عمران خان اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ان کی پہاڑ جتنی بڑی اَنا انہیں نیچے نہیں اترنے دے رہی۔ وہ ایک ایسے گرداب میں پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنے کا انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ اس ملک میں سیاست پل صراط پر چلتے یا لٹکے رہنے کا نام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سیاستدان ایک دوسرے کو الٹا لٹکا کر خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی مقتدرہ سے بات چیت کرنے کو تیار تھے لیکن وہ سیاستدانوں سے ہاتھ ملانے کو گناہ سمجھتے تھے۔ ان کے ذہن میں بیٹھ چکا تھا اگر مقتدرہ ان کے ساتھ مل جائے تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔
انہیں دو مواقع ملے تھے جب وہ مقتدرہ کو کمزور کر سکتے تھے۔ ایک موقع وہ تھا جب قمر جاوید باجوہ اور فیض حمیدنے بھارت کے ساتھ بیک ڈور چینلز کے ذریعے مسئلہ کشمیر پر انڈر سٹیڈنگ قائم کر لی تھی۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے دس دن پاکستان میں رہنا تھا۔ مودی نے اسلام آباد میں سابق وزیراعظم سے مل کر دونوں ملکوں کے درمیان نئے تعلقات کی بنیاد رکھنی تھی۔ مسئلہ کشمیر ہو یا اس سے ہٹ کر پاک بھارت تعلقات‘ انہیں ہمیشہ عسکری مسئلہ سمجھا گیا اور اب عسکری ادارے ہی اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ بھلا کرے سابق وزیراعظم کا‘ جن کے کان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھر دیے کہ اگر ہم نے مودی کو پاکستان بلا کر بیس سال کے لیے کشمیر کا مسئلہ فریز کر دیا تو ہم پر الزام لگے گا کہ ہم نے کشمیر کا سودا کر دیا اور ہم اگلا الیکشن ہار جائیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی ایک الیکشن کی قربانی دینے پر تیار ہو جاتے تو تاریخ میں ہمیشہ نام لکھوا جاتے کہ انہوں نے سیاسی قیمت چکا کر پاکستان اور بھارت کے تعلقات ٹھیک کیے اور پاکستان کو ترقی کی نئی راہ پر ڈالا۔ وہ الیکشن ہارنے سے ڈر گئے اور جس شخصیت نے انہیں ڈرایا تھا وہ پرسوں ہی ان سے زمان پارک میں مل کر یہ کہہ کر آئی ہے کہ اپنی یہ کرسی مجھے دے دو۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے تاریخ پڑھی ہوتی یا تاریخ سے سبق سیکھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ بعض دفعہ دوبارہ وزیراعظم بننے سے زیادہ اہم ملک کا مستقبل ہوتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل کی مثال لے لیں۔ چرچل نے جنگ عظیم دوم جیتی لیکن پھر بھی الیکشن ہار گیا۔ چار سال بعد پھر الیکشن لڑا اور جیت گیا۔ اندازہ کریں‘ برطانوی قوم نے اس وزیراعظم کو ووٹ نہیں دیا جس نے انہیں جنگ عظیم دوم میں فتح دلائی تھی تو کیا چرچل تاریخ میں ختم ہوگیا یا دوبارہ وزیراعظم نہیں بنا؟
چیئرمین پی ٹی آئی کا وہ بلنڈر جو انہوں نے شاہ محمود قریشی کے کہنے پر مارا تھا‘ وہ اس ملک اور قوم کو بہت بھاری پڑ رہا ہے اور مزید پڑے گا۔ اگر پاک بھارت تعلقات نارمل ہو جاتے تو انہی سیاستدانوں کی اتھارٹی اور رِٹ زیادہ مضبوط ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کی طاقت اور اثر و رسوخ پاکستانی سیاست میں کم ہوتا اور پاکستان اپنے وسائل کا رخ معاشی ترقی کی طرف موڑ سکتا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی اپنا الیکشن بچانے کے چکر میں اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے جب قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید معاملات طے کر چکے تھے۔ مطلب یہ کہ مقتدرہ اس بات پر تیار تھی کہ اب خطے میں دشمنیاں ختم کرکے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ شاہ محمود قریشی کی ویسے پارٹی چیئرمین نے کبھی ایک نہ مانی‘ ان کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی خواہش پوری نہ کی بلکہ انہیں پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا ٹکٹ تک نہ دیا لیکن اُن کی یہ بات فوراً مان لی کہ کہیں وہ اگلا الیکشن نہ ہار جائیں۔ اللہ کی قدرت دیکھیں کہ جس الیکشن کی ہار سے بچنے کے لیے پاک بھارت تعلقات کی قربانی دی گئی‘ وہ الیکشن بھی انہیں نہ ملا۔ ان پر تو نااہلی کے علاوہ ملٹری کورٹ کے ذریعے سزا کی تلوار الگ سے لٹک رہی ہے اور وہی ملتانی پیر اب پارٹی چیئرمین سے استعفیٰ مانگ رہا ہے۔
دوسرا موقع چیئرمین پی ٹی آئی نے اب گنوایا ہے جب ان کے سپریم کورٹ کے توسط سے حکومتی نمائندوں سے الیکشن تاریخ پر مذاکرات ہو رہے تھے اور انہوں نے اپنی پارٹی سے شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری کو مذاکراتی ٹیم کا ممبر بنایا تھا۔ میں نے اپنے پروگرامز اور وی لاگ میں ایک بات بار بار کی تھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی حالات کو ٹھیک نہیں کر پا رہے۔ وہ عوامی قوت کے زور پر جس کیفیت سے گزر رہے ہیں‘ وہ ان سے بلنڈرز کروائے گی۔ وہ عدلیہ اور اپنے ساتھیوں کا ضرورت سے زیادہ امتحان لے رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ حکومت اگر کہہ رہی ہے کہ وہ آٹھ اکتوبر کو الیکشن کرائے گی تو وہ سپریم کورٹ میں لکھ کر دے دیں کہ حکومت آٹھ اکتوبر کے بجائے آٹھ نومبر تک بھی الیکشن کرا لے۔ اس وقت انہیں سیاستدانوں سے ڈیل کرکے عدلیہ اور مقتدرہ کے اثر سے باہر نکل جانا چاہیے۔ انہیں بار بار مقتدرہ کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ آپ ایک طرف مقتدرہ سے لڑنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ آپ صرف آرمی چیف سے ہی بات کریں گے۔ لیکن چیئرمین پی ٹی آئی حالات کا درست تجزیہ کرنے میں ناکام رہے۔وہ عدلیہ کو اس حد تک لے گئے کہ اسے بھی ہاتھ کھڑے کرنا پڑے۔ اب کسی کو یاد نہیں رہا کہ پنجاب میں چودہ مئی کو الیکشن ہونے تھے۔ پنجاب الیکشن چھوڑیں اب تو جنرل الیکشن کے التوا کے خطرات الگ سے پیدا ہوگئے ہیں۔
اندرونی خبر یہ بھی ہے کہ اب بھی حکومت میں نواز شریف کیمپ اکتوبر میں الیکشن کرانے پر رضامند نہیں ہے۔ ایک سوچ یہ ہے کہ اگست ستمبر میں نگران حکومت قائم کرکے اسے ایک سال تک اس طرح کھینچ کر چلایا جائے جیسے پنجاب میں نگران سیٹ اَپ کو بڑی کامیابی سے چلایا جارہا ہے۔ اگرچہ اس پر زرداری صاحب کو اعتراضات ضرور ہیں جس وجہ سے انہوں نے اچانک بیان دیا کہ الیکشن ان کی مرضی سے ہوں گے۔ لیکن ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اس سال صرف نگران حکومت سے کام لیا جائے اور اس دوران نواز لیگ کو گیپ دیا جائے تاکہ ان کی موجودہ کارگردگی کو لوگ بھول جائیں اور ایک سال بعد اگلے الیکشن تک وہ دوبارہ کھڑے ہو جائیں۔ اس دوران تحریک انصاف توڑ پھوڑ کے بعد نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ جہاں تک تحریک انصاف کے ووٹ بینک کی بات ہے کہ وہ بڑھ رہا ہے تو ایسے ووٹ بینک کا کیا کرنا گے کہ جب ووٹر کو ووٹ ڈالنے کا موقع ہی نہ ملے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نااہل ہو سکتے ہیں یا انہیں ملٹری کورٹ سے سزا ہو سکتی ہے۔ ان کا ووٹر بھی وہی کچھ کرے گا جو پیپلز پارٹی یا نواز لیگ کا ووٹر ماضی میں کرتا رہا کہ ایسی صورت میں وہ گھر سے ووٹ ڈالنے ہی نہیں نکلے گا۔ یوں چیئرمین پی ٹی آئی حسب توقع ہوش کے بجائے جوش سے کام لے کر اور اپنے ہاتھ پائوں بندھوا کر خود کو زمان پارک میں قید کرکے اپنی پارٹی تڑوا بیٹھے ہیں۔
''میں کلّا ای کافی آں‘‘ کا دل پذیر نعرہ سوشل میڈیا پر اب بھی ٹرینڈ کرتا ہے لیکن جو اُن کے ہمدرد یہ ٹرینڈ چلا کر ان کو اس حالت تک لائے ہیں وہ خود مفرور ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس اچھے مواقع تھے کہ وہ اپنے مخالفین کی چالیں ان پر الٹ سکتے تھے لیکن وہ اپنے فالورز پر اپنے سوشل میڈیا ٹرینڈز کے ذریعے بنائے گئے Larger than Life امیج کے ہاتھوں خود ہی یرغمال بن گئے اور وہ بروقت درست فیصلے نہ کر سکے۔ 9مئی کے واقعات کے بعد وہ ایسے ٹریجک ہیرو بن کر رہ گئے ہیں جو ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی طرح دلّی کے لال قلعے میں تنہا قید ہوکر رہ گیا ہے اور فرنگی سپاہی 1857ء کی بغاوت کچلنے کے بعد محل کے باہر بوڑھے بادشاہ کے انتظار میں کھڑے ہیں تاکہ انہیں رنگون بھیجا جائے۔