آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک اور وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس کے خلاف سازش ہورہی ہے اور اگر اسے گھر بھیجا گیا تو وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا۔یہ وہی وزیراعظم عمران خان ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ وہ حکمران بن کر کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ اب کہتے ہیں کہ اگر نکالا گیا تو نہیں چھوڑیں گے۔
ادھر لندن سے انعام رانا صاحب کا ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا جو انہوں نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد لکھا۔ اس میں جہاں رانا صاحب نے اپنے دیگر تاثرات بیان کئے ہیں وہیں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ نواز شریف یہ شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستانی قوم ان کی توقعات پر پورا نہیں اتری۔ مطلب عوام تمام تر تنگی کے باوجود احتجاج کرنے نہیں نکلے۔ اس سلسلے میں وہ بنگالیوں کی مثال دیتے ہیں کہ وہ باہر نکلے۔ شیخ مجیب جیل میں تھے اور عوام نے خود جدوجہد کی۔ انعام رانا نے نواز شریف سے کہا کہ ہمارے خطے میں دراصل لوگ تاریخی طور پر کسی نجات دہندہ کا انتظار کرتے ہیں وہ خود سے کچھ نہیں کرتے تو اس پر نواز شریف صاحب کا کہنا تھا کہ یہ کیا بات ہوئی‘ اگر پہلے کچھ نہ کیا گیا تو اب بھی کچھ نہ کیا جائے۔ مریم نواز کے بارے کہا کہ ان کی شکل میں سیاسی لیڈرشپ موجود ہے‘ عوام ان کے ساتھ باہر نکلیں‘ اپنا ردعمل دیں۔
انعام رانا کا یہ مضمون پڑھتے ہوئے مجھے پندرہ برس پہلے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں بھارتی صحافی کلدیپ نیئر سے ایک ملاقات یاد آگئی۔ وہ نواز شریف سے جدہ تازہ تازہ مل کر آئے تھے۔ اس وقت وہ کہہ رہے تھے کہ نواز شریف توقع کئے بیٹھے ہیں کہ پاکستانی قوم بہت جلد اُٹھے گی اور انقلاب لے آئے گی۔ کلدیپ نیئر بینظیر بھٹو سے بھی دبئی میں مل کر آئے تھے۔کلدیپ نیئرکا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں انقلاب نہیں لائے جاتے بلکہ لیڈروں کو خود جیلوں میں بیٹھ کر لڑائی لڑنا پڑتی ہے پھر عوام کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو خود تو باہر بیٹھے ہیں اور عوام سے توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں پرویز مشرف کا تخت الٹ کر انہیں واپس لائیں۔
مجھے یاد آیا کہ 2005 ء میں جب نواز شریف سے جدہ میں میری ملاقات ہوئی تو بھی انہیں یہی گلہ تھا کہ قوم نے ساتھ نہیں دیا۔ جب نواز شریف صاحب لندن پہنچے تو وہاں ایک شہر میں جلسہ کرنے گئے تو میں بھی کوریج کے لیے گیا تھا۔ وہاں لوگوں نے نواز شریف کی تقریر میں نعرے لگائے ''میاں صاحب قدم بڑھائو‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘یہ سن کر نواز شریف نے مجمع سے کہا کہ بارہ اکتوبر سے پہلے بھی انہیں ہر جگہ یہی سننے کو ملتا تھا کہ میاں صاحب قدم بڑھائو عوام آپ کے ساتھ ہیں اور جب میں نے عوام کی باتوں میں آکر قدم بڑھایا اور مڑ کر دیکھا تو پیچھے کوئی نہیں تھا اور میں جیل پہنچ چکا تھا۔ اس پر وہاں ایک بڑا قہقہہ لگا۔
نواز شریف یہ نہ سمجھ سکے کہ شیخ مجیب کے عوام اس لیے اس کے پیچھے کھڑے ہوگئے کہ اس نے قوم کے ساتھ کاروبار نہیں کیا تھا نہ ہی بیرونِ ملک جائیدادیں بنائیں۔ وہ تحریک پاکستان کا ایک سیاسی ورکر تھا جوبعد میں قوم پرست بن گیا اور اس کا جینا مرنا اس کی اپنی قوم ہی تھی۔اب انعام رانا کی باتوں سے لگتا ہے کہ نواز شریف کو وہی پرانا گلہ پھر عوام سے ہے کہ وہ پاکستان میں احتجاج کیوں نہیں کررہے۔یاد آیا کہ جب نواز شریف دس ستمبر 2007 ء کو لندن سے جلاوطنی ختم کر کے پاکستان لوٹ رہے تھے تو میرے سامنے انہیں ان کے بہت قریبی لوگ کہہ رہے تھے کہ میاں صاحب آپ کا خمینی جیسا استقبال ہوگا۔ پورا پاکستان آپ کو ایئرپورٹ پر ریسیو کرنے امڈ آئے گا۔آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ابھی جہاز اسلام آباد کی حدود میں داخل ہی ہوا تھا تو پتہ چل گیا کہ سارا انقلاب ٹھس ہوگیا ہے۔ نیچے ایئرپورٹ پر نواز لیگ کا کوئی بندہ نہ تھا۔ نواز شریف کو پھر سعودی حکمرانوں کا منت ترلا کر کے اور بینظیر بھٹو کی واپسی کا دبائو استعمال کر کے وطن آنا پڑا۔ اس کے باوجود انہیں تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔ وہ چاہتے تو پارلیمنٹ اور عوام کو مضبوط کرسکتے تھے لیکن وہ آٹھ ماہ نیشنل اسمبلی نہیں گئے۔ چھ‘ چھ ماہ کابینہ اجلاس نہیں بلایا۔ دنیا کے ڈیڑھ سو دورے کئے۔ پورے چار سو دن ملک سے باہر رہے۔ ہزاروں تحائف ملے اور جب سینیٹ میں تفصیل مانگی گئی تو کہہ دیا کہ یہ قومی راز ہے۔ مری گورنر ہاؤس پر پچاس کروڑ روپے خرچ کرائے جہاں شریف خاندان چھٹیاں گزارتا‘ چالیس مہنگی گاڑیاں لے کر شریف فیملی میں پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر بانٹ دیں۔ اب کہتے ہیں عوام بڑے بے حس ہیں‘ باہر نہیں نکلتے۔ خود جیل سے نکل کر لندن پہنچ گئے‘ اب سارا نزلہ عوام پر ہے کہ انہوں نے قدر نہیں کی۔نواز شریف یہ بات نہ سمجھ سکے کہ عوام جب کسی کو لیڈر بناتے ہیں تو وہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی حفاظت کی جائے گی نہ کہ عوام سے حفاظت مانگ لے گا۔ عوام طاقتور کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں‘ جو انہیں مسائل اور بلائوں سے بچا سکے نہ کہ خود لیڈر بلائوں سے بچنے کیلئے عوام سے مدد کی درخواست کرتا پھرے۔
اب خان صاحب کی سن لیں وہ بھی انہی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جن سے نواز شریف کو گلہ ہے۔ عمران خان کا بھی وہی خیال ہے جو نواز شریف کا لندن ایئرپورٹ پر تھا کہ عوام کا ایک ریلا انہیں کندھوں پر اٹھا لے گا۔ اگر ان کے ذہن میں دھرنے کے دنوں کے جلسے ہیں تو یاد رکھیں دھرنے میں طاہرالقادری کے ورکرز نہ ہوتے تو یہ دھرنا دس دن بھی نہ چلتا۔ ساتھ ہی اس وقت کی مقتدرہ بھی خان صاحب کی سپورٹ کررہی تھی۔ پورا میڈیا بھی ان کے ساتھ کھڑا تھا۔عوام بھی چاہتے تھے کہ عمران خان کو موقع دے کر دیکھیں۔ اب عوام نے دیکھ لیا کہ اس موقع سے کس نے کیا فائدہ اٹھایا؟ عثمان بزدار اور ان کا خاندان کروڑ پتی ہوگئے‘ زلفی بخاری کے دن بدلے‘ شہزاد اکبر اپنا حصہ لے گیا‘ پاک پتن کے خوش قسمت خاندان کی قسمت کھل گئی‘ گوجرانوالہ کے ایک گجر خاندان نے مال بنا لیا‘ بیس کے قریب یاروں دوستوں اور چندہ دینے والوں نے وزارتوں کے مزے لے لیے۔ عوام کو بتایا گیا کہ ٹاپ پر بندہ ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہوجاتا ہے۔ پتہ چلا کہ یہ بھی ایک فریب تھا۔ تین سال میں درجن بھر سکینڈلز سامنے آئے۔ اقتدار پانے اور حکومت میں ہر قیمت پر رہنے کیلئے ہر قسم کا کمپرومائز کیا گیا۔ وہ قسمیں تک توڑی گئیں جن کا عوام سے کہا گیا تھاکہ مرنا پسند کر لوں گا لیکن یہ کام نہیں کروں گا ۔
اب انہیں پتہ چلا ہے کہ ان کا چل چلائو ہے۔ وہی جو انہیں لائے تھے اب کچھ اور لوگوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ ان باتوں نے خان صاحب کا غصہ آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ اس لیے انہوں نے لائیو کالز کے سیشن میں کھل کر کہا کہ وہ سب کا جینا حرام کر دیں گے۔میرا خیال ہے ان ساڑھے تین سالوں میں پلوں کے نیچے بہت ساپانی بہہ گیا ہے۔ انہوں نے جو کچھ بائیس برس میں کمایا تھا وہ ان تین برسوں میں گنوا بیٹھے ہیں۔ کردار بھی ایک سفید کپڑے کی مانند ہوتا ہے‘ ایک دفعہ داغ لگ جائے تو دھلائی سے بھی نہیں جاتا۔ خان صاحب نے ان تین برسوں میں وہ سب وعدے توڑے جو عوام سے کئے تھے۔ اپنی ذات سے مسلسل اور نہ ختم ہونے والا رومانس انہیں لے ڈوبا۔ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ وہ باہر نکلیں تو سب کچھ الٹ دیں گے۔ ہوسکتا ہے خان صاحب سب کچھ الٹ بھی دیں لیکن ذرا دھیان رہے وہی حشر نہ ہو کہ جب مڑ کر دیکھیں تو خود کو اکیلا پائیں اور پھر لندن بیٹھ کر وہ بھی عوام کی ناقدری کے اسی طرح گلے کریں جیسے آج کل نواز شریف کرتے ہیں۔