"SUC" (space) message & send to 7575

چھ روپے آٹھ آنے کا خزانہ

پرانی بھولی بسری ڈائری سے واقعی خوشبو پھوٹ پڑی تھی یا میرے وہم کا کرشمہ تھا ؟ خوشبو بھی وہ جس میں بہت سی خوشبوئیں شامل تھیں۔ سمن آباد موڑ والے گھر کے صحن میں موتیے کی مہک‘ نیو کیمپس میں نہر کنارے سبزہ زار اور شانت نہر کے آبِ رواں کی ملی جلی سوندھ‘باغِ جناح میں جگنوؤں بھرے خشک نالے کے قریب گھنے کنج کی وحشی ہبکار‘کراچی میں سمندر کی نم‘ رسیلی اور مرطوب ہوا کی بُو اور مری کی خنک اور ٹھنڈ بھری مہکار سب شامل تھیں۔ یہ سب مل کر ایک خوشبو میں ڈھل گئی تھیں جو ہرگز باسی نہیں تھی۔
پرانے کاغذات پرانی یادوں کی طرح ہوتے ہیں۔موتیوں بھری مالا کی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے۔ایک دانے پر ہاتھ رکھو تو دوسرے کا لمس بھی محسوس ہوتا ہے۔کل کسی تلاش میں ایک پرانی پٹاری کھول بیٹھا۔الّم غلّم کاغذات الٹتے پلٹتے ایک نیلے رنگ کی مجلد نوٹ بک ہاتھ میں آگئی۔مجھے ٹکر ٹکر دیکھتی ہوئی۔جیسے کسی بہت دن بعد ملنے والی کی آنکھوں میں شکوہ ہو‘ مگر لب نہ ہلیں۔سننے والے کے لیے اس سکوت سے بڑا شکوہ کیا ہوسکتا ہے۔میں نے کاغذات ایک طرف رکھے‘تلاش موقوف کی اور پٹاری بند کرکے نیلی نوٹ بک کو لے کر بیٹھ گیا۔اُس کا تو پتا نہیں لیکن اس کے لمس نے میری آنکھوں میں موتی ہی موتی بھر دیے۔
میرے والد جناب زکی کیفی اردو فارسی کے باکمال شاعر اور صاحبِ دل شخص تھے‘ صاحب ِ ' 'کیفیات‘‘۔ ان کی زندگی میں اگرچہ ان کی کتابوں کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی لیکن ایک دن ساتویں آٹھویں جماعت کے طالب علم کے ہاتھ میں ایک موٹی سی کاپی آگئی جس کے شروع کے صفحات میں ان کے خوبصورت خط میں ' ' کہکشاں‘‘ لکھا ہوا تھا اور یہی اس کاپی کا عنوان تھا۔اندر والد گرامی کے نہایت خوبصورت خط میں ان کے پسندیدہ اردو اور فارسی اشعار درج تھے۔ ہر بڑے شاعر کا نام لکھ کر اس شاعر کیلئے کچھ صفحات مختص تھے اور ان صفحات میں اس کے پسندیدہ شعر لکھے تھے۔کاپی جلدی جلدی دیکھی اور وہیں واپس رکھ دی۔شعر پسندی کی وبا ویسے بھی ان دنوں عام تھی اور ہمارے گھر میں اس کے جراثیم کچھ زیادہ ہی تھے۔میری دونوں بڑی بہنوں نے شعری انتخاب کی اپنی اپنی ڈائریاں بنائی ہوئی تھیں جن تک کبھی کبھی رسائی ہو بھی جاتی تھی۔تو یہ خود بخود ذہن میں طے ہوگیا کہ ایسی ہی ایک ڈائری مجھے بھی بنانی ہے۔خود کو سخن فہم ثابت کرنے کیلئے یہ نہایت ضروری اقدام تھااعلیٰ‘دبیز‘ملائم‘لائن دار کاغذ کی ضخیم نوٹ بک مضبوط نیلے رنگ کی جلد والی تھی اور اسے چھ روپے آٹھ آنے کے زرِ کثیر سے خرید کر اس کے ریشمی صفحات پر ہاتھ پھیرتے رہنا ایک آسودگی بخش عمل تھا۔شعر درج کرنے کا مرحلہ آیا تو سب سے پہلے والد ِ گرامی کی کہکشاں نکالی جو اب ان کے انتقال کے بعد رسائی کی حدود میں تھی۔پھر یہ بھی ضروری تھا کہ اس نیلی نوٹ بک میں کوئی شعر یا مصرع لکھ کر کاٹا ہوا نہ ہو کہ یہ اسے داغ دار کرنے والی بات تھی۔ہر شاعر کو پسندیدگی کے مطابق زیادہ یا کم صفحات عطاکئے۔پہلے کہکشاں سے وہ سارے شعر لکھنے شروع کیے جو پسند تھے یا سمجھ میں آجاتے تھے یا کم از کم لطف بہت دیتے تھے۔یہ مرحلہ ختم ہوا تو اپنی پسند کے شعر لکھے۔ اس مزے دار کام سے سیری ہی نہ ہوتی تھی۔ بس وہی حال کہ لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم۔اور اس داستانِ دراز میں یہ کبھی نہیں سوچا گیا تھا کہ بطور شاعر کبھی میری اپنی شناخت بننی ہے۔یہ کون جانتا تھا کہ کبھی کسی وقت کسی نوٹ بک میں میں خود اپنے شعر بھی لکھوں گا‘ اور میرے شعر کوئی اور کسی نوٹ بک میں لکھ رہا ہوگا۔ کسی نے کہا ہے کہ دکھ کی پرورش کرو تو وہ جوان ہوجاتا ہے۔میں نے شوق کی پرورش کی سو یہ بھی جوان ہوتا گیا۔ صفحات بہت تھے اور شعر لامتناہی۔ صفحات بھرتے گئے۔ کلاسیکی‘جدید‘جدید تر‘جدید ترین۔غرضیکہ ہر عہد‘ ہر دور کے شعرلکھتا گیا۔پھر آخر کار مخصوص قلم اور مخصوص سیاہ روشنائی سے لکھنے کا التزام ختم ہوا اور نیلی سیاہی سے بھی اشعار جابجا نظر آنے لگے۔ میں جہاں جاتا‘یہ میرے ساتھ جاتی۔ گھر‘کالج‘ یونیورسٹی‘ لارنس گارڈن‘اسلام آباد‘مری‘کراچی۔نیلی نوٹ بک میرے ساتھ تھی۔ ادھر کافی سال پہلے بات شعر فہمی سے آگے بڑھ چکی تھی اور شعر گوئی کا آغاز ہو چکا تھا۔ اب اپنے شعر الگ نوٹ بک پر لکھے جانے لگے۔چھوٹی سی عنابی ڈائری نے نیلی نوٹ بک کے ساتھ شرکت شروع کی اور آہستہ آہستہ زیادہ توجہ حاصل کرنا شروع کی۔محبت میں شراکت کسے گوارا ہوتی ہے۔پہلے نیلی محبوبہ نے کبھی کبھی سکوت اختیار کیا اور پھر لمبے عرصے کے لیے بول چال بند ہوگئی۔وقفے وقفے سے میں اسے منا لیتا تھا لیکن... اور یہ لیکن بہت بڑالیکن تھا۔درمیان کے کتنے ہی سال یاد آئے اور اپنی کتنی ہی بے وفائیاں۔آج برسوں بعد پھر بے وفا کو بچھڑی ہوئی محبت ملی تو ہر صفحہ‘ہر شعر ایک منظر کے ساتھ تازہ ہوتا گیا۔ برسوں بعد ورق گردانی کی تو بہت سے بیتے ہوئے لمحے‘ بہت سے عکسِ رواں شعروں کے ساتھ متحرک ہوگئے۔کس کس جگہ بیٹھ کر یہ شعر لکھے تھے اور کیسی کیسی کیفیت کے ساتھ۔ یہ دیکھئے سرخ اینٹوں والے صحن میں موتیے کی تازہ مہک کے ساتھ میر تقی میرؔ کے بیٹے میر عسکری اپنے شعر کے ساتھ کیا کہہ رہے ہیں۔ 
یہ دستِ نحسِ جنوں جب سے پیرہن کو لگے
جو ایک تار ہو باقی مرے کفن کو لگے
اور یہ اردو کی ابتدائی شاعرہ مہ لقا چندا بائی ہے۔ لارنس گارڈن میں ایک خشک نالے میں جلتے بجھتے جگنوؤں سے بھری ہوئی رات میں قریب کے ایک خوشبو دارکنج میں بیٹھی ہوئی۔
پھول بننے کی توقع میں جیے بیٹھی ہے 
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے
یہ شیخ ابراہیم ذوق ہیں۔ گرمیوں کی ایک خاموش اور سنسان دوپہر میں کلام کرتے ہوئے۔ 
مستی و نا آشنائی‘ وحشت و بیگانگی 
یا تری آنکھوں میں دیکھی‘ یا ترے دیوانے میں 
اور یہ مصحفی ہیں۔ایک بہار بھری اتوار کی صبح میں ناقدری ٔدوراں کا گلہ کرتے ہوئے۔ 
چلی بھی جا جرسِ غنچہ کی صدا پہ نسیم 
کہیں تو قافلہ نو بہار ٹھہرے گا 
ڈھیر سارے صفحات پلٹنے پر احسان دانش سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ انارکلی کے جہان دانش میں ایک بالا خانے میں کتابوں اور دواوین کے ڈھیر کے درمیان اس تخت پر بیٹھے ہوئے جسے دیوان کہا جاتا تھا۔ 
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر 
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
اوریہ میرے والد زکی کیفی ہیں جو صائب تبریزی کا شعر آ ہ بھر کر پڑھ رہے ہیں۔
آہستہ برگ گلِ بفشاں بر مزارِ ما 
بس نازک است شیشہ دل در کنارِ ما
(اے پھول کی پتّی ! میری قبر پر آہستہ سے گرنا۔کیوں کہ میرے پہلو میں میرا شیشۂ دل بہت نازک ہے )
نیلی نوٹ بک کیا کھلی۔ بہت سے زخم کُھل گئے۔میں نے اتنے شعر دہرائے۔ نیلی نوٹ بک نے اپنے ہی شعر مجھ سے سنے۔میں چپ ہوا تواس نے جناب زکی کیفی کاایک شعر زیرِ لب سنا دیا۔ حسبِ حال ہے۔ آپ سنیں گے ؟ میں بآواز بلند دہرا دیتا ہوں۔
جگہ جگہ سے ہے صد چاک دامنِ ہستی 
رفو کریں بھی تو کیفیؔ کہاں کہاں سے کریں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں