"RKC" (space) message & send to 7575

بے ایمانی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟

اس اتوار پھر سینٹرل پنجاب کا سفر درپیش تھا۔ ایک ہفتے میں دوسری دفعہ جانا پڑا۔ اگرچہ دونوں طویل سفر تھے لیکن مجھے سینٹرل پنجاب کے علاقوں کو جاننے اور دیکھنے کا موقع ملا اور اندازہ ہوا کہ اگر سینٹرل پنجاب سے لاہور اسلام آباد اور سیالکوٹ لاہور موٹر وے کو نکال دیا جائے تو یہ علاقے بھی پسماندہ ہیں۔دوست اکمل شہزاد گھمن کا میسج ملا کہ شکریہ آپ نے بھی ہمارے علاقوں کی پسماندگی‘ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور گائوں کی بربادی کا نوحہ لکھا۔
حیران ہوتا ہوں کہ ہر سال پنجاب کو جو ایک ہزار ارب سے زائد این ایف سی کا حصہ ملتا رہا وہ کہاں خرچ ہوا؟جی ٹی روڈ کی بدترین حالت آپ سب جانتے ہیں۔ وہاں روزانہ لاکھوں روپے ٹال ٹیکس کے نام پر اکٹھے کئے جارہے ہیں ‘ وہ کون کھا رہا ہے اس کا کچھ پتہ نہیں۔ اندر کے بندے نے پچھلے کالم پر میسج کیا کہ جی ٹی روڈ پر ٹال ٹیکس کے نام پر روزانہ لاکھوں نہیں کروڑوں اکٹھے ہورہے ہیں اور چند محکمے اور ان کے افسران کھا رہے ہیں۔ سینٹرل پنجاب کے لوگ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ذلیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
دورانِ سفر وفاقی سیکرٹری کابینہ سردار احمد نواز سکھیرا صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ ابھی آپ کا سینٹرل پنجاب کی بربادی اور پسماندگی پر روزنامہ دنیا میں کالم پڑھ رہا تھا۔خوشگوار حیرت ہوئی کہ سکھیرا صاحب جیسے بڑے افسران بھی میرے کالم پڑھتے ہیں۔ کہنے لگے: ابھی کالم ختم کیا تو سوچا آپ کو کچھ فیڈ بیک دیا جائے۔وہ خود پاک پتن کے زمیندار ہیں لہٰذا کسانوں کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں کسانوں کے ایشوز پر موقع پا کر دھڑلے سے بات بھی کرتے ہیں بلکہ ان وزیروں کو اپنے تئیں سپورٹ بھی کرتے ہیں جو کسانوں کی بات کرتے ہیں۔بتانے لگے کہ آپ نے جو بات لکھی ہے کہ کسان فصلوں کو آگ لگا رہے ہیں اس سے شاید سموگ لاہور پر برا اثر ڈال رہی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کسان بے چارہ مجبور ہے کہ وہ پچھلی فصل کی جڑیں جلائے ورنہ اگلی فصل اچھی نہیں ہوگی۔ وہ اس معاملے کی ٹیکنیکل باتیں سمجھانے لگے تاہم ایک بات یہ کہی کہ سینٹرل پنجاب میں سموگ کے حوالے سے تین اضلاع یا ڈویژن اہم ہیں لاہور‘ فیصل آباد اور گوجرانوالہ یا دیگر قریبی علاقے۔ اس کا حل اب ٹیکنالوجی کے پاس موجود ہے کہ جدید مشینری جسے لیزر کا نام دیا جاتا ہے وہ کسانوں کو فراہم کی جائے تو فصلوں کو آگ لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مقدمے درج کرنے یا کسانوں کو گرفتار کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا‘ ٹیکنالوجی سے ہوگا۔ کہنے لگے: تحصیل لیول یا یونین کونسل لیول پر ایک بھی لیزر مشین دے دی جائے یا کسانوں کو خریدنے میں مدد دی جائے تو وہ خود کرائے پر چلا کر دوسرے کسانوں کی مدد بھی کر سکتے ہیں اور یوں فصلوں کو آگ لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پنجاب کے گائوں میں گندگی بارے میں سکھیرا صاحب نے واقعہ سنایاکہ دس بارہ برس پہلے انہیں گالف ٹیم کے ہمراہ بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ بھارتی پنجاب سے بھی گزرے۔ایک جگہ راستہ بلاک تھا اور منتظمین کسی اور راستے سے لے گئے تو انہیں بھارتی پنجاب کے کچھ دیہات میں سے گزرنا پڑا۔ سکھیرا صاحب کہنے لگے کہ اتنے صاف ستھرے اور خوبصورت گائوں دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کیونکہ پاکستان اور بھارتی پنجاب میں نہ زیادہ فاصلہ ہے اور نہ ہی زیادہ فرق سمجھا جاتا ہے‘ لیکن جو فرق انہوں نے بھارتی پنجاب کے دیہات میں دیکھا وہ صفائی کا تھا۔
اس وقت تک گاڑی وزیرآباد کی طرف رواں دواں تھی جہاں سے نارووال اور پھر شکر گڑھ کی طرف جانا تھا۔ جتنی گندگی میں نے وزیرآباد شہر سے پہلے سڑک کے دونوں اطراف میں د یکھی اس پہ دل شدید دکھی ہوا۔ ہمارے پنجاب کے شہروں میں داخل ہوتے ہی گندگی کے ڈھیر آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ ان شہروں کے کسی سیاستدان اور بابو کو احساس نہیں۔ جس شہر یا قصبے سے گزرا ہر طرف غلاظت اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے موبائل فون سے چند سیکنڈ کی ویڈیو بنا کر ٹوئٹر پر ڈال دی کہ سینٹرل پنجاب کے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک ہورہا ہے۔ خیر اب وزیراعلیٰ پنجاب کے ڈیجیٹل میڈیا کوآرڈینیٹر اظہر مشوانی کی ٹوئٹ دیکھی جس میں انہوں نے اس جگہ کی صاف ستھری تصویریں شیئر کی تھیں جہاں سے وہ ویڈیو بنائی گئی تھی۔ میرے ٹوئٹ کے بعد ان جگہوں کو فوری طور پر ٹریکٹر لگا کر صاف ستھرا کر دیا گیا تھا۔ اگر ان سڑکوں کے کنارے درخت اور سبزہ لگا دیا جائے تو یہ جگہیں کتنی خوبصورت نظر آئیں گی۔ اظہر مشوانی اور دیگر افسران کا شکریہ جنہوں نے میری وزیرآباد بارے ویڈیو کو سیریس لیا اور شہر کی سڑکوں کے اردگرد پھیلے گند کو صاف کرایا۔ سوال یہ ہے کیا ان علاقوں کے ڈی سی اوز یا دیگر افسران اس سڑک سے نہیں گزرتے جہاں سے میں گزرا؟ کیا ان افسران کو کسی صحافی کی بنائی ہوئی ویڈیو یا لاہور سے ہدایات کی ضرورت ہے‘ وہ پھر ہی کام کریں گے؟ کیا ہمارے افسران کے اندر وہ جوش و جذبہ ختم ہو چکا ہے جو کسی پبلک سرونٹ کے اندر ہونا چاہئے؟ اگر وزیرآباد کی سڑکوں کے اردگرد پھیلے گند کی صفائی اب ہوسکتی ہے تو پہلے کیوں توجہ نہ دی گئی؟ کیا ہم عوام واقعی گندگی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمیں اب کسی چیز کی پروا نہیں رہی؟ شہروں کے اندر بھی گندگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کسی کو خیال نہیں آتا کہ جی ٹی روڈ ون وے ہونے کی وجہ سے اس کے درمیان گرین بیلٹ کے اندر گھاس اور پھول لگا کر اس سڑک کو کتنا خوب صورت بنایا جاسکتا ہے۔ ہمارے سیاستدان‘ حکمران اور بیوروکریٹس سب بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ اب تو ماشااللہ اکثریت نے وہاں کی شہریت تک لے رکھی ہے۔ یہ لوگ وہاں سے کچھ سبق نہیں سیکھتے کہ سڑکوں‘ شہروں یا قصبوں کو کیسے صاف ستھرا رکھنا ہے۔ عوام اور افسران کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور جن کے ٹیکس سے وہ تنخواہیں لیتے ہیں ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا اور ان کی خدمت کرنا ان کی ڈیوٹی ہے کوئی احسان نہیں ۔ آپ یقین کریں کہ شکر گڑھ تک کے طویل سفر میں ایک ہی بات سوچتا رہا کہ جو مذہب کہتا ہے صفائی نصف ایمان ہے اسی کے پیروکار اتنے گندے اور بے ہنگم کیسے ہوسکتے ہیں؟
اور سنیں‘ شکر گڑھ چوک میں رک کر سیبوں کی ایک پیٹی خریدی۔ روڈ سائیڈ پر کھڑے اس نوجوان کی بات پر یقین کیا کہ وہ اعلیٰ کوالٹی کا سیب ہی فروخت کررہا ہے۔ سیبوں کی پیٹی کو کھول کر نہیں دیکھا اور اس کی زبان پر بھروسا کیا۔ اس نے جو پیسے مانگے وہی ادا کیے۔ گھر آکر پیٹی کھولی تو اوپر چند اچھے سیب رکھے تھے‘ نیچے عام سے سیب تھے اور ریٹ اس نے اچھے سیبوں کا وصول کیا تھا۔کافی دیر سے حیران بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس ملک میں اعتبار کرنا ایک جرم ہے؟ اس دکاندار کا چہرہ سامنے آجاتا ہے‘ وہ کتنی دیر تک یقین دلاتا رہا کہ اعلیٰ کوالٹی کا سیب ہے۔مجھے اپنا آپ بے وقوف لگا۔ خود پر کچھ غصہ بھی آیا۔ پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ اگر میرے جیسے بیوقوف اس دنیا میں نہیں ہوں گے تو ان لوگوں کا دھندا کیسے چلے گا۔
خود کو تسلی دینے کے باوجود ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ یہ بے ایمانی اور حرام خوری نیچے سے شروع ہو کر اوپر تک جاتی ہے یا اوپر سے شروع ہو کر نیچے تک آتی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں