ہو سکتا ہے کہ اسد قیصر نے یہ بات جوشِ خطابت میں کہہ دی ہو کہ ہم تو باپ سے بھی معافی نہیں مانگتے لیکن پتا نہیں میرے دل کو کیوں ٹھیس پہنچی ہے۔ اسد قیصر ایک ٹی وی شو میں سوالات کے جوابات دے رہے تھے‘ جب ان سے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بارے پوچھا گیا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان نو مئی کے واقعات پر معافی مانگیں‘ تو اس پر اسد قیصر نے غصے میں سرخ چہرے کے ساتھ جواب دیا: معافی تو ہم اپنے باپ سے بھی نہیں مانگتے۔ وہ سادہ لفظوں میں کہہ سکتے تھے کہ وہ نو مئی کے ایشو پر معافی نہیں مانگیں گے کیونکہ ان کی اپنی ایک پوزیشن ہے‘ لیکن بات میں شدت پیدا کرنے کے لیے یہ کہنا کہ ہم تو باپ سے بھی معافی نہیں مانگتے‘ کیا یہ لہجہ ٹھیک تھا؟ کیا باپ اتنی غلط ہستی ہے کہ بیٹا اگر باپ کو سوری بول دے تو اس کی عزت اور وقار میں کمی آ جاتی ہے؟
کئی سول افسران کی کہانیاں ہم نے سن رکھی ہیں کہ جس غریب باپ کی محنت سے وہ پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدے پر پہنچے‘ اسی سگے باپ کا تعارف تک نہ کراتے تھے کہ لوگ کیا سمجھیں گے۔ باپ کو بعض گھروں میں تو گائوں کا نوکر یا ایسا غریب فرد شو کرایا جاتا‘ جو مدد لینے آیا تھا۔ یہ کہانیاں ہمارے معاشرے میں عام رہی ہیں۔ جب بچے پڑھ لکھ جاتے ہیں تو اپنے ماڈرن دوستوں کو باپ کا تعارف کراتے شرماتے ہیں کہ باپ کو دھوتی چادر میں دیکھ کر شہری دوست کیا کہیں گے؟
روسی ادیب میکسم گورگی نے The Mother جیسا انقلابی ناول ماں پر لکھا تو فرانسیسی ادیب بالزاک نے Old Goriot جیسا شاہکار لکھا۔ اس ناول میں بالزاک نے انقلابِ فرانس کے بعد پیرس میں جنم لینے والی خرابیوں پر اپنا قلم اٹھایا۔ اس ناول میں جس طرح ایک بوڑھے باپ کو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ قربان کرتے دکھایا گیا‘ وہ سب قاری کی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔ میں جب خود باپ بنا تو مجھے احساس ہوا کہ باپ بننا کتنی بڑی ذمہ داری اور محبت کا نام ہے۔ مجھے اپنے باپ سے پھر محبت ہوئی۔ اگرچہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا کہ ذاتی واقعہ سنایا جائے لیکن اس کے بغیر بات پوری نہیں ہو گی۔
برسوں پہلے‘ گائوں میں ایک شام سلیم بھائی بینک نوکری سے واپس گھر آئے تو پریشان تھے۔ پتا چلا وہ بینک میں کسی بندے کو دس ہزار روپے زیادہ کیش دے بیٹھے تھے اور اب وہ بندہ انکاری ہو گیا ہے کہ اس نے نہیں لیے۔ بینک والوں نے تین دن دیے تھے کہ دس ہزار روپے جمع کرائیں ورنہ نوکری سے چھٹی۔ اماں پریشان‘ پورا گھر پریشان۔ 1970ء کی دہائی کا آخری سال تھا شاید۔ اس زمانے میں ایک دیہاتی گھرانے کے پاس دس ہزار روپے کہاں سے آتے۔ خاندان کی پہلی نوکری تھی اور اُس زمانے میں بینک کی نوکری کی بڑی شان تھی۔ اس رات گھر میں ایسا سماں تھا کہ جسے کوئی فوتگی ہو گئی ہو۔ اماں کو کھانا پکانا بھی بھول گیا تھا۔ ہم سب بہن بھائی خاموش‘ چولھے کے گرد بیٹھے تھے کہ اب کیا ہو گا۔ رات ہوتے ہی بابا زمینوں سے واپس لوٹے تو گھر میں افسردگی کا ماحول دیکھ کر گھبرا گئے۔ پوچھا: کھانا نہیں پکایا‘ بھوک لگی ہے مجھے۔ اماں نے پوری بات بتائی۔ انہوں نے اماں کو کہا: فوراً کھانا پکائو اور بچوں کو دو‘ میں ابھی آتا ہوں۔ دو‘ تین گھنٹے بعد جب وہ لوٹے تو جیب سے دس ہزار روپے نکالے اور سلیم بھائی کو دیدیے۔ اماں کو کہا: اب مجھے کھانا دو۔ ہم سب حیران ہوئے تو بولے: رقبے پر جو جانور کھڑے تھے‘ وہ سب بیچ آیا ہوں۔ درخت کھڑے تھے ان کا بھی سودا کر لیا ہے‘ اگلی فصل کا ایڈوانس لے آیا ہوں۔ بس اکیلی بھینس چھوڑ دی ہے تاکہ بچے دودھ پی سکیں۔
مجھے اُس رات اور اُس لمحے احساس ہوا کہ ایک باپ ہونا کیا ہوتا ہے۔ باپ کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی سلیم بھائی کو یہ نہ کہا کہ تم نے کیا کر دیا ہے‘ یا ہم تباہ ہو گئے ہیں۔ میرے اپنے بچے بڑے ہوئے تو کبھی ان کی کسی حرکت یا نقصان پر غصہ آ جاتا تو میرے سامنے میرے بابا آن کھڑے ہوتے‘ جو دس ہزار روپے سلیم بھائی کو دے کر بڑے سکون سے کھانا کھا رہے تھے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ چند برس بعد بابا جب ملتان کے شیر شاہ روڈ پر واقع ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے‘ ان کے گردے فیل ہو گئے تھے تو سلیم بھائی اپنا گردہ باپ کو عطیہ کرنے کو تیار تھے۔ بس بابا کو زندگی نے مہلت نہ دی۔ کیا ایسے باپ سے کسی بات پر معافی مانگنا‘ کسی بھی بیٹے کے لیے اَنا کا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ کیا ہماری اَنا ہمارے باپ سے بڑی ہو سکتی ہے؟ اگر باپ غلط بھی ہو اور بیٹا اس لیے معافی مانگ لے کہ اس کے باپ کو تکلیف نہ ہو‘ تو کیا اس سے بیٹے کا قد چھوٹا ہو جاتا ہے؟
میرا دوست جنید مہار اکثر کہا کرتا ہے کہ اولاد انسان کو کمزور کر دیتی ہے۔ 'کمزور‘ کا لفظ میں نے استعمال کیا ہے‘ ورنہ وہ کمزور کی جگہ ایک سخت لفظ استعمال کرتا ہے۔ دنیا کا واحد تعلق باپ کا ہے جو اپنے بیٹے سے حسد نہیں کرتا۔ اس کی ترقی اسے فخر سے بھر دیتی ہے۔ بھائی بھائی سے حسد کر سکتا ہے۔ بہن بھائی آپس میں حسد کر سکتے ہیں لیکن باپ واحد شخص ہے جو کبھی اولاد سے جیلس نہیں ہو گا۔ باپ کو اگر بچوں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان تک دینا پڑے تو وہ ایک سکینڈ بھی نہیں سوچے گا۔ ہمارے معاشرے میں باپ کا ایک سخت روایتی رول رہا ہے اور باپ کو وہ مقام نہیں مل سکا‘ جو ماں کو ملا ہے۔ باپ نے کبھی اولاد پر احسان نہیں جتایا۔ ماں پھر بھی اولاد کو سب کہہ دیتی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ماں بچوں کو تھپڑ تک مار دے گی تو بچے کچھ دیر بعد ماں سے لپٹ رہے ہوں گے۔ باپ اگر ایک دفعہ بھی کچھ کہے دے تو بیٹا ہمیشہ یاد رکھے گا۔ اکثر باپ ہی اولاد کو منا رہا ہوتا ہے۔ بھارتی اداکار عامر خان نے تو اب یہ بات کی ہے کہ ہم وہ نسل ہیں جو پہلے والدین سے ڈرتی تھی اور اب اپنی اولاد سے ڈرتی ہے۔ جنید مہار نے یہ بات چند سال پہلے کی تھی اور کئی بار کی تھی کہ ہم کیسی اداس نسلیں ہیں جو پہلے باپ سے ڈرتی تھیں کہ وہ ناراض نہ ہو جائے اور اب اپنی اولاد سے ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔ شاید وہ اسد قیصر جیسی اولاد بارے کہتے ہیں کہ کہیں وہ باپ سے ناراض نہ ہو جائے۔ جنید مہار اکثر اداس ہو کر کہتے ہیں: ہماری نسل کی بھی کیسی قسمت ہے‘ پہلے باپ تو اب بچوں‘ دونوں کی ناراضی کا سامنا کیا۔
اسد قیصر کی بات کا زیادہ صدمہ مجھے اس لیے ہوا ہے کہ وہ آج کی نئی نسل نہیں ہیں جو شاید باپ کو اس طرح خاطر میں نہیں لاتی‘ جیسے ہم سب اپنے والدین کی عزت اور قدر کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اپنے گائوں میں کبھی کسی لڑکے کو اپنے باپ کے سامنے زبان چلاتے دیکھا ہو۔ جنید مہار نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ ہاسٹل میں تھے تو ان کے ساتھ ان کے گائوں داجل کا ایک لڑکا بھی رہ رہا تھا۔ ایک ہفتے وہ گھر نہ گیا اور جنید مہار کو کہا: میرے گھر سے میرا خرچہ لیتے آنا۔ اس نے اپنے باپ کے نام خط لکھ دیا۔ جنید نے جا کر وہ خط اس کے باپ کو دیا تو وہ غصے سے اس کی ماں سے بولا: سنتی ہو‘ تمہارا بیٹا اب اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ مجھے خط لکھتا ہے۔ کل کو میری داڑھی میں ہاتھ ڈالے گا۔ اُس وقت ایک باپ کو بیٹے کا خط لکھنا بھی گستاخی لگتا تھا۔
مجھے نہیں معلوم کہ اسد قیصر کے اس جملے پر‘ اگر ان کے والد حیات ہیں تو انہیں کیسا لگا ہوگا لیکن مجھے سخت برا لگا ہے۔ چند تالیاں بجوانے اور واہ واہ کرانے کے چکر میں ایک ناہنجار بیٹا ہی ساری دنیا کے سامنے ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے باپ کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ باپ تک سے معافی نہیں مانگے گا۔ میں تو اپنے والد سے ہزار دفعہ معافی مانگنے کو تیار ہوں۔