ابھی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے اجلاس سے لوٹا ہوں۔ اس ملک میں حیران و پریشان ہونے کیلئے کبھی کوئی خاص موقع نہیں ڈھونڈنا پڑتا۔ رکن قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ نے کمیٹی اجلاس میں ایجنڈے پر ایک اہم ایشو رکھا تھا اور وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے لیکن چونکہ یہ اجلاس کافی دیر چلا اور اس ایجنڈے کے وقت تک شاید سب تھک چکے تھے لہٰذا اجلاس ختم کر دیا گیا کہ اگلی دفعہ دیکھیں گے۔ اس پر مرزا اختیار بیگ نے کچھ احتجاج کیا اور ان کا ساتھ رکن اسمبلی نفیسہ شاہ نے دیا اور کمیٹی چیئرمین نوید قمر کو یاد دلایا کہ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے افسران نے جو چالیس کروڑ روپے کا بونس خود سے لیا ہے‘ ابھی اس پر بات کرنی ہے۔ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین کو بھی وہاں بلایا گیا تھا‘ تاہم نوید قمر کہنے لگے کہ اب دیر ہو گئی ہے‘ اگلی دفعہ دیکھ لیں گے۔ اجلاس کے بعد جب نوید قمر میرے قریب سے گزرے تو ہنس کر کہنے لگے کہ سنا ہے آپ کو مایوسی ہوئی ہے کہ ایجنڈے پر جو ایشو تھا اس پر بات نہیں ہو سکی۔ میں نے کہا: سر جی! میرا ذاتی کیا لینا دینا ہے‘ بس یہی دکھ ہے کہ یہاں اسلام آباد میں سرکاری بابوز نے لٹ مچائی ہوئی ہے اور وہاں وسطی پنجاب‘ سرائیکی وسیب اور سندھ میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ وہاں سے غریب دیہاتیوں کی غربت اور بھوک پیاس کی جو وڈیوز آرہی ہیں انہیں دیکھ کر بندہ سو نہیں سکتا اور یہاں کمیٹی اجلاس میں آئیں تو لگتا ہے کہ امریکہ نے اپنے ڈالرز چھاپنے کی مشین پاکستان کو دے دی ہے۔ سکیورٹی کمیشن کے چار افسران نے چالیس کروڑ کا بونس لے لیا۔ نیشنل انشورنس کے چیف ایگزیکٹو نے 34کروڑ بونس لے لیا۔ یوں صرف پانچ لوگ قومی خزانے سے 74 کروڑ لے اڑے اور اب وہ یہاں بیٹھ کر وہ قانون سناتے ہیں جس کے تحت وہ بورڈ ممبران کی اجازت سے کروڑوں روپے لے سکتے ہیں۔ بورڈ ممبران کی اجازت کی بات ہو تو چیئرمین ایف بی آر نے سینیٹ کی فنانس کمیٹی کو بتایا تھا کہ پاکستان میں بورڈز کی حد تک کلیم اللہ‘ سمیع اللہ چل رہا ہے۔ پہلے بورڈ ممبران اپنے چیئرمین یا چیف ایگزیکٹو کی کروڑوں روپے کی تنخواہ اور بونس کی منظوری دیتے ہیں اور جواباً وہ چیف ایگزیکٹو یا چیئرمین جی بھر کر ممبران کے الاؤنس اور مراعات منظور کرتا ہے۔ یوں سب مل کر ایک دوسرے کی جیبیں بھر رہے ہیں۔ اگر ان سے پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے کہ انہیں یہ حق حکومت نے دیا ہے کہ اپنی تنخواہ اور مراعات خود بڑھا لیا کرو‘ ہم سے کیوں پوچھتے ہو۔ کیا شہباز شریف‘ نواز شریف‘ آصف زرداری‘ اسحاق ڈار‘ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب یا فنانس سیکرٹری یا کابینہ سیکرٹری یا لاء سیکرٹری اپنے اپنے کارخانوں کے منیجرز یا گھریلو ملازمین کو بھی یہ اجازت دیں گے کہ وہ جتنی چاہیں تنخواہ اور مراعات بڑھا لیں یا یہ لُٹ مار صرف سرکاری محکموں کیلئے ہے؟ یہاں ایک بڑے مزے کا جواز کمیٹی ارکان کو دیا جاتا ہے کہ نجی شعبے کے برابر تنخواہ دینا پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نجی شعبے میں یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ جب دل چاہے فیکٹری یا کاروبار کے چند بڑے ایچ آر یا فنانس یا مارکیٹنگ کے لوگ ایک دن اجلاس بلا کر اپنی تنخواہیں لاکھوں بڑھا کر انہیں دو سال پہلے کی تاریخ ڈال کر دس دس کروڑ روپے گھر لے جائیں؟ کیا نجی شعبے کی سیلری سلپ پر سترہ کالمز بنے ہوتے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ بیمار ہوں یا نہ ہوں‘ آپ کو تیرہ لاکھ میڈیکل بل ملے گا؟ یہ سب ایس ای سی پی کے چیئرمین اور ممبران‘ جو چالیس کروڑ روپے لے گئے ہیں‘ اگر انہیں نجی شعبہ زیادہ تنخواہ دے رہا ہوتا تو کیا وہ سرکاری شعبے میں کام کرتے؟ یا جو مزے اور عیاشیاں یہاں سرکاری شعبے میں ہیں‘ ہٹو بچو اور پروٹوکول ہے‘ کیا وہ نجی شعبہ بھی دیتا ہے یا یہ سب لُٹ ادھر ہی مچی ہوئی ہے؟
