"RKC" (space) message & send to 7575

لندن سے نیویارک تک

اتفاق کی بات ہے کہ پچھلے ماہ میں لندن اور نیویارک میں تھا اور دونوں شہروں کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ تھی۔ لندن کی ایک چیز اچھی ہے‘ چاہے وہ جیسا بھی ہو لیکن آپ ایک سو سال بعد بھی وہاں جائیں تو بھی اس میں تبدیلی نہ ہو گی۔ انگریز اس بارے میں بڑی احتیاط کرتا ہے کہ عمارتوں اور دیگر اہم مقامات کو گرا کر ان کی جگہ نئے پلازے نہ بنائے جائیں۔
لہٰذا لندن مجھے ویسے کا ویسا ہی لگا جیسے 2006ء میں لگا تھا‘ جب میں پہلی دفعہ وہاں گیا تھا۔ وہ پرانی عمارتوں یا سڑکوں پر کام کرتے رہتے ہیں لیکن اصل نقشہ تبدیل نہیں کرتے کہ اگلی دفعہ آپ جائیں تو پہچان نہ پائیں کہ کس جگہ آ گئے ہیں۔ میری صفدر عباس بھائی سے لندن میں بات ہو رہی تھی کہ اگر ایک سو سال پہلے والے لوگ بھی مر کر دوبارہ زندہ ہوں تو وہ بھی بڑی آسانی سے لندن میں اپنے گھر کا راستہ ڈھونڈ لیں گے۔ سب سڑکیں‘ مارکیٹیں‘ عمارتیں‘ پارکس‘ سب کچھ ویسا ہی ہے جو شاید سو سال پہلے ہو گا۔ میں نے کہا: جو چارلس ڈکنز (Charles Dickens)کے ناولز میں لندن کے بارے پڑھا تھا‘ آج بھی یہ شہر کم و بیش ویسا ہی لگتا ہے۔ لندن کا موسم اور بک سٹورز اور طویل واک۔ یہ سب عوامل مل کر لندن کو ایک عجیب رومانوی ٹچ دیتے ہیں اور اس شہر کا اپنا سحر ہے۔ لیکن یہ سحر اُس وقت ٹوٹا جب 2016ء میں امریکہ سے لندن آیا تاکہ پاکستان واپسی کی فلائٹ لے سکوں تو مجھے جھٹکا لگا۔ لندن امریکہ کے مقابلے میں بہت پسماندہ لگا اور مجھے وہی فرق محسوس ہوا جو اسلام آباد اور لیہ کا ہے۔ امریکہ سے آنے کے بعد احساس ہوا کہ امریکہ جتنا بڑا ملک ہے‘ وہاں کا انفراسٹرکچر اور خوبصورتی کے علاوہ وہاں صفائی بھی بہت ہے۔
حالیہ وِزٹ میں واشنگٹن میں میرے پرانے دوست اکبر چودھری نے مجھے پِک کیا تو میں نے کہا: اکبر بھائی گھر جانے سے پہلے ذرا واشنگٹن کا چکر تو لگوا دیں۔ مجھے نہیں پتا کہ کب اور کیسے واشنگٹن مجھے پسند آیا۔ اس کی سڑکیں‘ صفائی اور خوبصورتی کا الگ ہی لیول ہے‘ خصوصاً وہاں جتنی عمارتیں ہیں وہ بہت زیادہ اونچی نہیں ہیں اور ان کا آرکیٹیکٹ آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ لیکن واشنگٹن کی خوبصورتی میں کھلی کھلی سڑکوں اور صفائی کا اہم کردار ہے۔ اکبر بھائی مجھے مختلف سرکاری عمارتوں کے بارے میں بتاتے رہے اور میں اس شہر کی خوبصورتی میں کھویا رہا جو اس وقت پوری دنیا کیلئے اہم ہے‘ بلکہ بڑے بڑے ملکوں کے سربراہانِ مملکت امریکی صدر کے دفتر کے باہر انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب وہ ان کو ملاقات کا شرف بخشتے ہیں۔ البتہ لندن کی صفائی کی حالت وہ نہیں رہی جس وجہ سے اب صادق خان پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ یہ طے ہے کہ ہم ایشین صفائی اور انتظام کے حوالے سے کمزور ہیں۔ اور یہ بات انگریزوں‘ گوروں یا یورپین کو بری لگتی ہے اور ہم اس کی پروا کم ہی کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں تمام تر شکایات کے باوجود لندن اور نیویارک کے لوگوں نے دو مسلمانوں کو بطور میئر منتخب کیا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ دونوں شہر دہشت گردی کا شکار ہوئے اور دونوں واقعات میں مسلمانوں ہی کا نام آیا۔
گیارہ ستمبر کے نیویارک پر حملے ہوں‘ جن میں تین ہزار لوگوں کی جانیں گئیں یا پھر لندن میں سات جولائی کے بم دھماکے ہوں‘ ان میں مسلمانوں کے ہی نام آئے۔ اگرچہ لندن دھماکوں میں جو لوگ ملوث تھے‘ وہ برطانیہ ہی میں پیدا ہوئے‘ وہیں پلے بڑھے‘ جس پر بحث چل نکلی تھی کہ یورپ کے اندر ان نوجوانوں میں یہ دہشت گردی کا عنصر کیسے آیا کیونکہ تب تک تو صرف پاکستان کے مدرسوں پر الزام آتا تھا یا افغانستان پر کہ وہاں دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں۔ پھر فرانس‘ جرمنی‘ سپین میں بھی دہشت گردی ہوئی تو اس میں بھی مسلمانوں کا نام آیا اور یوں یہ مہم چل نکلی کہ مسلمان یورپ میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتے۔ لندن ہو یا نیو یارک‘ وہاں نسلی اور مذہبی نفرت ابھری اور مسلمانوں اور پاکستانیوں نے اس کا سامنا کیا‘ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ اس کے باوجود اسی لندن نے ایک پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹے صادق خان کو تیسری دفعہ میئر بنا دیا۔ اگرچہ لندن میں چند دن پہلے سوا لاکھ گورا باہر نکلا اور اس نے مظاہرے کیے کہ ان ایشین اور امیگرنٹس کو واپس بھیجیں اور سب حیران تھے کہ اتنی نفرت کیسے پھیل چکی‘ لیکن مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ 2007ء میں یورپی یونین سروے میں 63 فیصد یورپیوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو یورپ کی امیگریشن مت دیں‘ یہ ہمارے طرزِ زندگی کیلئے خطرہ ہیں لیکن اس کے باوجود لندن نے ایک پاکستانی نژاد مسلمان کو اپنے شہر کا میئر بنا دیا۔
مجھے اور بہت سے دیگر لوگوں کو اس سے زیادہ حیرانی زہران ممدانی کے نیویارک شہر کا میئر بننے پر ہے جہاں تین ہزار لوگوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں میں جان گنوائی۔ پاکستانیوں اور مسلمانوں کیلئے نیویارک کے کئی برس بہت تکلیف دہ رہے۔ میرے چند اچھے دوست نیو یارک میں رہتے ہیں اور ان سے وہ خوفناک کہانیاں سنی ہوئی ہیں کہ گیارہ ستمبر کے بعد ان پر کیا گزری یا کس خوف کے زیر اثر انہوں نے زندگیاں گزاریں۔ پورے امریکہ میں سب سے مشکل امیگریشن ایئرپورٹ نیویارک ایئرپورٹ تھا۔ بڑے بڑے لوگوں کو روکا گیا‘ انٹری تک نہ دی گئی‘ گھنٹوں تفتیش کی گئی۔ پولیس کے کئی انڈر کَور آپریشن مسلمانوں کے خلاف نیویارک میں شروع ہوئے کہ مسلمانوں سے دوستی کرکے انہیں دہشت گردی کے آئیڈیاز دیں اور چیک کریں کہ کتنے نوجوان تیار ہو جاتے ہیں۔ کئی بے گناہ پھنس بھی گئے کہ محض گفتگو اور گپ شپ کرنے پر ہی ان پر دہشت گردی کا منصوبہ بنانے کا الزام لگ گیا۔ اس پر کئی سکینڈلز اور شدید ردِعمل سامنے آیا۔ آپ پوچھیں گے کہ اس ساری کہانی کا کیا مقصد ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ یورپین اور امریکیوں نے جہاں اپنی سوچ بدلی ہے وہیں انہوں نے ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر لندن اور نیویارک جیسے شہر مسلمان میئرز کے حوالے کیے ہیں تو یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا صادق خان اور زہران ممدانی اپنی محنت اور کوشش سے انگریزوں یا گوروں کے ذہن سے مسلمانوں اور امیگرنٹس کے بارے منفی تاثر کو زائل کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے امیگرنٹس خصوصاً مسلمان ان مقامی لوگوں کے ذہنوں سے یہ تاثر مٹا سکتے ہیں کہ امیگرنٹس یا مسلمان ہمیں برا نہیں سمجھتے اور ہمارے ساتھ ایڈجسٹ ہوتے ہیں نہ کہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لیتے ہیں؟ میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ ہم باہر جا کر کیا کیا حرکتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے یورپین اقوام اور امریکی ہمارے خلاف ہوئے ہیں یا امیگرنٹس کے خلاف نفرت ابھری ہے اور دائیں بازو کی قوتیں مضبوط اور لبرل کمزور ہوئے ہیں۔یقینی طور پر چند لوگ ہی کسی کمیونٹی کا برا تاثر بناتے ہیں‘ اکثریت ایماندار اور محنتی ہوتی ہے جو اس ملک کی معیشت اور معاشرے کو ترقی دلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور چند لوگ ہی پورے ملک یا مذہب کا تاثر بگاڑتے ہیں۔اب مجھے نہیں پتا یہ کریڈٹ کس کو دینا ہے۔ لندن اور نیویارک کے شہریوں کو کہ جنہوں نے ان دونوں شہروں میں دہشت گردی میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کے باوجود مسلم میئر منتخب کیے یا پھر مسلمانوں کو کریڈٹ دیں کہ جنہوں نے ناراض انگریزوں اور امریکیوں کو اپنے بہتر کردار اور سوچ سے جیت لیاہے؟
اب ہماری عزت صادق خان‘ زہران ممدانی کے ہاتھ میں ہے یا پھر ان ملکوں میں رہنے والے لاکھوں مسلمانوں اور پاکستانیوں کے ہاتھ میں کہ وہ خود کو بدلیں‘ وہاں ایڈجسٹ کریں اور مقامی لوگوں کو شکایات کا موقع کم دیں کہ لاکھوں لوگ آپ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔ ایک موقع ملا ہے دیکھیں ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں یا پھر وہی بقول غالب:
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے‘ ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں