کھیل آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ ہم خود کو جتنا بھی پھنے خان سمجھ لیں‘ ہماری اوقات اس پورے کھیل میں پیادے سے زیادہ نہیں ہے۔ لہٰذا ہم عوام پریشان ہی رہتے ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ ہر کوئی آپ سے گھبرا کر پوچھتا ہے کہ اب کیا ہوگا‘ کیا بنے گا ہمارا؟
آپ کو علم ہے کہ ہم کب ایسے سوالات کرتے ہیں؟ جب ہماری ذہانت جواب دے جاتی ہے۔ اکثر لوگ‘ جو سازشی تھیوریوں پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں ان کی قابلیت جواب دے جاتی ہے اور وہ مسائل کو منطقی طور پر نہیں سمجھ سکتے‘ اس کے بعد ان کیلئے ہر چیز سازش بن جاتی ہے۔ لفظ سازش دنیا بھر میں بہت مقبول ہے۔ اس لفظ سازش کو سمجھنا ہو تو کبھی شیکسپیئر کا ڈرامہ جولیس سیزر پڑھیں کہ سازش ہوتی کیا ہے اور اس پر عمل کیسے کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو اقتدار کے لیے سازش کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ آپ اور میرے جیسے لوگوں سے ہزار گنا زیادہ ذہین اور دور تک سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ کو اور مجھے جو واقعہ بڑا عرصہ گزرنے کے بعد سازش لگتا ہے‘ وہ ان لوگوں کی پکی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ وہ اپنے پلان کو کبھی سازش کا نام نہیں دیتے۔ جب وہ اپنے کسی بھی پلان پر پوری طرح عمل کر چکے ہوں گے اور سب تفصیلات سامنے آ جائیں گی تو ہمارے جیسے کند ذہن اسے سازش کا نام دیں گے۔ وہ یقینا ہنستے ہوں گے کہ جو لوگ ہمارے خفیہ منصوبوں کو نہیں سمجھ پاتے‘ جن کا ذہن اس لیول تک پہنچ ہی نہیں پاتا وہ اسے سازش کا نام دے دیتے ہیں۔
تو کیا اب بھی بہت زیادہ ذہین لوگ اس طرح کی منصوبہ بندی کررہے ہیں‘ جس کا پتا ہمیں اس وقت چلے گا جب وہ منصوبہ کامیاب ہو کر ہمارے سامنے آئے گا اور ہم حیران ہو رہے ہوں گے؟ یہ طے ہے کہ جو لوگ ہمیں اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں‘ اپنا فالور یا فین بنا لیتے ہیں‘ وہ غیرمعمولی ذہانت کے مالک ہوتے ہیں۔ دوسروں کی ذہنی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے۔ لوگوں کی خواہشات کو سمجھ کر ان خواہشات سے کھیلنا بھی اس کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔پاکستان میں جو کام پوری ایمانداری سے ہوا ہے‘ وہ اقتدار کے لیے ایسے ہی ذہین لوگوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا ہے‘ جسے ہم سازش کا نام دیتے آئے ہیں۔ ذہین لوگ کم ہی وفادار یا قابلِ بھروسا ہوتے ہیں۔ اس میں ان کا قصور بھی نہیں ہوتا۔ ان کا ذہین دماغ انہیں ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتا۔ وہ ان لوگوں کو بھی نہیں بخشتے جو ان کے محسن ہوں‘ اس لیے لوگ اکثر حضرت علیؓ کا یہ قول بار بار دہراتے ہیں کہ جس پر احسان کرو‘ اس کے شر سے بچو۔
ابھی میں دو کتابیں پڑھ رہا تھا۔ ایک کتاب اپنے دور کے مشہور صحافی اور کالم نگار اظہر سہیل مرحوم کی ہے جو انہوں نے پیر پگاڑا کے ساتھ کیے گئے انٹرویوز پر لکھی تھی۔ برسوں پہلے کیے گئے ان انٹرویوز میں بہت سے سیاسی انکشافات موجود ہیں۔ بھٹو صاحب کو سیاسی طور پر بہت ذہین سیاستدان مانا جاتا ہے۔ ایک پڑھا لکھا اور سمجھدار انسان‘ جو بہت جلد کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ گیا تھا۔ پیر پگاڑا نے اُن کے بھی کچھ راز کھولے۔ وہ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو میں سیاست میں لایا تھا۔ انہیں اسکندر مرزا سے ملوایا تھا اور انہی بھٹو صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد ایک رات فون کرکے پیر پگاڑا کو دھمکیاں دی تھیں۔ شاید بھٹو صاحب کو شکایت تھی کہ ان پر سندھ میں جو حملہ ہوا تھا‘ اس میں پیر پگاڑا کا ہاتھ تھا۔ پیر پگاڑا جتاتے رہے کہ کیسے جس نوجوان کو اُنہوں نے لانچ کیا تھا‘ وہی بعد ازاں ان کے خلاف ہو گیا تھا۔ یقینا جب یہ انٹرویو کیا گیا تھا‘ اس وقت بھٹو صاحب پیر پگاڑا کی ان باتوں کا جواب دینے کے لیے اس دنیا میں موجود نہیں تھے۔
پیر پگاڑا بارے اس کتاب میں ایک اور دلچسپ انکشاف ہوا کہ جب بھٹو صاحب جیسا بڑا پاپولر لیڈر بھی اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں مذہبی جماعتوں کے دبائو تلے شراب اور گھڑ دوڑ پر پابندی لگانے کے بعد پیر پگاڑا سے ملنے گیا تو بھٹو صاحب سے کہا گیا کہ یہ آپ نے کیا کر دیا ہے؟ شراب پر پابندی لگا کر آپ نے شراب کا ریٹ بڑھا دیا ہے‘ اسی طرح گھڑ دوڑ پر پابندی سے بھی نقصان ہوگا۔ بھٹو صاحب نے ان دونوں باتوں سے اتفاق کیا لیکن پابندی نہیں ہٹائی۔ آپ اندازہ کریں کہ پیر پگاڑا شراب اور گھڑ دوڑ پر جوئے کے حق میں قانون کی مخالفت کر رہے تھے جبکہ بھٹو صاحب جیسا لبرل اور پروگریسو انسان اس پر پابندی لگا رہا تھا۔ بھٹو صاحب یہ بات کبھی نہ سمجھ سکے کہ شراب اور ہارس ریس غریب‘ مزدور یا کسان ووٹرز کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ جن لوگوں کو خوش کرنے کے لیے وہ یہ پابندیاں لگا رہا تھے‘ وہ تو ان کے ووٹرز تک نہ تھے۔ بھٹو جیسا سمجھدار انسان بھی نہ سمجھ سکا کہ یہ پابندیاں مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک بڑھائیں گی‘ اُن کا نہیں۔ اگرچہ بھٹو صاحب نے اس ملاقات میں پیر پگاڑا سے اپنی فون پر دی گئی دھمکیوں پر معذرت کی جس پر پیر صاحب ہنس پڑے کہ واقعی رات بارہ بجے کے بعد مخصوص کیفیت میں کی گئی فون کالز پر ناراض نہیں ہونا چاہئے۔اس طرح صدر ایوب خان کے مستعفی ہونے کے بعد ایک مشہور صحافی نے ان کا انٹرویو کیا جو الگ سے ایک اور کتاب میں شامل ہے۔ اس نوجوان صحافی نے ایوب خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد لاہور کی سڑکوں پر پوسٹر چھپوا کر لگوا دیے کہ ایوب خان کو پھانسی دو۔ اس نوجوان صحافی اور ایوب خان کا ایک مشترکہ دوست تھا۔ ایوب خان کو پتا چلا تو انہوں نے اس نوجوان صحافی کو اپنے اس مشترکہ دوست کے ذریعے لاہور سے اسلام آباد اپنے گھر بلوایا اور اس سے پوچھا کہ وہ انہیں کیوں پھانسی دلوانا چاہتا ہے؟
ایوب خان نے بھٹو صاحب پر تبرا پڑھنا شروع کیا اور کہا کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ انہوں نے شروع کرائی اور فارن سیکرٹری کے ساتھ مل کر اسے مس گائیڈ کیا کہ عالمی طاقتیں بھارت کو انٹرنیشنل بارڈر پر حملہ نہیں کرنے دیں گی اور یوں کشمیر آپریشن پلان ہوا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یقینا بھٹو صاحب کا اپنا نقطۂ نظر ہوگا۔ ان سب باتوں کے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر دور میں اقتدار کے لیے کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں۔ اس کھیل میں اپنا‘ پرایا نہیں دیکھا جاتا۔ اخلاقیات کا پرچار نہیں ہوتا۔ ایوب خان کو اگر بھٹو صاحب سے شکایت تھی کہ اُنہوں نے اِنہیں دھوکا دیا اور اِنہی کے خلاف تحریک شروع کر دی تو یقینا ایوب خان نے بھی ایسی کئی زیادتیاں اپنے دور میں کی تھیں۔ مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ کی خوفناک کہانیاں آج بھی مشہور ہیں جو ایوب خان کا دایاں بازو تصور ہوتے تھے۔ اس پاور سٹرگل میں کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا۔ اگر بھٹو صاحب صدر ایوب خان سے وفاداری نہیں دکھا سکے تو ایوب خان نے اسکندرمرزا سے کون سی وفاداری دکھائی تھی؟
سیاست تو نقد کا سودا ہے۔ یہاں ادھارنہیں چلتا۔ اِس ہاتھ دے‘ اُس ہاتھ لے۔ یہاں وفاداری نام کی کوئی پراڈکٹ نہیں ملتی۔ جو آپ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے‘ اسے کرو۔ دوسرے کی لاش پر کھڑے ہو کر اپنا قد اونچا کرو اور گزر جائو۔ آج کل پاکستان میں یہی تو ہو رہا ہے۔ سب سیاسی کھلاڑی اقتدار چاہتے ہیں‘ کسی بھی قیمت پر۔ جب سب پوچھتے ہیں کہ اب کیا ہوگا‘ ملک کا کیا بنے گا؟ تو میرے ذہن میں یہ سب کردار آتے ہیں‘ جو اپنے اپنے دور میں کتنے بڑے نام تھے۔ وہ بھی یہی کھیل کھیلتے کھیلتے‘ سازشیں کرتے کرتے دو گز کی قبر میں جا لیٹے۔ ان سیاسی لوگوں کی اقتدار کے لیے بے پناہ لالچ دیکھ کر قران پاک کی سورۃ التکاثر کی یہ آیات یاد آئیں ''اور تمہیں کثرت کی خواہش نے غافل کیے رکھا حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں‘‘۔