اس ایک ہفتے میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ کس نے سوچا تھا کہ عمران خان بھی گیلانی اور نواز شریف کی طرح مدت پوری نہیں کر پائیں گے۔ جس جوش اور جذبے ساتھ عمران خان نے بنی گالہ سے حلف اٹھانے سے پہلے تقریر کی تھی‘ اس سے کچھ امیدیں پیدا ہوئی تھیں کہ وہ بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور پاکستان میں نئی شروعات ہو رہی ہیں‘ لیکن ان کی بدقسمتی کہ جس دن وزیر اعظم بنے اس روز تقریر نہ کر سکے یا اپوزیشن نے انہیں تقریر نہ کرنے دی۔ جس کے لیے بائیس برس محنت کی تھی وہ لمحہ جب آیا تو خان صاحب کو تقریر نہ کرنے دی گئی۔ لگتا ہے‘ آج تک وہ اس ہینگ اوور سے نہیں نکل سکے اور اس بات کا انہیں دکھ ہے‘ لیکن خان صاحب ایک بات نہ سمجھ سکے کہ یہی کچھ اپوزیشن چاہتی تھی کہ وہ ان کے ساتھ سینگ اڑائے رکھیں اور اپنے کام پر توجہ نہ دیں سکیں۔ باقی کا کام انہوں نے عوام سے کیے گئے وعدے توڑ کر کیا اور اپنی ساکھ اور حمایت کھو بیٹھے۔
اپوزیشن کو عمران خان کا اندازہ تھا کہ فاسٹ بائولر ہونے کی وجہ سے ان کا مزاج جارحانہ ہے۔ انہوں نے سیاست بھی جارحانہ انداز میں شروع کی۔ خیر اپوزیشن میں تو جارحانہ انداز چل جاتا ہے جو ان کی کامیابی کی نشانی بنا‘ لیکن حکومت میں رہ کر جارحانہ انداز راس نہیں آیا۔ جو مزاج حکومت کیلئے ضروری تھا اس میں نہ ڈھل سکے۔ اپوزیشن انہیں غصہ دلاتی رہی اور وہ اس کے جال میں پھنستے رہے۔ ہو سکتا ہے ان کے حامیوں کا خیال ہو کہ وہ احتساب کا نعرہ لگا کر آئے تھے‘ اس سے پیچھے کیسے ہٹ سکتے تھے‘ لیکن جو کچھ ہوا وہ خان صاحب کے گماں میں بھی نہ ہو گا۔ اچانک پاور ان کے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل گئی ہے۔ خوشامدیوں نے انہیں گھیر لیا تھا۔ ان سے جب بھی صحافیوں کے ساتھ ملاقات ہوئی وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہ ہوتے۔ وہ خود گھنٹوں بولتے اور بار بار خود کو دہراتے رہتے تھے۔ ایک مرحلہ وہ بھی آیا کہ انہوں نے صحافیوں سے ملنا بند کردیا کہ وہ شاید سب بکائو تھے۔ یہی بات عامر متین نے انہیں وزیراعظم آفس میں آخری دن ملاقات میں کہی تھی کہ اگر انہیں کچھ صحافیوں سے تھوڑا بہت آزادانہ فیڈبیک مل بھی جاتا تھا تو اس کے دروازے بھی انہوں نے خود پر بند کر لیے تھے۔
اب خان صاحب کے پاس کیا آپشن بچ گئے تھے۔ ایک تھا کہ وہ گریس فل طریقے سے یہ سب کچھ قبول کرتے یا پھر لڑائی کرتے۔ عمران خان کا مزاج سامنے رکھتے ہوئے سب کا یہی خیال تھا کہ وہ لڑیں گے‘ اور وہ لڑ رہے ہیں‘ لیکن جس طرح غداری کے سرٹیفکیٹس انہوں نے بانٹنے شروع کیے اور اپنے سب سیاسی مخالفوں کو غدار قرار دے دیا‘ اس نے تلخی بڑھا دی ہے۔ میرے خیال میں ہم نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ چوہتر برس بڑا ٹائم ہوتا ہے کہ قومیں اور لیڈران سیکھ جاتے ہیں۔ عوام بھی سیکھ جاتے ہیں کہ غداری کا کھیل اب نہیں کھیلنا۔ ہر معاشرے میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور وہ مختلف رائے رکھتے ہیں‘ سیاسی اختلافات بھی ہوتے ہیں‘ اور یہی بات کسی معاشرے کو زندہ رکھتی ہے‘ لیکن کسی معاشرے میں جب کچھ لوگ خود کو زیادہ محب وطن سمجھ کر دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ وہ ریاست کے زیادہ ہمدرد ہیں تو پھر وہ معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں غداری کے القابات پہلے ایوب خان کے دور میں بنگالیوں کو ملے۔ ان کے بعد بھٹو صاحب کے دور میں بلوچوں کی باری لگی۔ پھر ضیا دور میں سندھیوں کو غدار کہا گیا۔ پشتونوں کو بھی یہی کہا گیا۔ یوں صوبوں کے درمیان ایک تنائو کی سی کیفیت پیدا ہوئی؛ تاہم یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی کہ جو اب تک اس بات کا فیصلہ کرتے تھے کہ اس ملک میں کون وفادار ہے اور کون غدار ہے‘ ایک دن وہ خود اس فہرست میں جگہ پائیں گے۔ اب پتہ چلا ہے جو الزامات وہ دوسروں پر لگاتے تھے خود ان پر لگ رہے ہیں۔ نواز شریف کی برطرفی اور گرفتاری کے بعد پنجاب کے مزاج میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پنجاب میں جس طرح مزاحمت کی گئی اور جو زبان استعمال کی گئی وہ دوسروں نے کبھی نہیں کی تھی۔ عمران خان بھی سخت بیانات دیتے اور تقریریں کرتے رہے۔ یوں پنجاب میں پہلی دفعہ یہ نعرے سنے گئے کہ انڈیا کا جو یار ہے وہ غدار ہے اور یہ نعرے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نواز شریف کے خلاف لگے اور اس وقت لگے جب وہ وزیر اعظم تھے۔
عمران خان کل تک ان کے ساتھ کھڑے تھے جن کی حب الوطنی کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور وہ ماضی کی ان تمام پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے تھے کہ کیسے اس ملک میں کچھ طبقوں کو حقوق دینے کے بجائے الٹا غدار بنا کر پیش کیا گیا۔ اب وہی عمران خان سب کو غدار کہہ رہے ہیں کیونکہ ایک پاکستانی سفیر نے ایک خط لکھ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو جنرل مشرف کے بعد دو اچھے مواقع ملے تھے کہ وہ ان دس برسوں میں میچور گورننس کرتے‘ لوگوں کے دل جیتتے، کرپشن اور کرپٹ سے بچ کر رہتے تو عمران خان آج وزیر اعظم نہ ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اس وقت بھی کالم لکھا تھا کہ عمران خان الیکشن نہیں جیتے بلکہ نواز لیگ الیکشن ہاری ہے۔ اگر کوئی پارٹی اچھا پرفارم نہیں کرے گی یا کرپشن کرے گی تو یقین رکھیں کہ اس کے مخالفوں کا اس میں کوئی کریڈٹ نہیں ہوتا کہ وہ الیکشن جیت جائیں۔ یہ اس حکومت کی نالائقی ہوتی ہے جو اپوزیشن پارٹی کو الیکشن جیتنے میں مدد دیتی ہے۔
پیپلز پارٹی دور میں بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن اور میمو گیٹ جیسی کہانیوں کو نواز شریف نے کیش کرایا تھا۔ نواز شریف نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ پیپلز پارٹی کرپٹ ہے اور رینٹل پاور سکینڈل ان کے گلے کی پھانس بن گیا تھا۔ الیکشن کی تیاری کرنے کے بجائے زرداری صاحب اور ان کے دوستوں نے خود کو تسلی دیئے رکھی کہ سینٹرل پنجاب میں عمران خان نواز شریف کا ووٹ بینک کاٹیں گے اور اس کا سارا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو گا‘ یوں وہ بڑے آرام سے الیکشن جیت جائے گی جب کہ سرائیکی علاقے تو ان کی جیب میں تھے‘ جہاں سے وہ جیت کر آتے رہے ہیں۔ روایتی طور پر سرائیکی علاقے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے آئے ہیں‘ لہٰذا پیپلز پارٹی کے بڑوں نے آرام سے وہ وقت ایوان صدر میں اس انتظار میں گزارا کہ الیکشن ہوں اور عمران خان فیکٹر کی وجہ سے وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں۔ نتیجہ وہی نکلا جو ہمارے سامنے ہے۔ پیپلز پارٹی پورے پنجاب سے اڑ گئی۔
سرائیکی علاقوں میں لوگ اس وجہ سے ناراض تھے کہ پارٹی نے سرائیکی صوبے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن وعدہ پورا نہ ہوا جب کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرارداد منظورکرا لی تھی تاکہ وہ یہ میسج دے سکیں کہ وہ ایک چھوڑیں وہ دو صوبے بنائیں گے۔ سرائیکی صوبہ کسی نے نہیں بنانا تھا۔ عمران خان نے بھی نہیں بنایا۔
آج جب عمران خان کے اقتدار کا سورج ڈوب رہا ہے تو وہ جاتے جاتے غداری کے نئے سرٹیفکیٹ بانٹ کر جا رہے ہیں۔ اپنی غلطیاں نہ میں مانتا ہوں نہ آپ‘ نہ عمران خان۔ وہی بات کہ ہم اپنی غلطیوں سے تباہ ہوتے ہیں دوسروں کی کمزوریوں سے نہیں۔ کیا خوب کسی نے کہا تھا تباہی غلطی سے نہیں ہوتی غلطی پر ڈٹے رہنے سے ہوتی ہے۔