"RKC" (space) message & send to 7575

خواجہ آصف کا ’کرما‘ آن پہنچا؟

قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کو اپنے کولیگ خواجہ آصف پر لفظی گولہ باری کرتے دیکھ کر ذہن میں آیا کہ کیا خواجہ آصف بھی 'کرما‘ کا شکار ہو گئے ہیں؟
ان کے ساتھ اسمبلی میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو وہ اپنی 35 برس پہ محیط سیاسی زندگی میں دوسروں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ آج وہ حنیف عباسی ‘ جو 2007ء میں جماعت اسلامی چھوڑ کر (ن) لیگ میں شامل ہوئے تھے‘ اس شخص کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جس کے والد (خواجہ صفدر) بھی مسلم لیگی تھے اور بھٹو کے دور میں جیل میں بھی رہے۔ بعد میں جنرل ضیا کے ساتھ مل گئے تو بھی مسلم لیگ کا نشان ساتھ رہا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے خواجہ آصف نے سیاست جوائن کی تو وہ بھی والد کی طرح مسلم لیگ میں شامل ہوئے ‘ اس وقت میاں نواز شریف مسلم لیگ کو لیڈ کر رہے تھے۔ ان دنوں میاں نواز شریف نوجوان تھے اور بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف پنجاب میں مزاحمت کا نشان بن کر ابھر رہے تھے۔ یوں انہیں چودھری نثار علی‘ شاہد خاقان عباسی‘ جاوید ہاشمی اور خواجہ آصف جیسے نسبتاً نوجوان افراد کی کھیپ مل گئی۔ جیسے بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے پارٹی‘ ان کے دوستوں اور اپنے 'انکلز‘ سے جان چھڑائی تھی‘ بالکل ویسے ہی نواز شریف نے بڑی سمجھداری سے 1990ء کے الیکشن کے بعد جنرل اسلم بیگ اور صدر اسحاق خان کے منصوبے کو ناکام بنایا اور مصطفی جتوئی کے بجائے خود وزیراعظم کے امیدوار بن گئے۔ یہ کرشمہ کیسے ممکن ہوا‘ اس کہانی کی پوری تفصیلات پاکستان میں صرف ایک ہی بندے کے پاس ہیں جس کا نام میجر (ر) عامر ہے‘ جو اُس وقت آئی ایس آئی میں جنرل حمید گل کے ساتھ اس پورے آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے‘ بلکہ یوں کہیں کہ جنرل اسلم بیگ کے پورے منصوبے کو ناکام بنا رہے تھے۔ وہ بہت دلچسپ کہانی ہے اگر میجر (ر) عامر تیار ہو جائیں تو میں کسی دن لکھ دوں گا۔ یہ بھی ملکی تاریخ کا اہم باب ہے کہ اُس وقت کے آرمی چیف اور صدر جتوئی صاحب کو وزیراعظم بنا چکے تھے لیکن انٹیلی جنس کے چند افسران کو کچھ اور مشن سونپا گیا یا انہوں نے خود ہی یہ اپنا مشن بنا لیا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو بنانا ہے۔ یہ ایک سنسنی خیز کہانی ہے جس کا مزہ میجر (ر) عامر ہی سے سننے میں ہے‘ جو اس وقت ایک اہم کردار تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک دفعہ صدر زرداری کے قریبی دوست اور رازدان ڈاکٹر قیوم سومرو نے یہ دلچسپ بات بتائی تھی کہ انہوں نے اعجاز الحق کو کہا تھا کہ وہ اتنے سادہ ہیں یا دوسرے لفظوں میں غیرسیاسی مزاج رکھتے ہیں کہ ان کے والد جنرل ضیا الحق کی سیاسی وراثت نواز شریف لے اڑے اور وہ ان کا منہ تکتے رہ گئے‘ اور ان کی کا بینہ میں ایک وزیر بن کر ساری عمر خوش رہے۔ میں نے قیوم سومرو کو کہا کہ ہر کسی کی اپنی اپنی طبیعت اور مزاج ہوتا ہے۔ جنرل ضیا نے اپنے بچوں کو سیاست کیلئے تیار نہیں کیا تھا۔ نواز شریف جنرل ضیا کے انتقال تک چار‘ پانچ سال وزیراعلیٰ رہ کر سیاست کی چالاکیاں سمجھ چکے تھے بلکہ جنرل ضیاالحق ہی نے ان کی تربیت کی تھی۔ رہی سہی کسر جنرل جیلانی‘ جنرل حمید گل‘ میجر عامر اور دیگر نے پوری کر دی‘ جنہوں نے نواز شریف کو اپنا اثاثہ سمجھا۔ لہٰذا اعجاز الحق میں وہ صلاحیت نہ تھی جیسی میاں نواز شریف میں تھی‘ جنہوں نے اسلام آباد ہوٹل میں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو سے پارٹی کی صدارت چھینی تھی یا کچھ طاقتوں نے چھین کر ان کے حوالے کی تھی۔ بندہ اپنی فطرت پر زندگی بسر کرتا ہے اور اعجاز الحق کی فطرت میں یہ سیاسی چالاکیاں نہ تھیں لہٰذا ان کے والد کی سیاسی وراثت نواز شریف لے اڑے۔ میں نے سومرو صاحب کو کہا کہ اعجاز الحق شکر کریں کہ نواز شریف جنرل ضیا کی صرف سیاسی وراثت لے گئے ورنہ ضیا الحق نواز شریف کواپنا بیٹا کہتے تھے اور نواز شریف چاہتے تو خاندانی جائیداد میں سے بھی حصہ مانگ سکتے تھے۔
خیر نواز شریف کی ٹیم میں چودھری نثار علی‘ خواجہ آصف‘ جاوید ہاشمی اور شاہد خاقان عباسی جیسے نوجوان تھے جنہوں نے انہیں تین دفعہ وزیراعظم بنتے دیکھا یا اور اس کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ کبھی نواز شریف چودھری نثار اور خواجہ آصف کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے۔ ان دونوں نے قومی اسمبلی میں بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کو ہمیشہ ٹف ٹائم دیا۔ نواز شریف کے پاس جاوید ہاشمی‘ خواجہ آصف اور چودھری نثار کی شکل میں وہ سیاسی میزائل تھے جنہوں نے پہلے پیپلز پارٹی اور بعد میں پرویز مشرف کی ناک میں دم کیے رکھا۔ لیکن پھر نواز شریف کو لگا کہ یہ سب ان سے کچھ زیادہ ہی بڑے ہو رہے ہیں تو پارٹی کے اندر ہی دھیرے دھیرے گروپنگ اور لڑائیاں شروع ہو گئیں یا کرا دی گئیں۔ 2002ء میں پہلے جاوید ہاشمی اور چودھری نثار علی خان میں پھڈا ہوا کہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کون ہو گا۔ چودھری نثار اپوزیشن لیڈر بنائے گئے تو دونوں میں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پھر اگلی لڑائی خواجہ آصف اور چودھری نثار کے مابین ہوئی۔ پھر خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کی لڑائی ہوئی۔ آج خواجہ آصف اور حنیف عباسی آمنے سامنے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جاوید ہاشمی محسوس کرتے تھے کہ انہیں جان بوجھ کر عابد شیر علی اور خواجہ آصف کے ہاتھوں سبق سکھایا جاتا ہے۔ چودھری نثار کو بھی یہی لگا کہ خواجہ آصف ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے۔ باقی سب پارٹی میں ان سے دب اور ڈر کر رہتے تھے لیکن خواجہ آصف آگے سے ڈٹ جاتے تھے۔ کبھی کبھار لگتا تھا کہ شریف برادران جب بھی اپنی پارٹی کے اندر کسی ہیوی ویٹ کو اس کی اوقات پر لانے کا سوچتے تو ان کی آنکھ ہمیشہ خواجہ آصف پر پڑتی کیونکہ ان سے بہتر دوستوں اور دشمنوں کی دھلائی کرنے کا فن اور کسی کو نہیں آتا۔ یہ بات آج بھی تسلیم شدہ ہے کہ خواجہ آصف سے بہتر‘ جوشیلی‘ کراری اور تلخ تقریر کوئی نہیں کر سکتا اور بہت کم لوگ ان کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں۔ انہوں نے اسمبلی میں کئی بڑے بڑے سیاسی بتوں کا اپنی لفاظی سے ایسا دھڑن تختہ کیا کہ وہ لوگ دوبارہ کھڑے نہ ہو سکے۔ لیکن وقت اور عمر کے ساتھ وہی خواجہ آصف‘ جو پارٹی قیادت کے کہنے پر پارٹی کے اندر اور باہر سب کی زبانی دھلائی کرتے تھے‘ آج خود کو اسی جگہ محسوس کررہے ہیں جہاں کبھی دوسرے سیاستدان ہوتے تھے‘ اور شاید وہ عجیب محسوس کررہے ہوں۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی چودھری نثار‘ جاوید ہاشمی‘ شاہد خاقان اور دیگر کیلئے ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ وہ پارٹی چھوڑ جائیں اور یہ حالات پیدا کرنے میں خواجہ آصف کا بڑا ہاتھ تھا۔ آج خواجہ آصف سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اگر حنیف عباسی نے ان کو اسمبلی میں اسی طرح رگڑا لگایا ہے جیسے وہ کبھی میاں صاحب کے کہنے پر دوسروں کو لگایا کرتے تھے‘ تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے۔ میاں صاحب کو اب اپنی پارٹی کے اندر حنیف عباسی کی شکل میں ایک نیا سیاسی ہیمر مل گیا ہے جو خواجہ آصف کی ٹکر کا ہے۔ اب خواجہ آصف کی ضرورت نہیں رہی۔ واضح رہے کہ انڈر ورلڈ کی لغت میں ہیمر اس بندے کو کہا جاتا تھا جسے کوئی ڈان اپنے مخالفین کو سیدھا کرنے کی ذمہ داری سونپتا تھا۔
تیس سال سے زائد عرصہ تک خواجہ آصف نواز شریف کے سیاسی ہیمر رہے۔ لیکن اب شاید شریف برادران کو لگتا ہے کہ خواجہ آصف بوڑھے ہو گئے ہیں اور ان کے کسی کام کے نہیں رہے لہٰذاانہوں نے نیا ہیمر لانچ کر دیا۔ شاید خواجہ آصف کرما پر یقین رکھتے ہیں۔ جو برسوں تک وہ دوسروں کے ساتھ کرتے رہے‘ آج وہی ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خواجہ صاحب وہی روٹ لیں گے جو چودھری نثار‘ جاوید ہاشمی یا شاہد خاقان عباسی نے لیا یا پھر ڈھلتی عمر کا تقاضا سمجھ کر شریف خاندان کو اپنی وفاداری کا نیا حلف دیں گے کیونکہ چاہے نیویارک کے ڈان ویٹو کارلیون کی فیملی ہو یا پاکستان کی کوئی سیاسی فیملی‘ کسی قسم کی بغاوت کبھی برداشت نہیں کی جا سکتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں