آپ کتنی ہی دکھ بھری کہانیاں پڑھتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ اس سے زیادہ دکھ بھری کہانی اور کیا ہو گی‘ لیکن ہر دفعہ آپ کا اندازہ غلط نکلتا ہے اور پھر ایک نیا دکھ آپ کا منتظر ہوتا ہے۔
میں نے یہ سب کچھ پڑھ تو لیا لیکن اب بیٹھا پچھتا رہا ہوں کہ بہتر ہوتا نہ ہی پڑھتا۔ اب احساس ہو رہا ہے کہ کیوں کہا جاتا ہے کہ Ignorance is blessing۔ مزے کی زندگی ہے اگر آپ کو اپنے ارد گرد کسی بات کا علم نہیں ہے۔ شعور جتنا بڑھتا جائے گا‘ ادراک میں جتنا اضافہ ہو گا‘ اتنا ہی تکلیف کی شدت بڑھتی جائے گی۔ دور کیا جانا ابھی افغانستان سے جو کہانیاں سامنے آ رہی ہیں‘ ایسی ہیں کہ دل کو چیر کر رکھ دیں۔ بڑے شہروں کا تو پتہ چلتا رہتا ہے لیکن دور دراز کے علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا علم کسی کو نہیں ہوتا۔ وہ علاقے گمنامی کے گوشے بنے رہتے ہیں۔
ابھی ایک صحافی ان علاقوں تک پہنچا ہے تو وہاں سے ایسی خبریں نکل رہی ہیں کہ دل مٹھی میں آ جائے کہ افغانستان میں‘ یعنی بالکل ہمارے پڑوس میں‘ لوگ اب بھوک اور افلاس سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ اپنے بچے تک بیچ رہے ہیں۔ عزیز گل کی کہانی سنئے۔ اس کے خاوند نے اپنی دس سالہ بچی کسی کو فروخت کر دی اور کہا کہ اس نے اس کی شادی کر دی ہے۔ عزیز گل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے گھر میں تو کئی دنوں سے کھانے کو کچھ نہیں تھا پھر اچانک کہاں سے اتنا وافر کھانا آنا شروع ہو گیا ہے۔ عزیز گل نے اپنے شوہر سے اس بارے میں بار بار استفسار کیا تو آخر کار اس نے تسلیم کر لیا کہ اس نے اپنی دس سالہ بیٹی کے عوض تقریباً ایک ہزار امریکی ڈالر کے برابر افغانی کرنسی کسی بندے سے لی ہے‘ یعنی پیسے لے کر اسے اپنی بیٹی دے دی ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو بچی کی ماں عزیز گل گھر پر نہ تھی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کا خاوند اپنی ہی بیٹی کو بیچ دے گا۔ عزیز گل نے اپنے خاوند کو کہا کہ اگر اس کی بیٹی کو کسی نے لے جانے کی کوشش کی تو وہ خود کشی کر لے گی۔ شوہر نے بتایا کہ اگر وہ اس بچی کو نہ بیچتا تو باقی پانچ بچے اور وہ سب بھوکے مر جاتے‘ پانچ بچوں کو بچانے کے لیے ایک بچی کی قربانی دینا ضروری تھی۔
عزیز گل نے اپنے رشتے داروں کو اکٹھا کر لیا۔ سب کا دبائو ڈلوا کر بچی کو طلاق دلوائی لیکن اب سوال یہ ہے کہ وہ ایک ہزار ڈالرز کے برابر افغان کرنسی کہاں سے لائے اور اس بندے کو ادا کرے جس کو اس کے شوہر نے اسے بتائے بغیر بیٹی بیچ دی تھی۔ اس نے شوہر کو کہا: بہتر تھا ہم سب مر جاتے لیکن اپنی چھوٹی سی قندیل گل کو نہ بیچتے۔ اب جس بیس سالہ لڑکے کو قندیل گل بیچی گئی تھی وہ روز عزیز گل سے پیسے مانگنے آتے ہیں۔ قندیل کا باپ‘ جس نے بیٹی بیچ کر ایک لاکھ افغانی لیے تھے‘ گھر سے بھاگ چکا ہے اور اب ماں اپنی بیٹی کو بچانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے اور اسے سمجھ نہیں آرہی وہ کب تک اس لڑکے کے تقاضوں کو مزاحمت پیش کر سکے گی۔ وہ سوتی رہتی ہے‘ بچی کو حوالے کر دے یا پھر خود کو مار ڈالے۔ پھر اسے خیال آتا ہے کہ وہ خود کشی کرتی ہے تو باقی بچوں کا خیال کون رکھے گا۔ بڑے بچے کی عمر بارہ برس تو اس کے سب سے چھوٹے بچے کی عمر دو ماہ ہے اور کُل اس کے چھ بچے ہیں۔ اب عزیز گل اپنے چھ بچوں کو اپنی بوڑھی ماں کے پاس گھر چھوڑ جاتی ہے اور خود لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ اس کا بارہ سالہ بیٹا سکول کے بعد سیفران چننے جاتا ہے جس سے چند افغانی بن جاتے ہیں لیکن سیفران کا سیزن بھی مختصر ہوتا ہے۔ اب ان کے پاس کچھ نہیں رہا اور اس خاندان کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسے دن گزارے گا۔ کیسے اس آزمائش سے گزرے جو اس خاندان کو درپیش ہے۔
ایک اور باپ اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہ رہا ہے تاکہ وہ اپنی بیمار بیوی کے علاج کے لئے پیسے اکٹھے کر سکے۔ ان کے ہاں پانچواں بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ ایک اور باپ اپنے ایک آٹھ برس کے بیٹے کو روز مارکیٹ لے کر جاتا ہے تاکہ وہ اسے بیچ سکے۔ اس نے تین سال پہلے اپنی چھوٹی بیٹی کا رشتہ کر کے ڈائون پے منٹ لی تھی۔ اس وقت وہ بچی چار برس کی تھی اب وہ سات برس کی ہو چکی ہے۔ اب وہ اپنی ایک چھ سالہ بیٹی کو بیچنے کے لیے رشتہ تلاش کر رہا ہے۔ باپ کا کہنا ہے ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اس نے بیوی کا علاج کرانا ہے اور اس کے پاس ڈاکٹر کو دینے کے لئے ایک افغانی تک نہیں۔ وہ پوچھتا ہے کہ چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے رشتے نہ کرے تو کیا کرے؟ اس کا کہنا ہے کہ اس کی سات سالہ بیٹی کے آدھے پیسے اسے مل گئے ہیں‘ جب وہ بڑی ہو گی تو باقی بھی مل جائیں گے۔ اب اس باپ کو گھر بھر کی خوراک اور بیوی کے علاج کے لئے بیس ہزار افغانی چاہئیں اور وہ اب سات سالہ بیٹی کا رشتہ ڈھونڈ رہا ہے۔ بچی کی ماں کا کہنا ہے کہ کیا کریں‘ ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ جب ہم نے یہ سب کچھ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا کوئی لے گیا ہے اور میں کچھ بھی نہ کر سکی۔
ایک اور افغان خاندان کو بھی اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے۔ یہ خاندان بھی غربت، جنگ اور بھوک کا مارا در بدر پھر رہا ہے۔ یہ خاندان اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگر باقی ماندہ خاندان نے زندہ رہنا ہے تو انہیں اپنے آٹھ سالہ بیٹے صلاح الدین کو کسی کو فروخت کرنا ہو گا۔ گھر میں یہ فیصلہ ہوا کہ کس بچے کو بیچ کر اور پیسے لے کر بھوک سے بچا جائے۔ ماں باپ کی نظریں صلاح الدین پر پڑیں کہ کوئی نہ کوئی ان کے اس بچے کو خرید لے گا۔ کوئی ایسا جوڑا جس کے ہاں اپنے بچے نہیں ہیں۔ یوں اب ایک ماں اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو روز تیار کر کے مارکیٹ بھیجتی ہے تاکہ اس کا باپ اسے کسی اجنبی کو اچھی قیمت پر فروخت کر سکے تاکہ باقی بچے بھوکے نہ مریں۔ صلاح الدین کی ماں گل دستہ کا کہنا ہے کہ کون سی ماں ہو گی جو اپنے بیٹے کو بیچنا چاہے گی‘ لیکن بعض دفعہ آپ کو نہایت مجبوری کی حالت میں ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں تاکہ باقی بچے بھوکوں مرنے سے بچے رہیں۔ صلاح الدین کا باپ شاکر صرف ایک آنکھ سے دیکھ سکتا ہے‘ دوسری خراب ہے جبکہ اسے گردوں کا مرض بھی لاحق ہے۔ اس کے کل سات بچے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے سات بچوں کو بھوک سے بے چین دیکھتا ہے تو اسے ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ وہ اپنے ایک بیٹے کو بیچ کر باقی کی خوراک کا بندوبست کرے‘ لیکن اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ جب ایک بیٹا بیچنے سے ملنے والے پیسے ختم ہو جائیں گے تو وہ پھر کیا کرے گا؟آٹھ سالہ بیٹااپنے ہونٹ دانتوں میں دبائے یہ سب کچھ چپ بیٹھا سنتا رہا ہے کہ اسے اپنے سات بہن بھائیوں کی خاطر خود کو فروخت کیلئے پیش کرنا ہے۔ اسے ان سات بہن بھائیوں کو جلد چھوڑ جانا ہے۔
صلاح الدین کی کہانی پڑھ کر مجھے برسوں پہلے سب رنگ میں اردو کے بڑے ادیب عبدالستار قاضی کا طویل افسانہ ''بادل‘‘ یاد آیا جس میں ایک زمیندار کے پالتو ہاتھی کا نام بادل تھا۔ جب زمیندار کی لڑکی کا رشتہ ہونے لگتا ہے تو وہ جہیز میں بادل مانگ لیتے ہیں۔ زمیندار جواب دیتا ہے: بادل میرا بیٹا ہے اور بیٹے جہیز میں نہیں دیے جاتے۔ لیکن آج قاضی صاحب زندہ ہوتے تو جان پاتے کہ جنگوں، غربت، دربدری اور فاقہ کشی کے دور میں خاموش نظروں سے اپنے باپ کی انگلی پکڑے ہونٹ چباتے آٹھ سالہ صلاح الدین جیسے بیٹوں کو جہیز چھوڑیں سرعام بازار میں بیچنا پڑ رہا ہے۔