اب سرکاری شعبے کی بات ہوئی ہے تو مزید سن لیں۔ بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس تھا۔ وہاں جو کچھ سنا اس کے بعد تو جیسے کانوں سے دھواں نکل گیا۔ وہاں بحث ہو رہی تھی کہ ملک میں اچانک بارشوں اور سیلاب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کے ڈی جی بھی وہاں موجود تھے۔ اگر کسی کی دل آزاری نہ ہو تو مجھے اس اجلاس میں وہ سب سے زیادہ سمجھدار لگے اور انہوں نے کھل کر ساری باتیں کیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اجلاس میں کھل کر سنا نہیں گیا۔ بار بار ٹوکنے اور روکنے کی وجہ سے وہ بہت کچھ نہ کہہ سکے جو وہ کہنا چاہتے تھے۔ کمیٹی کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی احمد عتیق انور ہیں جو خود بھی انجینئر ہیں‘ لہٰذا وہ بہت سارے معاملات کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کے علم کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ فائدہ یہ ہے کہ وہ افسران سے اچھے سوال پوچھتے ہیں‘ لیکن نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اجلاس میں زیادہ وقت وہ خود بولتے رہتے ہیں۔ خود ہی سوال کرتے ہیں اور پھر خود ہی اس کا جواب بھی دیتے ہیں‘ یوں افسران کو زحمت نہیں کرنا پڑتی۔ یوں لگتا ہے کہ اجلاس میں وَن مین شو چل رہا ہے۔ اور اجلاس کا مقصد‘ جو افسران سے جوابدہی ہے‘ وہ ختم ہو گیا ہے۔
شازیہ مری صاحبہ بھی تیاری کے ساتھ اجلاس میں آتی ہیں اور اچھے سوالات پوچھتی ہیں۔ جب سیلاب پر بات ہوئی تو ڈی جی محکمہ موسمیات نے انکشاف کیا کہ ملک میں بارشیں یا سیلاب اتفاقاً یا اچانک نہیں آئے۔ 29 اپریل کو انہوں نے وفاقی اور صوبائی محکموں اور حکومتوں کو خبردار کر دیا تھا کہ اس سال بہت خطرناک مون سون آرہا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں بہت زیادہ بارشیں ہوں گی اور دریاؤں میں سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 80 کے قریب متعلقہ افسران اور محکموں کے لوگوں کو اسلام آباد اکٹھا کر کے یہ معلومات دی تھیں تاکہ وہ ابھی سے بندوبست کرلیں۔ اندازہ کریں کہ مہینوں پہلے متعلقہ افراد کو معلوم تھا کہ تباہ کن بارشیں اور سیلاب آرہے ہیں۔ کیا کسی کے کان پر جوں رینگی؟ کیا حکمرانوں یا بیورو کریسی نے محکمہ موسمیات کی اس وارننگ کو سنجیدہ لیا جس کا سالانہ بجٹ چار ارب روپے اور 2400 ملازمین اور 120 دفاتر ہیں۔ سوا دو ارب روپے ان ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ ہے۔ جب آپ نے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چار ارب روپے دے کر بھی اس ادارے کی وارننگ کو سنجیدہ نہیں لینا اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈبو کر مروا دینے ہیں تو بند کر دیں اسے۔ شازیہ مری نے حیرانی سے کہا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تو ایم این ایز کو بریفنگ میں کہا تھا کہ کوئی بڑا سیلاب نہیں آرہا یا خطرے کی کوئی بات نہیں۔ اب اندازہ کریں کہ محکمہ موسمیات بار بار کہہ رہا تھا کہ اس سال بہت زیادہ بارشیں ہوں گی اور سیلاب آئیں گے جبکہ این ڈی ایم اے کے بابوز تسلیاں دے رہے ہیں کہ ٹھنڈ رکھیں اور مست رہیں! کچھ نہیں ہوگا۔ دونوں محکموں کا بجٹ اربوں میں ہے۔ مزے ہیں ان بابوز کے‘ کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ مان لیا بارشوں یا سیلاب پر ہمارا زور نہیں چلتا لیکن محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے بعد آپ انسانی جانیں بچانے پر تو کام کر سکتے تھے کہ جونہی پانی دریاؤں میں آتا آپ فوراً لوگوں کا محفوظ انخلا یقینی بناتے‘ آبی گزرگاہوں میں موجود رکاوٹیں بروقت ختم کرتے‘ بند مرمت کراتے۔ یہ اقدامات کرنے کے بجائے احسن اقبال صاحب نے فرمایا: یہ بھارتی آبی جارحیت ہے ورنہ ہمیں کچھ نہیں ہونا تھا۔ حالانکہ محکمہ موسمیات بتا رہا تھا کہ بھارت میں بھی شدید بارشیں ہوئیں‘ تباہی وہاں بھی ہوئی اور سیلاب کی پیش گوئی وہاں بھی تھی۔ اس اجلاس میں یہ انکشاف سن کر افسردہ ہو گیا کہ ان بابوز کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں۔ سینکڑوں انسان ڈبو دیے مگر کوئی چہرہ فکر مند نہیں تھا۔ سینکڑوں لوگ مارے گئے ان سب کی نالائقی اور بے رحمی کی وجہ سے جنہیں اپریل میں پتا تھا کہ اس سال تباہ کن سیلاب آ رہا ہے۔ آگ لگے بستی میں‘ یہ سب اپنی مستی میں۔