیا گیا۔
جب برسوں بعد بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو جنرل نصیر اللہ بابر نے پرانے احسانات کو یاد کرتے ہوئے کرنل ظفراللہ کو دوبئی میں سفارت خانے میں کمرشل اور ٹریڈ کونسلر لگوا دیا۔
اس سے پہلے جنرل نصیراللہ بابر نے بھٹو کے کہنے پر دو سو افغان اکٹھے کیے تھے جب افغانستان کی طرف سے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرائی جا رہی تھیں تاکہ انہیں افغانستان کے اندر جواباً استعمال کیا جا سکے۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء اور جنرل نصیراللہ بابر کی گرفتاری کے بعد سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا تھا۔ گلبدین حکمت یار اکثر بریگیڈیئر محمود کے گھر آتے کہ ان کی مدد کریں کیونکہ انہیں علم تھا کہ وہ جنرل نصیراللہ بابر کے دوست تھے‘ اور انہیں اس منصوبے کا سارا علم تھا۔ بریگیڈیئر محمود نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جنرل نصیراللہ بابر جیل میں تھے اور انہیں خود آرمی سے ریٹائرڈ ہوئے عرصہ گزر چکا تھا۔ اب وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے۔ بریگیڈیئر محمود نے حکمت یار کو لیفٹیننٹ جنرل جمال سعید میاں کے پاس بھیجا‘ لیکن انہوں نے بھی معذرت کر لی کہ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے۔ اس پر حکمت یار اور ان کے ساتھی بہت فرسٹریشن کا شکار تھے کہ وہ اب کدھر جائیں۔
ایک صبح بریگیڈیئر محمود کو ایک فون کال آئی۔ دوسری طرف ایک اہم امریکی لیوس پرسیلٹین تھا جسے جنرل ضیاالحق نے امریکہ سے خصوصی طور پر ملاقات کے لیے بلایا تھا۔
مسٹر لیوس نے بریگیڈیئر محمود سے کہا کہ وہ جنرل ضیاالحق سے ملنے سے پہلے انہیں ملنا چاہتے ہیں‘ انہیں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔
بریگیڈیئر محمود کے لیے ایک نیا امتحان شروع ہو رہا تھا۔ صورت حال جلد بدلنے والی تھی جس کا اندازہ بریگیڈیئر محمود کو ہرگز نہ تھا۔