اکبر چودھری سے ورجینیا میں ایک مدت بعد ملاقات ہوئی تو خیال آیا کہ خدا کی ذات سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ آپ بس کوشش کریں اور نتیجہ اپنے رب پر چھوڑ دیں‘ اور میں نے گیارہ برس قبل یہی کیا تھا۔
گیارہ برس قبل جب میں نے پہلی دفعہ امریکہ لینڈ کیا تو ایئر پورٹ پر ایک اجنبی انسان کو اپنا منتظر پایا‘ جو مجھے اور میری بیوی کو لینے آیا تھا۔ اکبر چودھری سے پہلی ملاقات اپریل 2014ء میں ہوئی جب میں اپنی بیوی کے علاج کیلئے امریکہ آیا تھا۔ اسلام آباد کے ایک ہسپتال اور کینسر سپیشلسٹ نے ڈیڑھ سال تک کینسر کے علاج کے نام پر مذاق ہی کیا تھا۔ ہم نے ہسپتال کے انتہائی مہنگے اخراجات اٹھائے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ایک دن کینسر وارڈ گئے تو پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب تو چالیس دن کے چِلے پرچلے گئے ہیں۔ اس حوالے سے مریضوں کو کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی‘ بس بیگ اٹھایا اور نکل گئے اور پیچھے دو تین سو کینسر مریض اللہ کے حوالے۔ ان میں سے ایک میری بیوی تھی‘ جسے ان کی جگہ موجود ایک اور ڈاکٹر نے صاف کہہ دیا کہ جتنا علاج ہونا تھا وہ ہو چکا‘ اب مزید کچھ نہیں ہو سکتا۔ میں ہکا بکا اُس ڈاکٹر کو دیکھتا رہا جس نے ڈیتھ وارنٹ پر اتنی آسانی سے دستخط کر دیے تھے۔ اس پر میری بیوی نے مجھے دیکھا اور کہا: اب چلیں گھر۔ نہ کوئی پریشانی‘ نہ رونا دھونا۔ مجھے بچوں کا خیال آیا‘ جو ماں کو کھونے والے تھے۔ کینسر سپیشلسٹ نے جتنا پیسہ بنانا تھا‘ بنا کر اپنے سینکڑوں مریضوں کو بتائے بغیر تبلیغ پر نکل گیا اور اس کی جگہ بیٹھا ڈاکٹر سب کو یہ خبر سنا رہا تھا کہ گھر جا کر موت کا انتظار کریں۔
ہم میاں بیوی نے ہسپتال سے گھر تک کا راستہ خاموشی سے طے کیا۔ گھر پہنچ کر میں نے بچوں کو دیکھا اور انہوں نے اپنی ماں کو۔ میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ ان ڈاکٹروں کی وجہ سے ہار نہیں مانیں گے۔ ہو سکتا ہے اللہ کی رضا کچھ اور ہو۔ بعض اتفاقات بہت عجیب ہوتے ہیں۔ اُنہی دنوں کسی نے ٹویٹر پر شاہین صہبائی سے پوچھا تھا کہ آپ کے بچے کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ایک بیٹا انکالوجسٹ ہے۔ ڈوبتے کو تنکا نظر آیا لیکن بیوی نے انکار کر دیا کہ وہ علاج کیلئے باہر نہیں جائے گی‘ اللہ نے جتنی عمر مقرر کر رکھی ہے‘ وہ کافی ہے۔ کہنے لگی کہ بہت خرچہ ہو گا‘ ادھار لیتے پھرو گے‘ وہی پیسے بچوں کو دے دینا۔ میں نے جواب دیا کہ عمر بھر بچوں کے کٹہرے میں نہیں کھڑا رہ سکتا۔ بچوں نے کبھی معاف نہیں کرنا کہ آخر دم تک کوشش کیوں نہ کی۔ بچوں کو پیسے نہیں ماں چاہیے۔ بڑی مشکل سے بیوی کو راضی کیا۔ ہمارے پاس امریکہ کا ویزہ نہ تھا۔ سب نے کہا کہ ٹور ویزہ اپلائی کرو‘ میڈیکل ویزہ نہیں ملے گا۔ میں نے کہا کہ نہ ملے‘ جھوٹ بول کر ویزہ نہیں لیں گے۔ جس انسان کے گھر چھ ماہ رہنا ہے اس کیلئے مشکلات پیدا نہیں کروں گا کہ رات کو دروازے پر دستک ہو کہ آپ تو وزٹ ویزے پر آئے تھے اور یہاں کینسر علاج چل رہا ہے۔ خدا کو کوشش پسند ہے اور یہی کچھ میں نے کیا۔ میں نے کوشش کی اور عاصم صہبائی نے سب پیپر ورک میں مدد کی۔ دنیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود صاحب سے قرضہ لیا کہ ہر ماہ تنخواہ سے پیسے کاٹ لیجیے گا۔ میاں عامر محمود اور عاصم صہبائی کا یہ احسان عمر بھر یاد رہے گا۔ وہ منظر آنکھوں سے نہیں جاتا جب امریکہ جانے کیلئے رات کو گھر سے نکلنے لگے تو چھوٹا بیٹا ماں کو چمٹ گیا تھا۔ وہ اسے چھوڑ نہیں رہا تھا۔ گیارہ برس گزر گئے۔ وہ چھوٹا بیٹا اب بڑا ہو چکا لیکن میری نظروں میں وہ لمحہ رک سا گیا ہے ۔ ایک عجب غیر یقینی کیفیت کے ساتھ سفر کیا کہ جب پاکستانی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے تو امریکی ڈاکٹر کیا کر لیں گے؟
امریکہ جانے سے قبل میں نے شاہین صہبائی کو کہا کہ سر میں تو امریکہ میں کسی کو نہیں جانتا‘ نہ اس سے پہلے کبھی وہاں گیا ہوں۔ انہوں نے فوراً امریکہ میں کسی کو فون ملایا اور فون بند ہونے پر مجھے کہا کہ اکبر چودھری آپ کو واشنگٹن ایئر پورٹ سے پِک کر کے چار گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد عاصم کے پاس ڈراپ کر دیں گے۔ واشنگٹن لینڈ کیا تو ایئر پورٹ پر اکبر چودھری منتظر تھا۔ ایئر پورٹ سے تیس منٹ سفر کے بعد ہی ہماری گاڑی ایک خوبصورت گھر کے سامنے جا رکی۔ گھر کے سامنے ایسا منظر تھا کہ کافی دیر وہیں کھڑا ٹھنڈی ہوا کو اپنے گالوں پر محسوس کرتا رہا۔ میں حیران ہوا کہ صرف آدھے گھنٹے میں ڈاکٹر عاصم کا گھر آ گیا ہے‘ مجھے تو کہا گیا تھا کہ چار گھنٹے کی ڈرائیو ہے۔ اتنے میں اکبر چودھری نے ہمارا سامان گاڑی سے نکالا اور اندر لے گئے۔ یہ ورجینیا میں ان کا گھر تھا۔ نرگس بھابی نے بہترین کھانا تیار کر رکھا تھا۔ اکبر چودھری کہنے لگے کہ آپ چوبیس گھنٹے کا سفر کر کے آئے ہیں‘ آج رات یہیں ٹھہریں‘ آرام کریں‘ کل آپ کو ڈیلاور چھوڑ آئیں گے۔ ہم نے کھانا کھایا‘ اور پھر ایسے سوئے کہ بارہ گھنٹے بعد اٹھے۔ اگلے دن اکبر چودھری اور نرگس بھابی نے ہم دونوں کو گاڑی میں بٹھایا اور پورے راستے برستی برسات میں چار گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ڈاکٹر عاصم صہبائی کے گھر چھوڑ آئے جہاں ہم نے اگلے چھ ماہ رہنا تھا۔ جب ڈاکٹر عاصم صہبائی نے چند دن لگا کر پورا کیس سٹڈی کر کے اپنی رپورٹ امریکہ کے انکالوجسٹ گروپ میں شیئر کی تو وہ سب حیران تھے کہ یہ خاتون کیسے زندہ بچ کر امریکہ پہنچ گئی ہے کیونکہ پاکستانی ڈاکٹروں نے سارا علاج غلط کیا تھا۔ باقی چھوڑیں ایک سال تک سکین نہ کیا کہ یہی دیکھ لیں کہ کینسر جسم کے کس حصے میں کس حد تک ہے اور پھر علاج شروع کریں۔ بس کیمو شروع کر دی گئی‘ لیکن ان کے بھی ایس او پیز فالو نہ کیے گئے۔ امریکی ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اتنی کیمو ڈوز کے بعد بچنا ایک کرشمہ ہے۔ عاصم صہبائی نے نئے سرے سے علاج شروع کیا اور کہاکہ اب چانس کم ہے لیکن ہم پوری کوشش کریں گے۔
اس دوران ہمیں اکبر چودھری کی بہت سپورٹ رہی۔ اکبر چودھری 1981ء میں امریکہ آیا تھا اور دل لگا کر محنت کی۔ جب اپنے قدم جم گئے تو اپنے پاکستانی بھائیوں کا خیال آیا۔ عمران خان نے کینسر ہسپتال شروع کیا تو انہیں لے کر اکبر چودھری پورے امریکہ میں پھرے‘ فنڈز اکٹھے کیے۔ نائن الیون حملوں کے بعد پاکستانی اوورسیز عطیات دینے سے ڈر گئے تو سابق صدر بل کلنٹن‘ جن سے ان کا ذاتی تعلق تھا‘ کو کہہ کر شوکت خانم کیلئے پانچ ہزار ڈالر کا عطیہ لیا۔ نائب صدر الگور سے دو ہزار ڈالرز کا چیک لیا تاکہ پاکستانیوں کا خوف دور کر سکیں اور یہی چیک دکھا کر انہوں نے پاکستانیوں کو عطیات کیلئے راضی کیا۔ جو بھی امریکہ گیا‘ اکبر چودھری کا مہمان ٹھہرا۔ ایک دوست کہنے لگا کہ اکبر چودھری کا ورجینیا میں گھر گھنٹہ گھر ہے کہ امریکہ کے ہر شہر کو سڑک اس چوک سے ہوکر جاتی ہے۔ میرے اپنے بچے کہتے تھے کہ اکبر انکل امریکہ کے ڈان ہیں۔ ہر شہر میں ان کی واقفیت اور دوست ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے بہت کچھ کیا لیکن میں یہ سن کر شدید صدمے کا شکار ہوا کہ عمران خان کی دوستی کی قیمت وہ بھی ادا کر رہے ہیں۔ ان پر پاکستان میں مقدمے ہیں‘ شناختی کارڈ بلاک ہے‘ وہ پاکستان میں کاروبار کرنا چاہ رہے تھے لیکن وہ معاملہ بھی ٹھپ ہو گیا۔ نرگس بھابی سے پوچھا کہ وہ کب پاکستان آرہی ہیں کیونکہ وہ ہر سال آتی تھیں۔ ہنس کر بولیں: اب اکبر کی وجہ سے مجھے بھی خطرہ ہے۔ میں کافی دیر تک صدمے کی حالت میں اکبر چودھری جیسے ایک خوبصورت دل کے مالک سادہ انسان دوست کو دیکھتا رہا کہ وہ کب سے اتنا خطرناک ہو گیا کہ پاکستان نہیں آ سکتا۔
دل میں ایک عجیب سا درد اٹھا کہ جتنی مدد عام پاکستانیوں کی اکبر چودھری نے کی ہے شاید ہی کسی نے کی ہو لیکن آج ہزاروں پاکستانیوں کا محسن اکبر چودھری اوکاڑہ میں اپنے آبائی گھر نہیں آ سکتا۔