"RKC" (space) message & send to 7575

امریکہ اور 56انچ چھاتی والا وزیراعظم

وطنِ عزیز میں آج کل سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ امریکہ ہم پر اچانک اتنا مہربان کیوں ہوگیا ہے کہ ہماری وجہ سے بھارت جیسے اہم اور بڑے ملک کو بھی روز ذلیل کر رہا ہے۔ آخر ہمارے پاس ایسا کیا ہے جو بھارت کے پاس نہیں اور جس کی وجہ سے ہمارے نخرے اٹھائے جا رہے ہیں۔ پوری قوم‘ دانشور اور اینکرز دن رات وہ چیز ڈھونڈ رہے ہیں جو امریکہ کو دنیا کے دو سو ملکوں سے نہیں مل رہی اور صرف پاکستان نے اپنے پاس چھپا رکھی ہے‘ اور اب امریکہ ہم سے وہ چیز چاہتا ہے۔ آخر کچھ تو ایسا ہو گا جس کی وجہ سے امریکہ ہمارے اتنے قریب آ گیا ہے۔
اگر آج کے دور کا موازنہ کرنا ہو تو صدر نکسن کے دور سے کیا جا سکتا ہے‘ جو 1971ء میں اندرا گاندھی سے ایسے چِڑ گئے تھے جیسے آج کل صدر ٹرمپ مودی سے چِڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ اگر مجھ سے پوچھیں تو صدر ٹرمپ وزیراعظم مودی کی کچھ زیادہ ہی درگت بنا رہے ہیں اور پوری دنیا میں ان کا تماشا لگا دیا ہے۔ جہاں جاتے ہیں وہاں وہ ہر بات میں پاک بھارت جنگ کا ذکر کرنا نہیں بھولتے اور ساتھ ہی سات جنگی جہازوں کے گرنے کی بات کر دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ یہ سات طیارے کس کے گرے تھے۔ آج تک ان سے کسی نے پوچھا بھی نہیں کہ یہ جنگی جہاز کس ملک کے گرے۔ نہ انہوں نے خود اس کی وضاحت کی۔ شاید ٹرمپ کو احساس ہے کہ انہیں ملک کا نام بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ جہاز کس ملک کے تھے۔ اب تو وہ اتنی دفعہ جہازوں کے گرنے کا ذکر کر چکے ہیں کہ سب کو اندازہ ہو چکا کہ وہ ضرور ہر جگہ پاکستان بھارت جنگ کاذکر کریں گے اور ایک دفعہ پھر اس میں بھارت کی سبکی کا پہلو تلاش کر لیں گے۔ اب ان کا جھکائو اچانک پاکستان کی طرف ہو گیا ہے۔ لیکن پاکستانیوں کو یقین نہیں آ رہا کہ کوئی امریکی صدر ان کی خاطر بھارت کی مٹی پلید کر سکتا ہے۔ ہمارے لوگوں کا خیال ہے کہ رویے میں اچانک تبدیلی کے پیچھے امریکہ کا کوئی بہت بڑا لالچ ہے اور وہ ہم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے اور ایک بار پھر ہم امریکی دام میں پھنس جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کون سا وہ ایسا مفاد ہو سکتا ہے جو امریکہ ہم سے نکلوانا چاہتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں یہ سازشی تھیوری بڑی معروف تھی کہ امریکہ پاکستانی فوج کو ایران کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے یا اس حوالے سے پاکستان کی فضا یا زمین استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ہم دانشور یہ سازشی تھیوری برسوں تک بیچتے رہے۔ اب پتا چلا کہ امریکہ نے پاکستان سے کبھی ایران پر حملے کے لیے حمایت ہی نہیں مانگی‘ بلکہ اسرائیل کے ذریعے ایران پر حملہ کرایا اور خود بھی ایران پر براہِ راست سٹرائیک کی۔ بلکہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے امریکہ اور ایران کو قریب لانے میں کردار ادا کر کے ایران کو بہت حد تک بچایا اور اسرائیل کے حملوں کے خلاف سپورٹ بھی دی‘ جس پر ایران پاکستان کا شکر گزار ہے۔ یہ اسی طرح کی سازشی تھیوری تھی کہ سوویت یونین افغانستان فتح کرنے کے بعد پاکستان پر قبضہ کر لے گا کیونکہ اسے گرم پانیوں تک راستہ درکار ہے‘ جو بلوچستان سے گزر کر جاتا ہے۔ مطلب روس گوادر تک پہنچنا چاہتا ہے۔ یہ کہانی مسلسل بیچی گئی اور پوری قوم کو ڈرایا گیا کہ اگر افغانستان میں ''جہاد‘‘ نہ کیا گیا تو اگلا نشانہ پاکستان ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت افغان جنگ کو ختم ہوئے 35 سال گزر چکے اور آج روس اور پاکستان کے اچھے تعلقات ہیں۔ ایک دن بھی نہیں سنا کہ روس نے پاکستان سے گرم پانیوں تک رسائی کیلئے راہداری مانگی ہے یا کبھی معاہدے کی کوشش کی کہ ہمیں راستہ چاہیے۔ اب معلوم ہوا کہ ہمیں تو روس کا بتایا گیا لیکن گرم پانی تک کا راستہ تو ہمارے دوست چین کو درکار تھا‘ جس نے سی پیک منصوبوں کے ذریعے گوادر پورٹ پر کام کیا۔ کہاں گیا روس کا گرم پانیوں تک رسائی کا منصوبہ؟ چین اور پاکستان سب علاقائی ممالک کو آفر دے رہے کہ وہ سی پیک کا حصہ بنیں۔ اس طرح یہ روس کیلئے بہترین موقع تھا کیونکہ چین کے ساتھ اس کے بہتر تعلقات ہیں مگر روس نے ابھی تک گرم پانیوں کیلئے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
اب امریکہ کو ہم سے کیا مفاد ہو سکتا ہے؟ ایک تھیوری یہ ہے کہ ابراہم اکارڈ کے تحت اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات ٹھیک ہونے کے بعد اب پاکستان کو بھی اس میں شامل کرایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا بھی تو یقینا یہ سب کچھ فلسطینیوں اور عربوں کی منشا کے مطابق ہوگا۔ اگر عرب اور فلسطینی اسرائیل کے ساتھ اپنے معاملات حل کر لیتے ہیں‘ جیسا کہ نظر آ رہا ہے‘ تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ایک مفاد یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کرپٹو کرنسی کو قانونی شکل دے رہا ہے اور اس کے پیچھے ٹرمپ خاندان کے کچھ لوگ ہیں‘ کچھ ٹرمپ کے قریبی بزنس مین دوست بھی ہیں۔ اسی طرح ایک سوچ یہ ہے کہ دراصل امریکیوں کو پاکستان سے منرلز کی ڈیل چاہیے اس لیے وہ شہباز شریف اور عسکری قیادت کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اگر یہ تمام باتیں مان لیں تو ان میں کیا حرج ہے؟ کیا امریکہ سے پہلے چین کے ساتھ ہمارے سونے‘ چاندی اور تانبے کی مائننگ کے معاہدے نہیں ہوئے‘ جو سرمایہ کاری کر کے ہمیں بھی حصہ دے رہا ہے؟ اگر امریکی کمپنیاں پاکستانی حدود میں تیل تلاش کرنا چاہتی اور سرمایہ لگانا چاہتی ہیں تو کیا حرج ہے؟ اگر ہمارے پاس منرلز کے ذخائر ہیں اور امریکی اس میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں تو کیا مسئلہ ہے؟ مطلب صاف ہے کہ ہمارے پاس وہ کچھ ہے جو اس وقت بھارت کے پاس نہیں۔ یہ ہمارا ایڈوانٹج ہے اور بھارت کا ڈِس ایڈوانٹج کہ اس کے پاس امریکہ کے ساتھ ڈیل کرنے کے ویسے امکانات نہیں‘ جیسے ہمارے پاس ہیں۔ ہمارے پاس امریکہ کو آفر کرنے کیلئے بہت کچھ ہے جبکہ بھارت آج خالی ہاتھ کھڑا ہے۔ تو پھر ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟
خوف کی وجہ شاید ایک ہی ہے کہ پاکستان نے ماضی میں امریکہ سے ڈالر لے کر جنگیں لڑی ہیں‘ یا پھر مفت ڈالرز لیتے رہے ہیں۔ ہمیں مفت کے ڈالر کھانے کی عادت پڑ چکی ہے یا پھر ہم طالبان کا ہوّا دکھا کر دنیا سے پیسے بٹورنے کے عادی ہیں۔ ہم محنت کر کے کمانے پر یقین نہیں رکھتے۔ اس لیے جب امریکہ ہم سے بزنس کی بات کرتا ہے‘ چاہے وہ کرپٹو کرنسی ہو یا منرلز اور تیل کی تلاش کے معاہدے‘ تو ہم بدک جاتے ہیں۔ ہمیں شک ہوتا ہے کہ امریکی ہمیں لوٹنا چاہتے ہیں کیونکہ عمر بھر ہم نے امریکہ کے ساتھ کاروبار کرکے ڈالرز نہیں کمائے‘ لہٰذا امریکہ کے کاروباری صدر کی باتیں ہمیں سازش لگتی ہیں اور ہم شور مچا دیتے ہیں کہ ہم لُٹنے والے ہیں۔ ہم نے کبھی ڈالرکما کر نہیں دیکھے‘ ہاں دہشت گردی کے نام پر مفت ضرور کھائے ہیں۔ اب امریکہ کہتا ہے کہ ڈالرز لینے ہیں تو ہمیں بھی کچھ آفر کرو۔ ہمیں تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس امریکہ کو دینے کیلئے کچھ موجود ہے‘ جس سے اس کی نظروں میں ہماری وہ اہمیت بن گئی جو بھارت جیسے ملک کی بھی نہیں رہی۔ دنیا ایسے ہی چلتی ہے کہ کون ہمیں کیا دے سکتا ہے اور ہم اسے کیا دے سکتے ہیں۔ یہاں کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا۔ یہاں خونی رشتے نہیں ہوتے کہ ہم حجت کر کے ناراض ہو کر بیٹھ جائیں۔
ابھی اور سنیں‘ بھارت بالآخر امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ وہی مودی جس نے اپنی قوم کو بانس پر چڑھا رکھا تھا‘ اب خبریں آ رہی ہیں کہ امریکی دھمکی کے بعد بھارت روس سے تیل کی خریداری بند کرنے کو تیار ہے اور آئندہ تیل امریکہ سے خریدے گا۔ یہ انجام ہوا ہے اُس وزیراعظم کا‘ جو بڑے فخر سے اپنے بھگتوں کو کہتا تھا کہ میں چھپن اِنچ کی چھاتی کا مالک ہوں۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی‘ چھ سو ارب ڈالر کے زرِ مبادلہ ذخائر اور اربوں ڈالر کی دنیا بھر سے تجارت کرنے والے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کی چھپن اِنچ والی چھاتی چند روز بھی امریکی دبائو نہ سہہ پائی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں