ٹوئٹربند ہونے کے امکانات کی خبروں کے ساتھ ہی بہت کچھ یاد آیا۔وقت کتنی تیزی سے گزر گیا اور اب تو ان برسوں میں بہت کچھ بدل بھی گیا ۔
یکم اپریل 2013ء کی ایک دوپہر تھی جب دنیا ٹی وی اسلام آباد کی مارگلہ روڈ پر واقع عمارت میں ارشد شریف اور عدیل راجہ میرے دفتر میں بیٹھے تھے۔ ارشد نے مجھے کہا :تم نے اب تک اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ کیوں نہیں بنایا؟ وہ خود 2009ء میں بنا چکا تھا۔ مجھے ٹوئٹربارے کم ہی علم تھا‘سچ پوچھیں تو میں نے اب تک ٹی وی چینل پر اردو اخبارات میں امیتابھ بچن یا حسین حقانی کے کچھ بیانات پڑھے تھے جن میں یہ لکھا تھا کہ انہوں نے یہ ٹوئٹ کیا ہے۔ میں نے اس سے آگے جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔میں نے ارشد شریف سے کہا: یار پہلے بکھیڑے کیا کم ہیں جو نیا پال لیں۔لوگ فیس بک پر نہیں سنبھالے جاتے کہ اب ٹوئٹرپر بھی مغز ماری کرنی پڑے گی‘ زندگی پہلے ہی مشکل ہے۔ فیس بک پر بہت کچھ سننا اور برداشت کرنا پڑتا ہے‘ لوگ اکثر بدتمیزی کرتے ہیں‘ آپ بدتمیزی یا گالی گلوچ کا جواب بھی نہیں دے سکتے محض اپنا دل جلاتے ہیں‘ بہتر ہے نیا روگ نہ پالا جائے۔ اس دوران مجھے یاد پڑتا ہے کچھ لوگ ٹوئٹرپر میرے بارے پوچھتے تھے کہ میرا اکاؤنٹ ہے یا نہیں جو ارشد اور راجہ نے مجھے دو تین دفعہ دکھایا تھا۔ پتا چلا میرے تو تین‘ چار جعلی اکاؤنٹ بھی یار دوستوں نے بنا رکھے تھے۔ اس جعلی اکاؤنٹ والی بات پر میرا ماتھا ٹھنکا کہ میرے نام سے کسی وقت کوئی بھی کچھ کہہ دے اور الزام میرے سر۔
خیر ارشد شریف نے عدیل راجہ کو کہا کہ چلو یار اس کا اکاؤنٹ بنائو۔ میں نے مزاحمت کی کوشش کی تو ارشد شریف نے راجہ کو کہا: تم بنائو۔عدیل راجہ اس کام میں بڑا ماہر ہے۔ اس نے منٹوں میں میرا اکاؤنٹ بنا کر مجھے کہا: یہ لیں جناب۔ پہلے میرا اپنا نام تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ پتا چلا کوئی فراڈیا پہلے ہی میرے نام پر اکاؤنٹ بنا چکا ہے تو عدیل راجہ نے @klasrarauf بنا دیا۔ مجھے دکھایا۔ کافی دیر تک ارشد شریف اور عدیل راجہ مجھے اس کا استعمال سکھاتے رہے۔ ارشد شریف نے اپنے اکاؤنٹ سے مجھے ٹیگ کر کے ٹوئٹ کیا کہ یہ رئوف کا ٹوئٹراکاؤنٹ ہے۔مجھے ٹوئٹر پر پہلے فالو کرنے والے بھی ارشد شریف اور عدیل راجہ تھے۔
میں نے پہلا ٹوئٹ کیا اور حیرانی سے فالورز کی دھڑا دھڑ تعداد بڑھتے دیکھتا رہا اور ساتھ ہی نیچے کمنٹس آنا شروع ہوگئے۔ تھوڑی دیر میں فالونگ کافی بڑھ چکی تھی۔ لوگوں کے کمنٹس پڑھ کر عجیب سا لگا کہ ابھی بات کی اور ساتھ ہی دنیا بھر سے آپ کو رسپانس ملنا شروع ہوگیا۔ ایسا تیز رابطہ پہلے کبھی نہ تھا۔ٹی وی شوز یا فیس بک پر بھی اس طرح کا رسپانس نہ تھا۔یوں دنیا ان لمحات میں بدل گئی۔ مجھے علم نہ تھا کہ آنے والے برسوں میں ٹوئٹرنے ہماری زندگیوں پر حکمرانی کرنی ہے۔ اس نے ہمارے اندر کے چھپے انسان کو باہر نکالنا ہے۔ آزادیٔ رائے کو نئی منزلوں تک لے کر جانا ہے۔ فری فار آل ٹائپ دنیا شروع ہورہی تھی۔ جس کا جو دل چاہے کہہ دے۔ کوئی تعریف کرے‘کوئی گالی دے‘کچھ بھی الزام لگا دے آپ بے بسی سے سنتے رہیں۔ یہ سٹیزن جرنلزم کی نئی شکل تھی جس میں آپ کے ناقدین کا رابط آپ سے ہوگیا تھا۔ دنیاکے کسی بھی حصے میں بیٹھا ہوا انسان اب آپ کے ساتھ رابطے میں آگیا تھا۔ اب اس کی بھی آواز تھی۔ آپ پر اچانک ایک نئی زندگی کا دروازہ کھلا۔دنیا بھر کے ذہین لوگ جن کا اب تک آپ نے نام سنا تھا یا ٹی وی پر دیکھا تھا‘ تحریریں کتابوں میں پڑھی تھیں یا جو آپ کے ہیرو اور ولن تھے وہ اب آپ کی ریچ میں تھے۔لیکن پھر آپ کو لگا کہ آپ ایک چوک پر کھڑے ہیں جہاں ہر آتے جاتے کی کوشش ہے کہ آپ پر کیچڑ یا پتھر پھینک کر جائے۔ہم سب کو ایک دوسرے کو ذلیل کرنے میں تسکین ملنے لگی۔ ہر اس بندے کو جو مشہور یا امیرتھا یا ہم سے زیادہ کما رہا تھا یا ہمارے نظریات اس کے نظریات سے نہیں ملتے۔سیاستدانوں اور صحافیوں کے ہاتھ نیا ہتھیار آگیا تو سب کو احساس ہواکہ یہ فورم تو بہت اہم ہے۔ پہلے سیاستدان ٹی وی شوز میں لڑتے تھے اب وہ ٹوئٹرپر آگئے۔ٹی وی شوز میں ابھی وہ کچھ لحاظ رکھتے تھے کہ سب کچھ ریکارڈ ہورہا ہے یا سب انہیں دیکھ رہے ہیں لیکن ٹوئٹرپر اب ان پر کوئی قدغن نہ تھی۔ یوں ٹوئٹرپر ایک نیا ہنگامہ مچا۔ ہر طرف ہڑبونگ مچ گئی۔ لوگ ایکسپوز ہونا شروع ہوگئے۔ ایک لمحے میں سینکڑوں لوگوں کے کمنٹس نے دماغ خراب کرنا شروع کیا‘ چاہے وہ کمنٹس آپ کے خلاف تھے یا آپ کے حق میں۔
اس دوران صحافی بھلا کہاں پیچھے رہتے۔ پھر وہی دور آیا کہ جو صحافی برسوں سے ایک ہی ادارے میں کام کرتے آئے تھے‘ دوست یا کولیگ تھے انہوں نے ایک دوسرے پر کمنٹس اور ذاتی حملے شروع کیے۔ سوشل میڈیا پر خود کو بہادر اور بڑا ثابت کرنے کے چکر میں پہلے دوستیاں ختم ہوئیں اور پھر دشمنیاں شروع ہوئیں۔پہلے اگر اخبار میں آپ کے خلاف کوئی بات چھپتی تھی تو آپ کے پاس جواب دینے کے لیے چوبیس گھنٹے ہوتے تھے اور آپ کا غصہ شام تک کم ہوچکا ہوتا تھا یا آپ اگنور کر جاتے ‘ اگر جواب بھی دیتے تو اتنا سخت نہ ہوتا اور اگر ہوتا تو اخبار اسے ایڈیٹ کر لیتا۔ اب ٹوئٹرپر تو آپ خود اس ڈیجیٹل اخبار کے مالک تھے۔ کسی نے کنکر مارا تو آپ نے پتھر دے مارا۔ کسی نے پتھر آپ کی طرف اچھالا تو آپ نے جوابا ًاینٹ دے ماری۔ پھر چل سو چل۔آپ کو ایک چسکا سا لگ گیا کہ دیکھیں کس نے میرے بارے میں کیا بات کی ہے‘ دیکھوں تو سہی اور سارا دن فون آپ کے ہاتھ میں رہنے لگا۔ آپ دھیرے دھیرے اپنے فالورز‘ ٹوئٹس اور ری ٹوئٹس کے ہاتھوں محتاج ہوتے چلے گئے۔ پھر آپ کو فکر پڑ گئی کہ آپ کے فالورز کم کیوں ہیں‘ آپ کے ساتھ بیٹھے کولیگ یا دوسرے صحافی کے زیادہ کیوں ہیں۔ وہ ایسا کیا کررہا ہے جو آپ نہیں کررہے۔
اس دوران سیاسی پارٹیوں کو لگا کہ یہ تو زبردست فورم ہے جہاں اپنے مخالفوں کی دھجیاں اڑائی جائی سکتی ہیں۔ سب سیاسی لیڈروں نے بھی ٹوئٹراکاؤنٹس بنائے۔ ساتھ ہی نیا مقابلہ شروع ہوگیا کہ ٹوئٹرپر کس کے فالورز زیادہ ہیں تاکہ پتا چلے کہ کون زیادہ مقبول ہے‘ حالانکہ ٹوئٹرپر آپ کے دوست دشمن سب آپ کو فالو کررہے ہوتے ہیں۔ یوں ٹوئٹرفالونگ بھی ایک نیا سٹیٹس سمبل بن گیا اور دوڑ شروع ہوگئی کہ فالورز کیسے بڑھائے جائیں۔ اس کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا۔ اس دوران مارکیٹنگ کمپنیاں آگئیں جنہوں نے اپنی سروسز پیش کر دیں۔ ایک نیا دھندا شروع ہوگیا کہ آپ چاہیں تو فالورز خریدے بھی جاسکتے تھے تاکہ کہیں سے نہ لگے کہ آپ کسی سے کم اہم ہیں۔ یوں ڈالروں میں ادائیگیاں کر کے بہت سے لوگوں نے فالورز خریدنے شروع کر دیے۔ ٹوئٹر اب بہت سے لوگوں کے لیے کمائی کا نیا ذریعہ بن گیا تھا۔ اب یہ نیا سٹیٹس سمبل تھا۔ اس دوران پتا چلا کہ نہیں جناب وڈے لوگ تو وہ ہیں جن کے ساتھ ٹوئٹرکا ویریفائیڈ بلیو ٹک لگا ہوا ہے۔ یوں بڑے اور عام لوگوں میں فرق واضح کر دیا گیا۔ ابھی لوگ فالونگ پر اپنا سٹیٹس بنا ہی رہے تھے کہ بلیو ٹِک نیا چیلنج بن گیا تھا۔
ٹوئٹراب نئی طاقت بن کر ابھر رہا تھا‘ لیکن کسی کو اندازہ نہ تھا کہ ٹوئٹران کی زندگیوں کو کیسے متاثر کررہا ہے۔ زندگیوں میں زہر بھر گیا ہے۔ ہر وقت ٹوئٹرپر لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ اب آپ رشتہ داروں‘ دوستوں ‘ نوکریوں یا کھائے پیئے بغیر رہ سکتے تھے لیکن ٹوئٹرکے بغیر نہیں۔ اس ٹوئٹرکی وجہ سے ہی دوست دوست نہ رہا۔ اس آزادی ٔرائے کی ایک بڑی قیمت تھی جو پورا معاشرہ چکا رہا تھا‘ جہاں آزادی رائے کا مقصد دوسرے کو گالی دینا تھا۔ اس حمام میں اب سب ننگے ہوچکے تھے۔