امجد خان بھارتی فلموں کے بڑے اداکار رہے ہیں۔ آج کی نسل کے جو افراد اس نام سے آشنا نہیں تو ان کیلئے عرض ہے کہ بالی وڈ کی بلاک بسٹر فلم ''شعلے‘‘ میں گبر سنگھ کا کردار انہوں نے ادا کیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پہلے تو انہیں اس فلم میں کاسٹ نہیں کیا جا رہا تھا اور جب کیا گیا تو پھر یہ سوچا گیا کہ ان کی آواز گبر ڈاکو جیسی نہیں لگ رہی لہٰذا اس پر کسی اور کی رعب دار آواز میں ڈبنگ کرائی جائے‘ لیکن آخر میں فلم کو ڈبنگ کے بغیر جانے دیا گیا۔ فلم چلی اور فوراً فلاپ ہو گئی۔ شاید کسی نے امجد خان کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہو کہ اس کی آواز فلم بینوں کو پسند نہیں آئی۔ امجد خان بھی خود کو مجرم سمجھتے رہے ہوں گے کہ کیریئر میں ایک بڑا بریک تھرو ملا اور وہ بھی ضائع گیا۔ بقول بھارتی شاعر اور لکھاری جاوید اختر‘ فلم کی ناکامی پر بھارتی فلم انڈسٹری نے فلم کے پروڈیوسر‘ ڈائریکٹرز اور لکھاریوں سے اظہارِ تعزیت بھی کر لیا تھا۔ اس وقت فلم کے پروڈیوسر اور لکھاری سلیم -جاوید‘ اور اداکاروں امتیابھ بچن‘ دھرمیندر‘ ہیما مالنی اور سنجیو کمار پر کیا گزری ہو گی کہ شاید اب ان کا کیریئر ڈوب جائے گا۔ اور پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ فلم ایسی چلی کہ آج تک سینما سے نہیں اتری۔ کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی سینما میں چل ہی رہی ہوتی ہے بلکہ اب اس کو ایک نئے اختتام کے ساتھ دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس فلم کے دو اختتام فلمائے گئے تھے۔ دوسرا آج تک محفوظ ہے۔ اب خبریں آرہی ہیں کہ یہ فلم جلد ہی دوسرے اختتام کے ساتھ دوبارہ سینما گھروں میں پیش کی جائے گی۔
'شعلے‘ فلم کے امر ہو جانے والے کردار کا نام گبر سنگھ تھا جو امجد خان نے ادا کیا تھا۔امجد خان کا 1992ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ ان کا ایک بہت پرانا کلپ یا انٹرویو کہہ لیں‘ آج میری نظروں سے گزرا۔ وہ انٹرویو سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ امجد خان محض سکرپٹ پڑھ کر ہی کیمرے کے سامنے نہیں بولتے تھے بلکہ وہ ایک دانشور اور ذہین انسان تھے جن کی گفتگو میں گہرائی تھی۔ ان کا یہ انٹرویو سننے کے لائق ہے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے جو بہت ساری باتیں کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اگر گھر کا مالک شراب پیتا یا جوا کھیلتا ہے تو اُس گھر کا ملازم بھی شراب پیے گا۔ اگر مالک شراب نہیں پیے گا تو اس کا ملازم بھی کبھی یہ جرأت نہیں کرے گا۔ آپ کسی کو اسی وقت شراب پینے یا جوا کھیلنے سے روک سکتے ہیں‘ خصوصاً اپنی اولاد یا اپنے قریبی لوگوں کو‘ جب آپ خود یہ کام نہیں کرتے۔صرف باتوں سے کوئی نہیں رکے گا‘ اس کیلئے عمل کر کے دکھانا ہو گا۔ انٹرویو کرنے والی خاتون نے پوچھا کہ وہ دیگر اداکاروں کی طرح بھارتی سیاست میں آئیں گے؟ امجد خان نے سختی سے کہا کہ وہ کبھی سیاست میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ مسلسل جھوٹ نہیں بول سکتے اور سیاست کرنے کیلئے مسلسل جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ کہنے لگے کہ آپ بتائیں‘ آپ لاکھوں ووٹرز یا لوگوں کو کیسے ایک ہی وقت میں خوش رکھ سکتے ہیں اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو ان سے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں‘ اور میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ امجد خان نے کہا کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سنیل دَت کے علاوہ جتنے بھی بھارتی اداکار سیاست میں داخل ہوئے انہوں نے ذاتی فوائد حاصل کیے۔ میں سیاست سے اسی لیے دور ہوں کہ نہ مسلسل جھوٹ بول سکتا ہوں اور نہ ہی سیاست سے ذاتی فوائد حاصل کرنے کا قائل ہوں۔
امجد خان کے انٹرویو کو یہیں روک کر دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں سیاست اور سیاستدان کی کیا تعریف کی جاتی ہے‘ ایک کامیاب سیاستدان کا کیا گُر بتایا گیا ہے؟ امجد خان جیسا بڑا اداکار اگر اس نتیجے پر پہنچا تھا تو یقینا اس نے اپنے ساتھی اداکاروں اور سیاستدانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہو گا‘ ان کی محفلوں میں ان کی باتیں اور ان کے کردار اور ساکھ کو پرکھا ہوگا کہ جو بندہ سیا ست میں جاتا ہے اس کے دو ہی کام ہوتے ہیں۔ وہ اقتدار کیلئے جھوٹ بولے گا اور مسلسل بولے گا اور پھر سیاست سے ذاتی فوائد حاصل کرے گا۔ اس بات سے یہ تو ثابت ہوا کہ صرف پاکستانی سیاستدان ہی جھوٹ نہیں بولتے یا ذاتی فوائد نہیں اٹھاتے‘ یہ کام دیگر ملکوں خصوصاً بھارت میں بھی ہو رہا ہے جس کے عوام اور حکمران اسے سیکولر جمہوری ملک کہتے ہیں۔ کسی دور میں بھارت ہمارے نزدیک آئیڈیل جمہوریت تھی‘ اس کے باوجود وہاں سیاست اور سیاستدانوں کا یہ حال تھا تو اپنے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے بھارتی ریاست بہار میں ہونے والے انتخابات میں ایک امیدوار نے جیل سے الیکشن میں حصہ لیا اور چالیس‘ پچاس ہزار ووٹوں کی برتری سے جیت گیا‘ اس سیاستدان پر 22 کریمنل مقدمات ہیں۔ ایک اور صاحب تیس ہزار ووٹ سے الیکشن ہار گئے‘ ان پر بھی آٹھ مقدمات ہیں۔ اس پر میں نے ٹویٹر پر لکھا کہ آپ کی ہار کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ پر مقدمے کم تھے‘ جس پر بائیس مقدمے تھے وہ تو جیت گیا‘ لہٰذا آپ مزید جرائم کریں اور مقدمات کی تعداد بائیس‘ پچیس تک لے جائیں‘ پھر آپ بھی جیت جائیں گے۔ لوگوں کو لگے گا کہ شرما جی بڑے بدمعاش ہیں جن پر تیس کریمنل مقدمے ہیں اور یہ اب ہماری رکھشا کر سکتے ہیں۔ بھلا آٹھ کریمنل مقدموں کے ساتھ بھی کوئی بدمعاش بنتا ہے یا اپنے ووٹروں کی حفاظت کر سکتا ہے؟ چار پانچ مقدمے تو ہر چھوٹے موٹے کن ٹٹے پر ہوتے ہیں۔ چل پڑے چناؤ لڑنے۔
پاکستان میں بھی ہر سیاستدان بڑے فخر سے آپ کو بتائے گا کہ وہ جیل جا چکا ہے‘ اس پر درجنوں مقدمے ہیں اور اس کے حامی آپ کو جہاں ان کریمنل مقدمات کے فوائد گنوائیں گے وہیں وہ یہ بھی بتائیں گے کہ وہ شخص پاکستان کا نیلسن منڈیلا ہے۔ خواہ انہیں یہ علم ہی نہ ہو کہ نیلسن منڈیلا کون تھا اور کیوں جیل گیا تھا۔ انہیں یہ بھی علم نہیں ہو گا کہ نیلسن منڈیلا کی نہ لندن میں جائیداد تھی نہ پارک لین پر فلیٹس تھے‘ نہ آف شور کمپنیاں تھیں‘ نہ منڈیلا نے جنیوا کے بینکوں میں منی لانڈرنگ کے ساٹھ ملین ڈالرز رکھے تھے‘ نہ ہی اس کے دبئی میں محل اور جائیدادیں تھیں اور نہ ہی اس کے بچوں کی شوگر ملیں‘ بجلی گھر تھے اور نہ ان کے بچوں نے کرپٹو کرنسی میں سو ملین ڈالرز گنوائے تھے۔ نہ ہی نیلسن منڈیلا نے بطور تحفہ ملنے والی گھڑیاں لاکھوں ڈالرز میں دبئی میں بیچی تھیں‘ اور نہ ہی اس نے 190 ملین پاؤنڈز کے بدلے ایک ٹرسٹ کیلئے چار سو کنال زمین اور بیس کروڑ روپے کیش عطیہ لیا‘ اور نہ ہی اس کی بیگم سونے اور ہیرے جواہرات کی انگوٹھیوں کے سودے کرتی تھی۔ مزے کی بات ہے کہ آصف علی زرداری‘ نواز شریف اور عمران خان اپنے اپنے حامیوں کو منڈیلا ہی لگتے ہیں۔ اس کی وہ ایک ہی وجہ بتاتے ہیں کہ ان کا لیڈر جیل میں رہا ہے یا اب بھی ہے۔ ان کے نزدیک ان کے لیڈر سیاسی قیدی تھے یا ہیں‘ جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا‘ سب فرشتے ہیں‘ ان کے خلاف سب کارروائیاں انتقامی تھیں۔ لیکن نہ تو آصف علی زرداری ساٹھ ملین ڈالرز سے انکاری ہوئے‘ نہ شریف فیملی نے لندن فلیٹس میں رہنا بند کیا اور نہ ہی عمران خان تحائف میں ملنے والی گھڑیوں کی خرید و فروخت یا بزنس ٹائیکون سے چار سو کنال زمین‘ یا ان کی اہلیہ ہیرے کی انگوٹھیوں سے انکاری ہوئیں۔ سب نے سب کچھ لیا اور نیک بھی بنتے رہے۔ سیاست بھی کر لی‘ مال بھی کما لیا‘ جیل بھی دیکھ لی اور نیلسن منڈیلا کا خطاب بھی لے اڑے۔ اندازہ کریں کہ اس لیول تک پہنچنے کیلئے سیاستدانوں کو کتنے برسوں تک مسلسل جھوٹ بولنا پڑتا ہے‘ پھر کہیں جا کر وہ کندن بنتے ہیں۔ امجد خان مسلسل جھوٹ بول سکتا تھا نہ ہی مالی فوائد لے سکتا تھا اس لیے وہ سیاستدان نہیں بن سکا ۔ یہ ہنر اور فن خدا ہر کسی کو دان نہیں کرتا کہ آپ رِند کے رند رہیں اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