خطے میں بہت کچھ ہو رہا ہے جس کے اثرات پاکستان پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں انیس دسمبر کو او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس ہورہا ہے اور اس کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے: افغانستان۔ اس حوالے سے فارن آفس نے اسلام آباد کے صحافیوں کو بریفنگ کے لیے بلایا تھا۔ فارن منسٹر شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر مملکت فرخ حبیب بھی موجود تھے۔ دو گھنٹے سے زائد بریفنگ اور اس کے بعد سوالات و جوابات ہوئے۔ قریشی صاحب نے واقعی بہت اچھی بریفنگ دی اور بہت سارے خدشات دور کیے۔ میں شاہ محمود قریشی صاحب کا بڑا ناقد رہا ہوں۔ میرا خیال ہے وہ واحد سیاستدان یا بڑے عہدے پر بیٹھے وزیر ہیں جنہوں نے اپنی کوئی سوشل میڈیا ٹیم نہیں بنائی جو مجھ پر شدید تنقید، جوابی حملے یا دشنام طرازی کرتی۔
میرا خیال ہے اس پورے سیاسی ہجوم اور ان کی سوشل میڈیا ٹیموں کے دور میں‘ میں تین چار ایسے سیاستدانوں/ حکمرانوں کے نام لے سکتا ہوں جنہوں نے خود پر ہونے والی تنقید کے باوجود مخالف صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا ٹیمیں نہ تو کھڑی کیں اور نہ ہی ان کے خاندانوں تک پہنچے۔ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی کے علاوہ شہباز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ ایک دفعہ گیلانی صاحب پر کسی بینک قرضہ کے بارے میں سٹوری چھپی اور کہیں باتوں میں ذکر ہو گیا تو کہنے لگے: یہ سب جھوٹ ہے۔ میں نے کہا: پھر آپ نے اس خبر کی تردید کیوں نہ کی‘ آپ وزیر اعظم ہیں اس سے آپ کا امیج مزید خراب ہوگا۔ کہنے لگے: چھوڑو‘ صحافیوں کا کام ہے خبردینا‘ اب کیا ہر خبرپر ردعمل دیتے رہیں یا ان سے لڑتے رہیں۔ میں نے کہا: آپ کو اس کا نقصان ہوگا‘ آپ پبلک عہدے پر بیٹھے ہیں‘ آپ کو وضاحت یا بیان دینا چاہیے۔ وہ پھر بھی چپ رہے۔ ان کا یہ مزاج آج بھی برقرار ہے۔ آج بھی ان کی کوئی سوشل میڈیا ٹیم نہیں جو ان پر ہونے والی تنقید پر میرے جیسے صحافیوں پر تبرہ پڑھے یا ان کے گھروں تک پہنچے اور ان کا جینا حرام کر دے۔ گیلانی صاحب کے بارے میں میری ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ اگر وہ خود کو سکینڈلز سے بچا پاتے تو محمد خان جونیجو کے بعد دوسرے وزیراعظم ہوتے جن کی عزت کی جاتی اور یاد رکھا جاتا۔ ان کے بچوں نے بھی خیال نہیں رکھا کہ بندہ پیسہ کبھی بھی کما سکتا ہے لیکن عزت ایک دفعہ گئی تو پھر قارون کا خزانہ بھی نہیں بحال کر سکتا۔ ان کے بچوں نے بھی اپنے اوپر ہونے والی تنقید پر جوابی حملوں یا گالی گلوچ سے گریز ہی کیا۔
اس کے بعد شہباز شریف کی باری آتی ہے۔ پھر کہوں گا کہ ان کے پنجاب میں دس سالہ اقتدار کے دوران ان پر بھی میں نے بہت تنقید کی بلکہ شاید زیادہ ہی تنقید کی۔ ان کے بچوں سلمان شہباز اور حمزہ شہباز پر خبریں، تبصرے اور سکینڈلز تک کیے‘ لیکن پنجاب حکومت نے بھی اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں کھڑی نہ کیں کہ جواباً ان صحافیوں کا جینا حرام کر دو جو پنجاب حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ چاہتے تو وہ بھی مریم نواز صاحبہ کی طرح سوشل میڈیا ٹیم کھڑی کر سکتے تھے‘ لیکن شہباز شریف نے مناسب روٹ لیا اور اپنی میڈیا ٹیموں کو صحافیوں کی کردار کشی کا ٹارگٹ دینے کے بجائے اپنی گورننس کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرنے پر لگایا۔
میں شاہ محمود قریشی کو بھی اس لسٹ میں رکھ سکتا ہوں کہ وہ بھی بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ میں ان پر خبریں یا سخت کمنٹ کرتا رہا ہوں۔ ٹویٹر ہو یا ٹی وی شوز ان کے بارے میں سخت سے سخت باتیں کیں لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کہیں سے ان کے کسی حامی یا ان کے ساتھیوں کی طرف سے مجھ پر جوابی حملے کیے گئے ہوں‘ بلکہ جب بھی ملے‘ کبھی گلہ تک نہیں کیا۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کو بھی ان کے بچے اور دوست کہتے تھے: آپ رئوف کو دوست سمجھتے ہیں لیکن وہ آپ کا روزانہ پوسٹ مارٹم اور سکینڈلز فائل کرتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ برسوں بعد ملتان ایئرپورٹ پر ان سے ملاقات ہوگئی۔ جب تک میرا سامان نہیں آیا وہ کھڑے رہے۔ میں نے بڑا کہا کہ آپ جائیں‘ میں سامان کا انتظار کر لوں گا‘ لیکن وہ رکے رہے۔ مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں ان کی حکومت اور فیملی تک کا بڑا ناقد رہا بلکہ کئی سکینڈلز فائل کیے‘ لیکن وہ مجھے پروٹوکول دے رہے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اب جو سوشل میڈیا ٹیمیں بن گئی ہیں اور نوجوانوں کو پیسے دے کر اس کام پر لگا دیا گیا تو انہیں اس سے کیا ملا ہے؟ جہانگیر ترین صاحب سے شروع کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک بڑی سوشل میڈیا ٹیم کھڑی کی۔ انہوں نے ہر اس صحافی یا مخالف پر کیچڑ اچھالا جس نے ان کی پارٹی یا ان پر تنقید کی۔ تو کیا ہوا؟ لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے بعد بھی آج وہ نااہل ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیمیں بھی انہیں نہ بچا سکیں۔
اسی طرح مریم نواز صاحبہ نے بھی تحریک انصاف سے متاثر ہو کر نواز شریف کے وزیراعظم بننے ہی وزیراعظم ہائوس میں میڈیا سیل کھول لیا۔ کیا انہوں نے نواز شریف اور خود کو جیل سے بچا لیا؟ مریم نواز صاحبہ نے دو طرح کا میڈیا آپریٹ کیا۔ پہلا‘ انہوں نے اپنے پارٹی کے ان جیالوں کو اپنے گرد اکٹھا کیا جو مخالفین کو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے تھے۔ یوں تحریک انصاف اور نواز لیگ کے مابین گالی گلوچ کا نیا میچ شروع ہوا۔ اگلا کام یہ کیا کہ انہوں نے ٹویٹر اور فیس بک پر ان صحافیوں اور اینکرز کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا جو ان کے والد کی حکومت کے خلاف لکھ یا بول رہے تھے۔ ساتھ ہی تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیموں کا مقابلہ بھی شروع کیا۔ یوں سوشل میڈیا فورمز کو بدبودار فورم میں بدل دیا گیا جہاں ایک دوسرے کے خلاف گندے اور غلیظ ٹرینڈ چلائے گئے۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ کام تحریک انصاف والوں نے شروع کیا۔ نواز لیگ والے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ سیکھا‘ تحریک انصاف کی ٹیموں سے ہی سیکھا۔ اسی طرح میڈیا میں پیپلز پارٹی والوں کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا تھا کہ ان کی برداشت زیادہ ہے۔ شاید سوشل میڈیا اس وقت تک اتنی بڑی پاور نہیں بنا تھا جب پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی۔ یہ سب کام دو ہزار تیرہ کے بعد شروع ہوئے۔ پیپلز پارٹی والوں کو لگا‘ اگر انہوں نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی طرز پر اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں کھڑی نہ کیں تو پیچھے رہ جائیں گے؛ چنانچہ وہاں سے بھی اپنے ناقدین اور صحافیوں کے خلاف مہمیں چلوائی گئیں اور یوں اس رنگ میں سب رنگے گئے۔ پھر بھی کہوں گا کہ اس سارے عمل میں شاہ محمود قریشی، یوسف رضا گیلانی اور شہباز شریف نے برداشت اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ میں ان تینوں کا ناقد رہا ہوں لیکن اس بات کی تعریف کرنا پڑے گی انہوں نے اس غلیظ سوشل میڈیا گالی گلوچ کلچر سے خود کو دور رکھا۔ ناقدین کی تنقید پر اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا کہ سیاستدان ہو یا حکمران اسے زیادہ برداشت دکھانا پڑتی ہے۔ کم از کم ان تین سیاستدانوں نے وہ بڑی حد تک دکھائی ہے۔ اگر سیاستدانوں کی نئی جوان نسل حاکم بن کر برداشت اور تحمل سیکھنا چاہتی ہے تو ان سے سیکھ سکتی ہے کہ میڈیا کا کام ہی سیاستدانوں اور حکمرانوں پر تنقید کرنا اور سکینڈلز سامنے لانا ہے۔ ورنہ پھر دوسرا آپشن بھی موجود ہے کہ کچھ لوگ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے اور مخالفین کو ان کے گھروں تک چھوڑ کے آنے پر یقین رکھتے ہیں۔ مرضی آپ کی ہے کہ کون سا ماڈل سوشل میڈیا پر فالو کرنا ہے۔ باقی کرنی تسی اپنی مرضی اے۔