زاہد اسلم کے جوان سال بیٹے دائود کی موت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ پچھلے ہفتے فاسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں اُس کے بیٹے کا ایکسڈنٹ ہوا۔ نوجوان رات کو کھانا کھا کر ہوسٹل جا رہا تھا کہ گاڑی سے ٹکرا گیا‘ سڑک پر گرا‘ سر پر چوٹ لگی۔ آج کے دور میں جب عموماً گاڑی والے نہیں رکتے‘ اس گاڑی میں جو لوگ سوار تھے وہ فوراً رُکے اور نوجوان بچے کو ہسپتال پہنچایا۔ پھر اس کی جیب سے ملنے والے شناختی کارڈ سے یونیورسٹی کا پتا چلا۔ اُس فیملی کے بچوں نے فیس بک پر اُس کا اکاؤنٹ تلاش کیا اور وہاں سے اس کے یونیورسٹی دوستوں سے رابطہ کیا گیا۔ یوں جب رابطہ ہو گیا تو کیپٹن زاہد اسلم کو رحیم یار خان میں رات بارہ بجے کے قریب فون کر کے بتایا گیا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ رات گئے ملنے والی اس خبر نے ماں باپ پر کیا قیامت ڈھائی ہو گی کہ جوان بیٹا اس وقت ہسپتال میں زندگی و موت کے کشمکش میں ہے۔ بچہ کومے میں چلا گیا اور پھر وہاں سے اس کی واپسی نہ ہوئی۔
کیپٹن زاہد اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ رحیم یار خان سے صبح نکلا اور دوپہر تک اسلام آباد پہنچا۔ مجھے پتا چلا تو میں پمز ہسپتال گیا۔ دائود کے بچنے کے امکانات بہت کم تھے لیکن ہمارا کپتان ہمت اور حوصلے کے ساتھ کھڑا تھا۔ ان حالات میں حوصلہ برقرار رکھنا بڑی ہمت کی بات تھی۔ کیپٹن زاہد اسلم سے جب پہلی ملاقات 1991ء میں ملتان یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں ہوئی تھی تو وہ ابھی صرف زاہد تھا۔ ایک ذہین‘ خوبصورت‘ ہنس مکھ اور کھلا ڈلا۔ ہماری ایم اے انگریزی کی کلاس میں اگر کوئی ٹیچر پڑھاتے وقت کچھ بھول جاتی تو اسے کوئی لقمہ دے کر یاد دلاتا کہ میڈیم بک میں فلاں ریفرنس تھا‘ تو وہ زاہد اسلم تھا۔ وہ ہماری کلاس کے ان دو تین طالبعلموں میں سے تھا جو رات کو اگلے دن کی کلاس کا لیکچر پڑھ کر آتے تھے۔ جب میرے جیسے نالائق راتوں کو یونیورسٹی کینٹین یا دوستوں کے کمروں میں محفل جمائے بیٹھے ہوتے تھے زاہد اسلم بیٹھا اگلے دن کے لیکچرز کی تیاری میں لگا ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ امتحان کے دنوں میں اکثر لڑکے زاہد اسلم کے کمرے میں پائے جاتے کہ ہماری بھی تیاری کرائو۔ مجال ہے کہ وہ کسی کو انکار کرے۔ اکثر لڑکے اس کی توجہ اور مہربانی سے ماسٹرز کر پائے۔ جتنی محنت سے ایم اے انگلش کے مضامین کو زاہد اسلم‘ شعیب بٹھل اور مدثرہ نے پڑھا شاید ہی کسی اور نے اتنی محنت کی ہو۔
اگرچہ یونیورسٹی دنوں میں بھی زاہد اسلم سے دوستی تھی لیکن اس سے اصل تعلق یونیورسٹی کے بعد بنا۔ اس دوران آرمی کی ایجوکیش برانچ میں کپتان کے عہدے کی سیٹیں آئیں تو ہمارے دو کلاس فیلوز‘ زاہد اور منور نے امتحان دیا اور سلیکٹ ہو گئے۔ زاہد اسلم ہمیشہ سے ایک بے چین روح تھا۔ وہ ایجوکیشن برانچ میں چلا تو گیا لیکن کچھ عرصہ بعد بور ہو گیا۔ اُس نے فوج چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ سب نے اُسے منع کیا۔ اُس کی ماں نے اسے ڈانٹا۔ سینئر افسران نے منع کیا مگر وہ نہ مانا۔ بریگیڈیئر صاحب نے پوچھا: استعفیٰ کیوں دینا چاہتے ہو؟ زاہد نے جواب دیا: یہاں میں بیٹھ کر صرف انگریزی تقریریں لکھتا ہوں یا ان میں سپیلنگ کی غلطیاں ٹھیک کرتا ہوں۔ میں بچوں کو پڑھانا چاہتا ہوں۔ میری ڈریم جاب لیکچررشپ ہے۔ مجھے لگتا ہے میں اچھا استاد بن سکتا ہوں۔ میں یہاں بور ہوتا ہوں۔ یوں استعفیٰ دے دیا۔ فوج نے کہا: پھر کورسز کے سولہ ہزار ادا کرو۔ کپتان نے اپنا موٹر سائیکل بیچ دیا اور پیسے ادا کر دیے۔ انہی دنوں میں اور کپتان پھر اکٹھے ہوئے اور ملتان میں ایک کرائے کے گھر میں ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ زاہد کی قابلیت کا اندازہ لگائیں کہ سی ایس ایس کا امتحان دیا تو پہلی دفعہ ہی کلیئر کر گیا۔ پھر پنجاب سول سروس کا امتحان دیا‘ وہ بھی پاس کیا۔ ساتھ ہی اُس نے لیکچرر انگلش کیلئے پنجاب پبلک سروس کا امتحان بھی دیا اور وہ بھی پاس کر لیا۔ یوں یکے بعد دیگرے کپتان نے مقابلے کے تین امتحان پاس کیے۔ میں اور کپتان ملتان میں اُن دنوں ایک ہی گھر میں رہتے تھے جب کپتان یہ سب امتحان پاس کر رہا تھا۔ جب رزلٹ آئے تو کپتان نے افسرانہ امتحانات کے انٹرویوز کی تیاری کے بجائے لیکچررشپ کا لیٹر پکڑا اور کالج جا کر بچوں کو پڑھانے لگ گیا۔ سب نے کہا: کپتان ایسا مت کرو۔ جواب دیا: میری یہی ڈریم جاب ہے۔ اگر افسری درکار ہوتی تو فوج کی کپتانی کیوں چھوڑتا۔ زاہد کو میں اکثر کہتا‘ تُو نے مجھے میری ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ ہر صبح مجھے بیڈ ٹی بنا کر دیتا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے لیے آملیٹ اور ناشتہ بنا کر ٹرے میں مجھے پیش کرتا۔ فوج میں گزارے دنوں نے اس کی اچھی ڈسپلن تربیت کر دی تھی جس کا فائدہ بقول اس کے‘ میں اٹھا رہا تھا۔
زندگی میں نئے موڑ آئے اور ہم بچھڑ گئے۔ میں اسلام آباد نکل گیا تو زاہد خواجہ فرید کالج رحیم یار خان میں پڑھانے لگ گیا۔ دھیرے دھیرے رابطے کمزور ہوتے گئے۔ اب پچھلے ہفتے پتا چلا کہ اس کا بیٹا پمز ہسپتال میں کومے میں تھا اور تین دن بعد چل بسا۔ ویک اینڈ پر میں اسلام آباد سے نکلا‘ ملتان سے اپنے دوست جمشید رضوانی کو لیا اور رحیم یار خان کپتان کے گھر تعزیت کرنے گیا۔ کافی دیر تک کپتان کو گلے سے لگائے رکھا۔ کہنے لگا: عجیب سی بات ہے‘ تم کہتے تھے میں صحافی بنوں گا‘ پارس کہتا تھا وہ بیوروکریٹ بنے گا‘ میرا جنون تھا استاد بننا ہے۔ ہم تینوں وہی بنے جو تیس سال پہلے سوچا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں ایک باپ سے اُس کے جوان بیٹے کی کیسے تعزیت کروں۔ کہاں سے شروع کروں۔ آخر کپتان زاہد اسلم کب تک صبر کرتا۔ کتنا خود کو مضبوط رکھ سکتا تھا۔ کئی دنوں سے وہ اپنے جوان بیٹے کی ناگہانی موت پر صبر کی علامت بنا ہوا تھا۔ ہم بیٹھے تو کپتان الگ صوفے پر اور جمشید رضوانی میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ میں نے جمشید رضوانی کو کہا: تم اس صوفے پر جائو‘ کپتان کو میرے ساتھ بیٹھنے دو۔ زاہد میرے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ میں نے کچھ کہنا چاہا تو مجھے لگا کہ لفظ میرے حلق میں اٹک گئے ہیں۔ مجھ سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ ایک بائیس سالہ جوان بیٹے کی موت کی تعزیت کیسے کی جاتی ہے۔ میں نے اب تک دوستوں سے ماں باپ‘ بہن بھائیوں کی تعزیت تو کی تھی لیکن کسی دوست کے جوان بیٹے کی حادثے میں موت کا مجھے اندازہ نہ تھا کہ ایک باپ سے اس کے بیٹے کی تعزیت کیسے کرنی ہے۔ افسوس کیسے کرنا ہے۔ کپتان میری حالت دیکھ کر مسکرایا اور بولا: یار لوگ کہتے ہیں کہ میں رویا کیوں نہیں۔ میں نارمل ہوں۔ کوئی آنسو نہیں۔ کوئی رونا نہیں۔ تمہیں ایک عجیب بات بتائوں‘ مجھے علم تھا کہ میرے ساتھ یہ ہو گا۔ میں بڑے عرصے سے اس صدمے کیلئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ شاید اس لیے جب دائود چلا گیا تو مجھ پر وہ اثر نہیں ہوا۔ میں جوان بیٹے کی لاش پر رویا نہیں۔ کہنے لگا: میرا دائود بہت قابل بچہ تھا۔ ہر سمسٹر میں گولڈ میڈل لیا۔ ہر کلاس کا ٹاپر تھا۔ کپتان یہ کہہ کر رکا اور پتا نہیں اسے کیا ہوا کہ مجھے دیکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ میں نے اُسے گلے لگایا اور وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر روتا رہا۔ اس کی سسکیاں ابھرتی رہیں۔ آخر کپتان بولا: یار اتنے دنوں سے میں رو نہیں پایا تھا۔ شاید بعض کندھے ایسے ہوتے ہیں جن کا آنسوئوں کو بھی انتظار ہوتا ہے۔
مجھے ملتان کے باقر شاہ صاحب مرحوم یاد آ گئے‘ جب میں پارس کی والدہ کی وفات پر تعزیت کرنے گیا تو مجھے گلے سے لگایا۔ آنسوئوں سے اُن کی سفید داڑھی گیلی ہو گئی۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ دو دنوں سے بچوں کو ان کی ماں کی وفات پر تسلیاں دے رہے تھے۔ ایک آنسو نہیں بہا تھا۔ پتا نہیں کیوں مجھے ملتے ہی ان کے آنسو بے اختیار برستے چلے گئے۔ کپتان نے شاید ٹھیک کہا تھا‘ بعض کندھے ایسے ہوتے ہیں جن کا انتظار آنسو کرتے ہیں۔
اور کپتان جو اَب تک حوصلے کا پہاڑ بنا ہوا تھا‘ آخر ٹوٹ گیا۔ میرے کندھے پر سر رکھے روتا رہا اور میں اپنے کپتان کو گلے سے لگا کر اس کے سر میں ہاتھ پھیرتا رہا۔