ایک بلند پہاڑ پاکستان کے شمالی علاقوں میں پاکستان کی پہچان ہے۔ یہ بلند چوٹی جسے مقامی لوگ شاہ گوری کے خوب صورت نام سے پکارتے ہیں،مغربی کوہ پیماؤں کے دئیے ہوئے کے ٹو کے نام سے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ دور دور سے سیاح اس کی ایک جھلک دیکھنے آتے ہیں اور وہ بھی ہیں جن کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ اس چوٹی کی ڈھلوانوں پر کچھ وقت گزارنا تھا۔ یہ تجربہ ان کی زندگی کے آخری سانسوں تک ان کا سب سے یادگار تجربہ رہتا ہے۔
لیکن مژدہ ہو کہ ایک چوٹی سطح سمندر کے بالکل پاس بھی بلند ہورہی ہے۔ اس کا نام بھی کے ٹو ہے اور اسی کے ساتھ ایک تیسری چوٹی بھی کے تھری کے نام سے اس کی ہمسایہ ہے۔ پیراڈائز پوائنٹ کراچی کے خوبصورت ساحلوں میں ایک اہم ساحل ہے۔ وہی پیاری جگہ جہاں پانی اور ہوا نے مل کر پہاڑوں میں ایک گول دروازہ تخلیق کردیا ہے۔ پیراڈائز پوائنٹ پر ‘جہاں نہ جانے کتنے ہزار سال سے جھاگ اڑاتی موجیں سنگلاخ چٹانوں سے سر پھوڑ رہی ہیں، اب ایک سربلند کمپلیکس اس کشمکش کے عینی شاہدوں میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ تو ایک زمانے سے علم تھا کہ بحر عرب کے نیلے پانیوں کے کنارے اس خوبصورت جزیرہ نما سے توانائی کا ایک دھارا عنقریب پھوٹ بہنے والا ہے لیکن کل جب یہ خبر آئی کہ کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ KANUPP یونٹ 2 میں نیوکلیئر ایندھن بھرنے کا آغاز ہوگیا ہے تو یہ بہت سی بری اور پریشان کردینے والی خبروں کے بیچ ایک بہت اچھی خبر تھی۔ یہ ایک بڑا سنگ میل ہے جس کی مبارک باد پوری پاکستانی قوم کو ملنی چاہیے۔ ستمبر2020 میں بھی کے ٹو کے تھرمل ٹیسٹ مکمل ہونے کی خبر آئی تھی اور اگلے قدم کا انتظار تھا‘ اور اب اس اگلے اور حتمی قدم کا انتظار شروع ہوگیا ہے‘ جب یہ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہونا شروع ہوگی۔
انگریزی کا محاورہ پریشانی کے پردے میں خوشی (Blessings in Disguise) پاکستان کے نیوکلیئر معاملات پر تو بالکل پورا اترتا رہا ہے۔ بھٹو دور میں جب فرانس نے ری پروسیسنگ پلانٹ کے تحریری معاہدے سے ہاتھ کھینچا تھا‘ جو پاکستان کے جوہری طاقت بننے کی بنیاد بن سکتا تھا، تو پوری قوم کو سخت مایوسی ہوئی تھی‘ لیکن اس کے پردے میں جو کامیابیاں پوشیدہ تھیں‘ اب وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نہ یہ سب ہوتا، نہ دیگر ذرائع کی تلاش ہوتی، نہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے دل میں اس کڑے وقت میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی خواہش جاگتی اور نہ پاکستان جوہری طاقت بن کر دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوتا۔ اسی طرح جب توانائی کے حصول کے لیے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے نیوکلیئر پاور پلانٹ شروع کیا گیا اور جنرل الیکٹرک کینیڈا‘ جو اس منصوبے کے ڈیزائنر تھے، نے مغربی طاقتوں کے ایما پر اس پراجیکٹ سے ہاتھ کھینچ لیا اور سپیئر پارٹس فراہم کرنے سے انکار کردیا تو باہمت انجینئرز نے کام بند کردینے کے بجائے یہی کام ملک کے اپنے وسائل سے کر گزرنے کی ٹھانی اور یکے بعد دیگرے کئی کامیابیاں حاصل کرتے چلے گئے۔
یہ بات ہم پاکستانیوں کیلئے کتنی خوشی اور اعزاز کی ہے کہ کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ مسلمان ملکوں میں پہلا تجارتی نیوکلیئر پاور پلانٹ تھا۔ ایوب خان کے دور میں جوہری طاقت سے توانائی کشید کرنے کا یہ منصوبہ شروع ہوا اور بعد از خرابیٔ بسیار 28 نومبر 1972 کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل گرڈ میں بجلی شامل ہونے کی تقریب کا افتتاح کیا۔ پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام شروع کیا تو دنیا بھر کی نظریں اس پر مرتکز ہوگئیں۔ ایک زمانے کی مخالفت اور دباؤ کے باوجود ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ اس موقع پر کینیڈا نے کینپ کیلئے یورینیم، بھاری پانی، فاضل پرزوں اور فنی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ یہ وہ موقعہ تھا جب کراچی تابکار مواد کے خطرے میں گھرا ہوا تھا۔ کینیڈا اور دیگر طاقتوں کا اندازہ تھا کہ یہ پروگرام چھ ماہ کے اندر ختم ہوکر رہ جائے گا‘ لیکن پاکستان نے یہ تمام چیزیں اپنے ذرائع سے حاصل کرنے کا آغاز کیا اور کام رکنے نہیں دیا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اپنی مشینری، ٹریننگ کا سلسلہ شروع کیا اور 1979 تک بھاری پانی اور ڈیوٹریم آکسائیڈ کا مقامی طور پر بندوبست کرلیا۔ بہت سے پرزہ جات مقامی مشینری میں تیار ہونا شروع ہوگئے۔ ان تجربات اور حفاظتی اقدامات کا چینی انجینئرز سے تبادلہ کیا گیا اور یہ سب 1993 میں چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے میں کام آیا۔
لیکن وہ بات تو پرانی ہوگئی۔ قابل اعتماد دوست چین نے جب کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کی توسیع اور اپنے ساختہ پلانٹس کے ذریعے مزید توانائی کی پیداوار میں دلچسپی ظاہر کی تو ایک نیا معاہدہ ظہور پذیر ہوا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحت 20 اگست 2015 کو کے ٹو کی اور یکم مئی 2016 کو کے تھری کی تعمیر اور پلانٹ کی تنصیب کا آغاز ہوا۔ چین کے لیے بھی یہ دونوں پلانٹس اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کے ملک سے باہر یہ پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹس ہیں۔ کے ٹو اپنے طے شدہ وقت اپریل 2021 میں بجلی کی پیداوار نیشنل گرڈ میں شامل کرنا شروع کردے گا۔ ایندھن بھرنے کا آغاز ہو رہا ہے‘ اگلے دو تین ماہ حفاظتی اقدامات کی جانچ پڑتال میں گزریں گے۔ پلانٹ کی نگرانی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے تحت ہورہی ہے۔ اس کے دس ماہ بعد کے تھری کی تنصیب بھی مکمل ہوجائے گی اور پراسیس سے گزرنے کے بعد یہ بھی 2022 میں بجلی کی پیداوار شروع کردے گا۔ ان دونوں پلانٹس کی گنجائش مل کر 2200 میگاواٹس ہے۔ توقع ہے کہ 2000 سے زائد یہ میگاواٹس کراچی انڈسٹری اور ملک کے دیگر علاقوں کے لیے ایک اہم تحفہ ہوں گے۔ ان سے تیارکردہ بجلی کی فی یونٹ لاگت 14 روپے سے کچھ زائد بتائی جاتی ہے جبکہ چشمہ پاور پلانٹ کی فی یونٹ لاگت 11.16 روپے ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ یہ خبر کم لوگوں کی توجہ حاصل کر پائے گی اس لیے کہ یہ ایک اچھی خبر ہے۔ مجھے معلوم نہیں ہم میں سے وہ منفیت کیسے بے دخل ہوگی‘ وہ قنوطیت کیسے باہر نکلے گی اوروہ احساس کمتری کیسے جان چھوڑے گا جو قوم کے کئی طبقات میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ قلم اٹھاتے ہیں تو برائی کو مزید برا بنا کر دکھانے کے لیے۔ یہ منہ کھولتے ہیں تو پریشان حال قوم کو پریشانی کی اگلی تہہ میں دھکیلنے کے لیے۔ یہ تجزیہ کرتے ہیں تو انسان سوچتا ہے کہ نہ جانے اب ہمارے کتنے دن باقی ہیں اور وہ کیسے گزریں گے۔ یہ آئندہ دنوں کی خبر دیتے ہیں تو اس مہیب خلا کی خوشخبریاں قوم کو سناتے ہیں جو ان کی دانست میں آگے منہ کھولے بیٹھا ہے۔ کچھ کالم نگاروں، کچھ تجزیہ کاروں، کچھ مبصرین کی سیاست، معیشت، معاشرت اور دیگر ملکی مسائل پر ان کے عمربھر کی تحریروںاور گفتگو کا انبار اکٹھا کرکے نچوڑا جائے تومعتدل اور متوازن بات اور درست پیشگوئی شاید ہی نکل سکے لیکن اس ملبے میں ہنوز تابکاری اثرات موجود ہوں گے۔ کبھی کبھی ایسی تحریریں پڑھ کر شکیب جلالی کا شعر یاد آتا ہے ؎
جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اس کے بعد طبیعت مری سنبھلنے لگی
یہ تماشا تو چلتا ہی رہتا ہے لیکن اس وقت ہمیں داد اور مبارک دینی ہے پوری قوم کو بھی، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کو بھی اور KANUUP کے ادارے کو بھی کہ نیوکلیئر توانائی کا ایک اہم سنگ میل عبور کیا گیا ہے۔ وہ سنگ میل جو 55 سال پہلے محض ایک خواب تھا۔ وہ خواب دیکھنے والے زیر زمین جا سوئے لیکن پیراڈائز پوائنٹ پر جہاں جھاگ اڑاتی موجیں سنگلاخ چٹانوں سے سر پھوڑتی ہیں‘ ایک عمارت اس کشمکش کے عینی شاہدوں میں شامل ہوگئی ہے۔ یہ بڑی خبر ہے کہ ہمارے ساحلوں پر جہاں لائٹ ٹاور ہوا کرتے ہیں، بجلی پیدا کرنے کی ایک عمارت منارۂ نور بن گئی ہے۔