پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں نہ تو گورننس سے جڑے مسائل اہمیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کو بنیادی ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں گورننس کا بحران ہے اور مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی اس بحران میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں نئے صوبوں کی تشکیل اور مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کا ذکر ملتا ہے لیکن جب سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو ان کی ترجیحات یکسر بدل جاتی ہیں اور وہ اختیارات کو اپنی حد تک محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور لوگوں کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد ڈانواں ڈول ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا مقدمہ بھی کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل پر بات ہو رہی ہے اور ساتھ ساتھ مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں پنجاب گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود کی جانب سے نئے صوبوں کی تشکیل کی جو بحث قومی سیاست میں شروع کی گئی ہے اس کو کافی پذیرائی مل رہی ہے کیونکہ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ ان کے مسائل کا حل موجودہ نظام میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک میں نئے صوبوں کی بحث یا مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کی بات ہوتی ہے تو لوگوں کو اس میں اپنے مسائل کا حل نظر آتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ نئے صوبوں کی تشکیل اور مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بنانے سے مقامی مسائل کے حل میں کافی مدد ملے گی۔ اگرچہ بہت سے افراد یا بڑی سیاسی جماعتوں کے لوگ نئے صوبوں کی تشکیل کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں‘ بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو نئے صوبوں کی تشکیل پر تحفظات ہیں۔ یہ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ نئے صوبوں کی تشکیل سے ان کی سیاسی طاقت کمزور ہو جائے گی۔ یہ جماعتیں طویل مدت تک اقتدار کا حصہ رہی ہیں‘ اب بھی اقتدار انہی کے پاس ہے لیکن یہ نہ تو نئے صوبے بنا سکیں اور نہ مقامی حکومتوں کا نظام ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد خیال یہ تھا کہ صوبوں میں سیاسی‘ انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کو مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ جوڑ کر مضبوط بنایا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتیں روایتی سیاست کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ سیاست میں جو نئے نظام متعارف ہو رہے ہیں یا دنیا میں جو نئی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ہماری سیاسی جماعتیں ان سے سیکھنے کو تیار نہیں۔ جدید حکمرانی کا نظام ہر صورت میں ہماری سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ اب مسائل کا حل مقامی آبادی کی شراکت سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوں گے یا نئے انتظامی یونٹس نہیں بنیں گے لوگوں کے مسائل کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل سے ریاست اور حکومت پر سیاسی اور مالی بوجھ میں اضافہ ہوگا حالانکہ نئے یونٹس بنیں گے اور مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام سامنے آئے گا تو اس سے وسائل کی مالیاتی تقسیم میں منصفانہ نظام رائج ہو گا‘ جو ترقی بڑے شہروں تک محدود ہے اس چلن میں تبدیلی آئے گی اور ترقی کے نئے دھارے اضلاع اور تحصیل کی سطح پر بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ عمل لوگوں میں حکمرانی کے نظام پر اعتماد کو بحال کرے گا۔ سیاسی جماعتوں کو اور بالخصوص حکمران سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اب مسائل کا حل اسلام آباد یا صوبائی دارالحکومتوں تک محدود نہیں رکھا جا سکتا‘ نہ ہی یہاں بیٹھ کر پورے ملک کے نظام کو منصفانہ انداز میں چلایا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کو ایک نیا صوبہ بنایا جائے۔ اس سے پہلے یہ مطالبہ ایم کیو ایم بھی کر چکی ہے اور ایم کیو ایم نے نئے صوبوں کی تشکیل کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ عبدالعلیم خان بھی نئے صوبوں کی تشکیل کے حامی ہیں۔ اہلِ دانش اور چھوٹے اضلاع کے سیاسی اور سماجی کارکن بھی نئے صوبوں کی تشکیل اور مضبوط مقامی حکومتی نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ میاں عامر محمود نے نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے پہلے اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا اور اب لاہور میں انہوں نے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں نئے صوبوں کی تشکیل کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا بجا ہے کہ مقامی سطح پر ترقی کا عمل نئے صوبوں کی تشکیل اور مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ نئے صوبوں کی تشکیل یا مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کو نظر انداز کیا گیا تو ہمارا حکمرانی کا نظام مزید مسائل پیدا کرے گا۔
سیاسی جماعتوں کو نئے صوبوں کی تشکیل یا مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ نظام لوگوں کی مقامی سطح پر خواہشات کے عین مطابق ہے۔ اس لیے اگر ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل اور مقامی حکومتوں کے نظام پر ریفرنڈم بھی کروا لیا جائے تو لوگ اسی کے حق میں ووٹ دیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو حکمرانی کے نظام کی اصلاح کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اور فیصلے کرنا ہوں گے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے عوام میں موجود سیاسی اور معاشی بے چینی کو محسوس نہ کیا اور اصلاحات نہ کیں تو سیاسی جماعتوں کی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ اس لیے یہ سیاسی جماعتوں کا بڑا امتحان ہے کہ وہ لوگوں کے مسائل کے ساتھ خود کو کھڑا کرتی ہیں یا طاقت کے مرکز میں موجود اختیارات کو اپنے تک محدود رکھنے کی پالیسی کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں ملک میں جو سیلاب کی صورتحال ہے اور اس کے نتیجے میں جو تباہ کاریاں ہو رہی ہیں وہ کافی خوفناک ہیں۔ آج ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام ہوتا تو ہم ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ بات اسی پر ہو رہی ہے کہ ہمیں اس قسم کا نظام قائم کرنا چاہیے جو لوگوں کی ریاست اور حکومت تک رسائی آسان بنائے اور لوگوں کو مقامی فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نہ صرف جماعتی سطح پر بنیادی نوعیت کی اصلاحات کریں اور لوگوں کو اپنے قریب لانے کی کوشش کریں بلکہ ملک میں حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنانے کی ترجیحات بھی ان کا حصہ ہونی چاہئیں۔ ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل اور مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کو بڑی مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھانا ہو گا۔ اگر اس بحث میں سیاسی جماعتیں حصہ لیں اور اپنا اپنا نقطہ نظر عوامی توقعات کے مطابق پیش کریں تو اس سے ہمیں حکمرانی کے نظام میں اصلاحات لانے میں مدد ملے گی۔ اگر سیاسی جماعتیں بنیادی نوعیت کی اصلاحات سے گریز کرتی یا نئے انتظامی ڈھانچوں کی تشکیل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں تو اس سے سیاسی جماعتوں اور عوام کے درمیان تعلق کمزور ہو گا جو سیاسی جماعتوں کے اپنے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اصل طاقت عوام ہیں‘ اس لیے ان کو چاہیے کہ عوامی ترجیحات کو بنیاد بنائیں۔ ایک گلہ یہ کیا جاتا ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں اور حکومتوں کو کام کرنے نہیں دیتی‘ لیکن اہم بات یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کو اقتدار ملتا ہے تو وہ نظام کے اندر بنیادی نوعیت کی اصلاحات سے گریز کیوں کرتی ہیں؟ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ سیاسی جماعتوں سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں‘ ان غلطیوں کا اعتراف کر کے وہ اپنے لیے نئی امید پیدا کر سکتی ہیں۔ اب بھی ان کے پاس موقع ہے کہ روایتی نظام سے نکلیں اور ایسے نظام کی حمایت کریں جو ریاست‘ حکومت اور عوام کے تعلق کو مضبوط بنائے۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ موجودہ نظام اب ہماری ضرورت کے مطابق آگے نہیں بڑھ سکتا‘ آگے بڑھنے کیلئے ہمیں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی اور میڈیا کو نئے نظام کی بحث کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ اتفاق رائے سے ایک ایسے نظام کی طرف بڑھ سکیں جو لوگوں کی توقعات اور مسائل کو حل کرنے میں مدد دے۔