کہاں سے آئے‘ اتنے بزرجمہر‘ اتنے سقراط‘ایسے ایسے بقراط‘ جن کے سامنے دانش و حکمت پانی بھرتے ہیں ۔کہاں سے آئے‘ اتنے سائنس دان ‘فوج در فوج۔دیسی زبان بولتے ہوئے گندمی رنگ کے آئن سٹائن‘میکس ویل اورنیوٹن ۔کہاں سے ٹپک پڑے اکیسویں صدی کے جالینوس اور ابن سینا ؟جوہری دور کے صلاح الدین ایوبی‘ ٹیپو سلطان ‘سکندر اعظم اورذوالقرنین؟ایسی ایسی جنگی پیش بینی اور حکمت عملی تو ان مشاہیر کے حصے میں بھی شاید نہیں آئی ہوگی۔ہر صبح بحرِ خواب سے نکلتا ہوں تو بحر تحیر میں غرق ہوجاتا ہوں۔ہر طرف علم اور حکمت کے موتی بکھرے پڑے ہوتے ہیں؛حالانکہ جہاں تک ذہن پر زور ڈالتا ہوں‘ یہ قوم وہ ہے‘ جس کی شرح خواندگی قابل فخر کیا قابل ذکر بھی نہیں۔دانائی‘ زیرکی اور عقلمندی میں؛ اگرچہ تر دماغوں میں شمار ہوتی ہے‘ لیکن دنیا میں کوئی بڑے کارنامے اس سے منسوب نہیں ہیں۔
ذرا سوشل میڈیا کی دنیا کو دیکھیں۔آپ بھی انگلیاں کاٹنے لگیں گے کہ یہ تماشا ہو کیا رہا ہے۔متفقہ نالائق‘ تعلیمی نظام بہتر کرنے کے طریقے بتا رہے ہیں۔غیر متنازع نکمے‘ لوگوں کو کاہلی کے نقصانات سے آگاہ کر رہے ہیں۔جو ہمارے سامنے سکولوں کالجوں سے بھاگے اور مدرسوں سے نکالے گئے ‘وہ قوم کو معاشی مشکلات سے نکلنے کا حل سجھا رہے ہیں۔جو اردو کے حروف تہجی نہیں بتا سکتے ‘وہ لغت پر بات کر رہے ہیں۔ پہلے تولو اور پھر بولو کا دانش مندانہ محاورہ چاروں شانے چت زمین پر پڑا ہے اور بڑبولا پن اس کے سینے پر چڑھ کر اسے رگید رہا ہے۔
روز ایک انبار موبائل میں جمع ہوجاتاہے؛ ویڈیوز‘ نصائح‘ اقوال زریں‘حکمت و دانش کی باتیں‘گھریلو ٹوٹکے‘ ہنڈ کلھیا میں دیگی قورمہ بنانے کے طریقے ‘طبی جواہرات‘ جن میں گردے کے امراض سے لے کر بند شریانیں کھولنے تک کے شرطیہ اور مجرب نسخے مفت فراہم کیے گئے ہیں۔واقعات جن میں پڑھنے والے کو آخر میں اخلاقی مار ماری گئی ہے۔ عبرت انگیز حکایات‘ جن کے آخر میں پوسٹ فارورڈ نہ کرنے والوں کو عبرت ناک انجام کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔سیاسی ‘مذہبی‘مسلکی طعنے۔ طنز‘تضحیک اور تمسخر میں لتھڑے جملے‘جن میں باید و شاید ہی کوئی کار آمد بات ہو ---اور جن کی پہلی اور آخری کامیابی یہ ہوتی ہے کہ لکھنے والے کے دل کی بھڑاس نکلی ہوگی۔
کسی ایک طبقے تک معاملہ محدود نہیں ۔جو لوگ سرکاری عہدے پر ہیں ‘ظاہر ہے سب کا نہیں‘ لیکن اکثر کا معاملہ شاید بد ترین صورت ہے۔بیسیوںفوجی اور سویلین ریٹائرڈ افسران ہمارے درمیان موجود ہیں‘ جو ہر ایک کو درس دینا اور نصیحت کرنا اپنا حق اور فرض سمجھتے ہیں۔ جس ادارے میں ساری عمر شہنشاہی کی ‘وہاں اگر بالائی آمدنی سے پرہیز بھی کیا جو کہ اکثر نے نہیں کیا‘ تب بھی تنخواہ اور مراعات میں سے ایک حبہ نہیں چھوڑا۔تمام دورِ افسری میں عام آدمی ان کے قریب نہیں پھٹک سکا۔جن کے ماتحت ان کے عذاب سے بچنے کی دعائیں مانگتے ان کے سامنے حاضر ہوتے تھے۔یہ جب ریٹائر ہوئے تواس شان سے ریٹائر ہوئے کہ وہ ادارہ ایسی پاتال میں جاچکا تھا‘ جہاں سے اسے ڈول ڈال کر بھی نکالنا مشکل تھا۔فارغ ہوتے ہی ہر شخص اور ہر طبقے پر گرجنا برسنا شروع کیا۔ٹاک شو ز‘کالم‘ فیس بک ‘ٹوئٹر اپنی گرج چمک سے بھر دئیے ۔رہے عام لوگ تو وہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسی طرح رل رہے ہیں ‘جیسے ان کے دورِ حاکمیت میں۔؎
تقدیر تو خیر کیا بدلتی
زنجیر بدل گئی ہماری
مسئلہ ریٹائرڈ افسران کا ہی نہیں‘حاضر سروس تو پھر زیادہ با اختیار ہوئے تو انہیں کون پوچھ سکتا ہے۔لوگوں کے خون پسینے سے ادا کیے ہوئے ٹیکس سے بھاری تنخواہوں اور قابل رشک مراعات لینے والے ہمہ وقت فیس بک ‘ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر مصروف ہیںاور ان کی زیادہ تر مصروفیت معاشرے کے بگاڑ پر اخلاقی مواعظ کی ہے‘ جن کی ادائیگی سے انہیں اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے دفتری کام کی طرف توجہ دے سکیں۔سوشل میڈیا پر ایک خاتون کو کافی پہلے سے جانتا ہوں۔اب ‘وہ اک بڑی وفاقی وزارت کی ترجمان ہیں۔خود کہتی ہیں کہ ایکٹوسٹ بننے کا کیڑا ان کے دماغ میں ہے؛ چنانچہ یہ کیڑا ان سے کچھ نہ کچھ الم غلم کہلواتا رہتا ہے‘لیکن اصلاحی کیڑے کا مسئلہ ہوتا تو خیر تھی ‘اصل مصیبت اس اژدہے کی ہے‘ جو ان کے اندر سے وقتا فوقتا باہر نکلتا رہتا ہے۔خود ان کے ادارے کا حال یہ ہے کہ لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔کوئی والی وارث ہی نہیں۔مجبوری میں سفر کرنے والے جھولیاں پھیلا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔کوئی مداوا کرنے والا ہی نہیں نہیںاور ترجمان صاحبہ قوم کی اخلاقیات سے لے کر معاشیات تک ہر چیز کے بارے میںلیکچر دے رہی ہیں۔طنز فرما رہی ہیں اور ہر طبقے کو رگید رہی ہیں۔کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا کہ محترمہ آپ دفتری اوقات میں اس طرح سوشل میڈیا سے کیسے اور کیوں چپکی ہوئی ہیںاور اس محکمے کی ابتر حالت کے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہہ پاتیں یا کر پاتیں‘ جس کی کرسی پر بیٹھنے کی آپ ماہانہ قیمت لیتی ہیں۔یاد ہوگا سب کو کہ اخبارات کی سنسنی خیزی کے دور زیادہ پرانے نہیں ۔شام کے اخبارات نکلتے تو عموما ایسی سرخی لگاتے کہ دل کھنچ کر حلق میں آجاتا۔صبح کے بڑے اخبارات کا چلن اور تھا۔نسبتاً متین اور سنجیدہ معیاری صحافت کے قواعد اور اس کو نبھانے والے موجود تھے‘لیکن پھر لاہور سے ایک دو اخبارات شروع ہوئے ؛ چیختے‘ چنگھاڑتے ‘سنسنی پھیلاتے‘روایات بدلتے اخبارات۔ اس رویے کا آغاز ہوا ‘جہاں تجارت کو صحافت پر ترجیح حاصل تھی ۔ایک عشرے سے زیادہ یہی اخبارات نشر و اشاعت کے منظر نامے پر ہیجان انگیزی کا یہ فریضہ انجام دیتے رہے؛ تاوقتیکہ نئے ٹی وی چینل نمودار ہوئے۔سیاسی ٹاک شوز آغاز ہوئے اور یہ باگ ڈور انہوں نے سنبھال لی ۔سیاسی ٹاک شوز نے گرما گرمی ‘لڑائی ‘ مارکٹائی اور رگڑائی کی وہ نئی داستانیں رقم کیں کہ لوگ شام کے اخبارات کو بھول گئے۔ ٹی وی میزبانوں نے مرغوں کو لڑانا شروع کیا اور لڑتے لڑتے کسی کی چونچ اور کسی کی دم گم ہونے لگی ۔ یہ منظر بھی سامنے عام ہوگیا کہ ایک سیاسی مہمان پورے جوش و خروش سے اسی پارٹی کی وکالت کر رہاہے ‘جس کی مذمت میں اس نے گزشتہ پروگراموں میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ہر ٹی وی چینل پر ریٹنگ کیلئے جنگیں بپا ہونے لگیں‘جن میںاصل فتحیاب صرف میزبان اور ٹی وی چینل ہی ہوتا تھا۔یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ فیس بک مطلعے پر نمودار ہوئی ۔اس کے ساتھ یو ٹیوب نے سر اٹھایا۔ان دونوں کے ساتھ مل کر واٹس ایپ‘ ٹوئٹر‘انسٹا گرام نے لوگوں کو ٹی وی کے سامنے سے اٹھا دیا۔وہ لوگ جو نہ اخبارات میں شرکت کرسکتے تھے ‘نہ ٹی وی چینلز پر۔ان کے ہاتھ ایک ایسا استرا آگیا‘ جس سے وہ ہر ایک کی ناک کاٹنے کا فریضہ انجام دے سکتے تھے۔کسی مخالفت کو ہردیوار پھلانگ کر مخاصمت بنا سکتے تھے ‘ہر ایک کے کپڑے اتار سکتے تھے۔ظاہر ہے کہ سنجیدہ اخبارات بھی موجود ہیں اور معیاری چینلز بھی اور سوشل میڈیا بھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں‘ لیکن اس نقار خانے میں طوطی کی آواز سن کون رہا ہے۔
سو‘ اب مفر کہیں نہیں۔برے اخبارات سے بچیں گے تو برے چینل گھیر لیں گے‘وہاں سے منہ پھیریں گے تو سوشل میڈیا توگھس بیٹھیے کی طرح ہر وقت آپ کی شہ رگ دبوچے ہوئے ہے۔ایک تصویر یار ہے‘ جو ہر وقت آپ کی جیب میں پڑی ہے ۔آپ اس کی قباحتوں کو جانتے ہوئے بھی اس سے بچنا چاہیں گے‘ لیکن بچ نہیں سکیں گے۔ایک دن آپ کو احساس ہوگا کہ یہ مجھے چاروں شانے چت گرا چکی ہے۔اقبالؔ نے کہا ہے۔؎
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم ‘ جواں ہیں لات و منات