"RKC" (space) message & send to 7575

دوست سے والد تک

سوشل میڈیا کی دنیا جہاں ہمارے لیے بہت سے مسائل لے کر آئی ہے وہاں دنیا کو چھوٹا بھی کر دیا ہے۔ اس نے دنیا بھر کے ذہین لوگوں کو آپ کے فون میں قید کر دیا ہے۔ آپ کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں‘ دوسروں سے سیکھ سکتے ہیں‘ اپنے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس دور میں اگر آپ اَن پڑھ ہیں یا ہنر مند نہیں ہیں یا بیروزگار ہیں تو قصور آپ کا ہے کہ اس سمارٹ فون میں سمٹی دنیا سے آپ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ گورے کو داد دیں کہ اس نے بچے‘ نوجوان‘ عورت‘ مرد‘ بوڑھے سب کیلئے ایک ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کر دی ہے کہ جس بندے کے پاس کوئی ہنر ہے‘ بات سننے یا بات کہنے کا فن ہے یا کچھ نیا کر سکتا ہے تو وہ لاکھوں روپے گھر بیٹھے کما سکتا ہے‘ چاہے وہ یوٹیوب ہو‘ فیس بک ہو‘ ٹویٹر ہو یا ٹک ٹاک۔ مجھے بھی سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ متاثر کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ انگیج بھی کرتا ہوں۔ میں دوسروں کے خیالات اور تحریروں سے مستفید ہوتا رہتا ہوں۔
آج فیس بک پر دو تحریریں پڑھیں تو ان کا جواب دیے بغیر نہ رہ سکا کہ اس میں بھی زندگی کے چند سبق ہوتے ہیں۔ ہمارے پیارے صحافی دوست فاروق اقدس کی فیس بک وال پر پڑھا کہ اگر کوئی تعلق بڑھانے کی پُرخلوص خواہش کرے تو آگے بڑھ کر اس کی پذیرائی کرنی چاہیے اور اگر کوئی تعلق سمیٹنا چاہے تو اس کے ساتھ بھی بھرپور تعاون کرنا چاہیے‘ خواہ وہ تعلق کتنا ہی قدیم و جدید کیوں نہ ہو۔ اس پر میں نے لکھا کہ عجیب سی بات ہے‘ میل جول تعلق جتنا پرانا ہوتا ہے وہ اتنا ہی کمزور ہوتا ہے اور وہ ایک لمحے میں ٹوٹ سکتا ہے۔ لوگ حیران ہوں گے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن برسوں پرانے تعلق میں بھی بہت چھوٹی چھوٹی باتیں بعض اوقات اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوتی ہے اور ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ اتنی معمولی بات پر اتنی پرانی دوستی ختم ہو گئی؟ اصل وجہ وہ معمولی بات نہیں ہوتی‘ اس کے پیچھے بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جنہیں آپ بار بار دوستی کے نام پر نظر انداز کرتے جاتے ہیں لیکن ایک دن آپ کی بس ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ دوستی یا تعلق جتنا پرانا ہو گا اتنا ہی مضبوط ہو گا لیکن پرانی دوستیاں بھی بہت کمزور دھاگے سے بندھی ہوتی ہیں۔دوستوں میں برسوں کے یارانے ہمیشہ معمولی بات پر ہی گئے۔ مجھے خود ایسے تجربات ہوئے جب دو تین قریبی دوستوں سے تعلق بہت کمزور محسوس ہوا‘ جو معمولی غلط فہمی کو بھی برداشت نہ کر سکا۔ میری نیچر میں ہے کہ میں اگر کسی سے ناراض ہوں گا تو اسے بتا کر تعلق ختم کروں گا اور پھر وہ تعلق دوبارہ استوار نہیں ہوگا‘ چاہے اس کی کچھ بھی قیمت یا فائدہ ہو۔ میں دوستوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنے پر بھی یقین رکھتا ہوں اور دو تین کیسز میں کوشش بھی کی۔ لیکن اگر آگے سے مثبت رسپانس نہ ملے تو پھر آگے بڑھ جائیں‘ اور میں نے یہی کیا۔ ویسے بھی میں قریبی دوستوں کے دھوکے کو معاف کرنے پر یقین نہیں رکھتا (چاہے میرے دوست مجھ سے یہی شکایت رکھیں تو مجھے بھی معاف نہ کریں)۔ میرا ماننا ہے کہ کوئی اجنبی انسان آپ کے ساتھ زیادتی کر جائے تو اس کی معذرت قبول کی جا سکتی ہے لیکن اپنے دوست کی زیادتی یا دھوکا قابلِ قبول نہیں۔
میرا یہ بھی ماننا ہے کہ دوست آپ کے سب سے بڑے رقیب بھی ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی دوست آپ کے خلاف کوئی کام کرے گا تو وہ اتفاق یا غلطی نہیں ہو گی۔ وہ آپ کو جانتا ہے کہ آپ کہاں کمزور یا طاقتور ہیں۔ وہ باقاعدہ منصوبہ بندی ہو گی اور اگر مطلوبہ نتائج نہ نکلے اور آپ کو پتہ چل گیا تو وہ فوراً معذرت کرے گا کہ یار مجھے پتہ نہ تھا‘ میرا مطلب یہ نہ تھا‘ یار جانے دے‘ معاف کر دے۔ مگر نہیں‘ وہ غلطی نہیں تھی بلکہ منصوبہ تھا جو کامیاب نہ ہو سکا۔ اگر اس دوست کو ایک دفعہ معافی دے دی تو اگلی دفعہ وہ تسلی سے نیا صاف ستھرا منصوبہ بنا کر آپ کا خاتمہ کرے گا تاکہ معافی مانگنے کی گنجائش نہ رہے۔ اجنبی لوگ آپ کو نہیں جانتے لہٰذا انہیں موقع دیا جا سکتا ہے مگر پرانے دوستوں کو نہیں۔ دوستوں سے دوری ہی بڑا انتقام ہوتا ہے‘ باقی سکور سیٹل کرنے نہیں چل پڑنا چاہیے نہ ساری عمر بہانے ڈھونڈتے رہیں کہ میں کب اسے نقصان پہنچاؤں گا۔ اگر آپ کی دوستی میں جان تھی تو اس دوست کیلئے یہ سزا کافی ہے کہ وہ آپ کی دوستی سے محروم ہوگیا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے حسنین اقبال فیس بک پر میرے پرانے دوست ہیں۔ بڑے اچھے اور دل کے صاف انسان ہیں۔ جو وہ سوچتے ہیں وہی لکھتے اور بولتے ہیں۔ اگرچہ ان سے میری بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی لیکن اکثر ہماری فون پر گپ شپ لگتی رہتی ہے کہ وہ بھی دل جلے ہیں اور ملکی حالات پر دل جلاتے رہتے ہیں۔ آج ان کی فیس بک وال پر پڑھا کہ لاہور میں ان کے ایک قریبی دوست شیخ صاحب ہیں جو پہلے گلبرگ میں رہتے تھے وہ اب ڈی ایچ اے چلے گئے ہیں۔ ان کے والد‘ جن کی عمر 92برس ہے‘ وہ اب بیٹے کے نئے گھر میں بیٹھ کر اپنے پرانے گھر اور اس میں لگے درختوں کو مِس کرتے ہیں جن کے ساتھ ان کی عمر گزری۔ شیخ صاحب اگرچہ اپنے والد کے ساتھ وقت بھی گزارتے ہیں تاکہ انہیں کمپنی ملتی رہے لیکن ان کے والد کی اپنے پرانے درختوں سے جڑی مونجھ (اداسی) نہیں جاتی۔ میں پہلے سمجھتا تھا کہ بچے والدین کی محنت سے جب زندگی میں آگے جاتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کو وہ آسائشیں دیں جو اُن کی زندگی کو آسان کریں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ اپنے تئیں جو آسائشیں اپنے والدین کیلئے تلاش کرتے ہیں وہ اس عمر میں ان کیلئے آسائشیں نہیں بلکہ آزمائشیں بن جاتی ہیں۔ مجھے اس کا تجربہ چند برس پہلے ہوا جب ورجینیا میں میرے اوکاڑہ کے دوست اکبر چودھری نے مجھے ایک پاکستانی سے ملوایا جن کا تعلق کراچی سے تھا اور اُس وقت وہ وائٹ ہاؤس میں اعلیٰ عہدے پر تعینات تھے۔ بڑے اچھے‘ پڑھے لکھے اور انتہائی سلجھے ہوئے انسان۔ ان سے کافی موضوعات پر کافی دیر بات چیت ہوتی رہی‘ امریکہ اور امریکی عوام پر۔ باتوں باتوں میں پوچھا کہ خدا نے آپ کو اتنی عزت دی‘ کسی چیز کا پچھتاوا؟ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں اور کہنے لگے کہ ایک درد ہے‘ ایک تکلیف ہے جو دل سے نہیں جاتی۔ ان کے والد کراچی میں پولیس میں تھے۔ ریٹائرڈ ہوئے تو وہ انہیں واشنگٹن لے آئے کہ اب ان کا وہاں کون خیال رکھے گا۔ کہنے لگے: میرا خیال تھا کہ وہ واشنگٹن جیسے خوبصورت شہر میں زندگی کو انجوائے کریں گے لیکن وہ ان کیلئے تکلیف دہ دن تھے۔ وہ سارا دن کراچی کی گلیوں‘ اپنے پرانے دوستوں‘ آتے جاتے مہمانوں کو بہت مِس کرتے تھے۔ آخری عمر میں ان کو بھلا واشنگٹن سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ انہوں نے آخری دن اذیت میں گزارے اور میں خودکو ان کا مجرم سمجھتا ہوں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ انسان جہاں جوان ہوتا ہے وہیں بوڑھا ہو کر رہنا اسے اچھا لگتا ہے‘ جہاں اس کی یادیں بکھری ہوتی ہیں۔ اسے نئے گھر‘ نئے شہر کچھ اچھا نہیں لگتا۔ کراچی کی گندی گلیاں یا ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی واشنگٹن جیسے خوبصورت شہر سے زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ یاد آیا کہ جب ہندوستان میں کپور خاندان کے ایک بڑے فلمی ستارے کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو فیملی نے کہا کہ آپ کو علاج کیلئے لندن لے چلتے ہیں تو اس نے جواب دیا تھا کہ یہ وقت لندن جانے کا نہیں‘ اپنے گھر جانے کا ہے‘ مجھے اپنے گھر لے چلو اور اس نے وہیں اپنی آخری مطمئن سانس لی۔
میرے میانوالی کے دوست ڈاکٹر شیر افگن کو 2012ء میں جگر کا کینسر ہوا۔ خود ڈاکٹر تھے پتہ تھا کہ بس چند ماہ باقی ہیں۔ اسلام آباد علاج کیلئے آنے سے پہلے قبرستان گئے۔ قبر کی جگہ منتخب کی۔ ہسپتال میں گھر والوں کو کہا کہ مجھے اسلام آباد سے واپس میانوالی لے جاؤ۔ میں بچپن کے پرانے دوستوں کے درمیان مرنا چاہتا ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں