ٹِک ٹِک کرتا وقت 81سال آگے نکل آیا ہے۔بہت سا گرد و غبار چھٹ چکا ہے اور اکیاسی سال پہلے کے مسائل اور فیصلوں کو پرکھنا نسبتاًـ آسان ہوگیا ہے۔ 23مارچ ہماری قومی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا اور اس دروازے سے گزر کر ہم اس گھر میں داخل ہوئے جس کا نام پاکستان ہے۔
میںکبھی کبھی مینارِ پاکستان جا نکلتا ہوں جو اَب گریٹر اقبال پارک کے وسط میں ایستادہ ہے۔ گہرے تاریک سمند رمیںسفر کرنے والوں کے لیے ایک منارہ ٔ نور کی طرح۔جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر ان لوگوں کے ساتھ اقبال پارک کی اُسی فضا میں سانس لوں جو اُس وقت منٹو پارک تھا۔یہ انگریز راج کی1940ء کی فضا ہے۔میں ان لوگوں کے ساتھ سٹیج کے سامنے بیٹھ کر نعرے لگاتا ہوں جو اس تاریخی اجلاس میں شریک ہیں۔ میں قائد اعظم محمد علی جناح کو صدارت پر متمکن دیکھتا ہوں۔میں شیر بنگال مولوی فضل الحق کو قراردادِ پاکستان پیش کرتے دیکھتا ہوں۔میںمسلم لیگ کے اکابرین کو پرجوش طور پر اس قرارداد کی تائید کرتے دیکھتا ہوں۔ میدان میں لاہور کے پُرجوش مرد‘ عورتیں بچے پورے برصغیر ہی نہیں پوری امت کی نمائندگی کر رہے ہیں اس انقلابی لمحے میں موجود رہنا ایک فضیلت ہے اور ہر فضیلت ہر آدمی کے حصے میں نہیں آتی۔
عمر بڑھتی جائے تو نفع نقصان کا گوشوارہ اہم ہونے لگتا ہے۔ وقت گزرتا جائے تو اطمینان اور رائیگانی کا تناسب زیادہ واضح ہوتا جاتا ہے۔ دنیا دیکھنے کا موقع ملے تو منظر اور پس منظر اپنے خد وخال سمیت واضح ہوتے جاتے ہیں۔اپنے بڑوں کا سایہ سر سے اٹھنے لگے اور وقت خود آپ کے بالوں میں سرمئی اور سفید رنگ بھرنا شروع کردے تو فیصلوں کی اہمیت کا اندازہ زیادہ بہتر ہونے لگتا ہے۔ کبھی اپنی مٹی سے نکل کر باہر دیکھنے کا موقع ملے تو اس کی سوند ھ اور اس کی خوشبو زیادہ تیز اور زیادہ پرکشش ہونے لگتی ہے۔ہر خوشبو سے زیادہ۔ہر مہک سے برتر۔
یہ دہلی کا انٹر نیشنل ایئر پورٹ ہے۔وہی دلی جس کے لیے اقبال نے کہا تھا کہ ع
سوادِ رومتہ الکبریٰ میں دلی یاد آتی ہے
آپ یہاں لوگوں کو دیکھتے ہیں ان سے ملتے ہیں‘ بات کرتے ہیں اور باہر نکل کر بازاروں سڑکوں اور محلوں میں گھومتے ہیں۔ پرانی دلی میں مٹیا محل‘ بارہ دری‘ چاندنی چوک‘ دریا گنج اور نئی دلی میں کناٹ پیلس‘ جامعہ ملیہ‘جوہری فارم‘نوئیڈا اور غازی آباد کی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں۔ لوگوں کی زبان‘ رہن سہن‘خوراک‘ اور شکلوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ اس شہر میں مسلمان بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ آپ اس ماحول کو بہت اجنبی نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن پھر بھی یہ بہت اجنبی ہے۔ یہ نہ لاہور ہے نہ کراچی‘ نہ اسلام آباد نہ ملتان‘ نہ فیصل آباد۔ کچھ عجیب قسم کی بیگانگی ہے۔ کچھ نامانوس قسم کا ماحول ہے۔کچھ ناقابل ِ بیان قسم کا اندھیرا ہے۔ کچھ مختلف قسم کی روشنی ہے۔یہ سب مل کر آپ کو بیگانہ نگاہوں سے گھورتے ہیں۔ اور آپ اس کی تاب نہ لاتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ جلد از جلد جس کام سے آئے ہیں وہ کریں اور رخصت ہوں۔
یہ مانچسٹر ہے۔یہ کوپن ہیگن ہے۔ یہ سڈنی ہے۔یہ پیرس ہے۔ یہ دبئی ہے۔ یہ استنبول ہے۔یہ بحرین ہے۔ یہ خوبصورت اور سلیقے سے بسے ہوئے شہر جہاں تمدنی خوبصورتیاں اور آسائشیں اپنی ممکنہ حدوں کو چھو رہی ہیں۔ یہ تہذیب یافتہ لوگ جو بہترین اور خوبصورت ماحول‘ جچا تلا نظام تمدنی سہولیات میں زندگی گزارتے ہیں۔ آپ کے عزیز‘ دوست ملنے والے‘ مداح سب یہاں موجود ہیں لیکن کوئی کانٹا ہے جو ان مقامات کو اپنا نہیں سمجھنے دیتا۔آپ متاثر ہوسکتے ہیں۔ مرعوب ہوسکتے ہیں‘ رشک کرسکتے ہیں لیکن انہیں اپنا نہیں سمجھ سکتے۔کوئی دوری ہے جو اس قربت میں پڑاؤ ڈالے بیٹھی ہے۔ بیگانگی کہیں سے آتی ہے اور اجنبیت کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آپ کی ہمسفر ہوجاتی ہے۔آپ خوشی کی تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنے زمانہ قیام میں اٹھاتے ہی رہتے ہیں۔
اور یہ لاہور ہے۔ یہ کراچی ہے۔ یہ ملتان ہے۔ یہ اسلام آباد ہے۔ یہ کوئٹہ ہے۔ یہ پشاور ہے۔ یہاں وہ تمام سہولتیں کم کم ہیں جنہیں آپ بہت جگہ چکھ آئے ہیں۔ پرکھ آئے ہیں۔ یہاں بہت مسائل ہیں۔ یہاں بہت دشواریاں ہیں۔لیکن سب ہونے کے باوجود یہاں اجنبیت اور بیگانگی نہیں ہے۔ آپ کسی شہر میں ہوں یا گاؤں میں ہوں یا قصبے میں۔ ایک طمانیت ایک آسودگی ایک خوشی آپ کے دل میں گھر کئے رہتی ہے کہ یہ میری مٹی ہے۔ یہ میرے لوگ ہیں۔ یہ میرا خمیر ہے۔ یہ میرا وطن ہے۔ یہ میں ہوں۔
23 مارچ نے ایک دور رس اور نسل در نسل اثر انداز ہونے والا فیصلہ کیا تھا۔پورے خطے کا مستقبل اس دن نے اپنے قلم سے لکھا۔اس دن نے کئی صدیاں گزارنے کے بعد آئندہ صدیوںکا تعین کیا۔ نظریے اور مذہب کی بنیاد پر ایک الگ مملکت بنانے کا خواب آسان نہیں تھا۔خاص طور پر اقلیت میں ہوتے ہوئے اور ازلی دشمنوں کے جنگل کے بیچ راستہ بناتے ہوئے‘لیکن23 مارچ کے محض سات سال گزرے اور راستہ بنانے والوں نے جنگل کاٹ کر راستہ بنا لیا۔
23 مارچ 1940ء کو کئے ہوئے فیصلے نے میری تقدیر بدلی تھی۔ ان لوگوں نے میرے لیے مستقبل تعمیر کیا جو اپنی عمریں تقریباًـ گزار چکے تھے۔ جو اس خواب کی تعبیر کے بعد زیادہ وقت نہیں گزار سکے لیکن انہوں نے میرے لیے میرے بچوں کے لیے جو مستقبل گیر فیصلہ کیا میں اس پر ان کے سامنے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں اور مجھے ان کے شکریے کے لیے لفظ نہیں ملتے۔میں ان لوگوں کو کیسے معاف کردوں جو اسی مٹی سے اپنا اناج حاصل کرتے اور انہی دریاؤ ں سے اپنا گلاس بھرتے ہیں لیکن انہیں تمام عمر اس کے شکر اور شکریے کی توفیق نہیں ملتی۔ لغت نے ایسے لوگوں کے لیے بہت سے الفاظ محفوظ کر رکھے ہیں جن میں احسان فراموش کا لفظ موزوں ترین ہوگا۔''اور ہم نے تمہیں زمین میں جگہ دی اور تمہارے لیے معاش کے سبب بنائے۔ مگر تم کم ہی شکر کرتے ہو‘‘۔(القرآن)
اپنے ارد گردکئی ایسے لوگ مجھے نظر آتے ہیں۔اخبارات اور سوشل میڈیا پر ایسے لوگ سیاہ لفظ لکھتے ہی رہتے ہیں اور لکھتے رہیں گے‘مگر ایک عام آدمی اس مٹی کی محبت سے بھی لبالب بھرا ہے اور اس دن کی روشنی بھی اس کے اندر جگمگاتی رہتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ ملک ہمارے لیے کیا ہے۔ بہت بار ہم تو اس کو محض فائدہ اٹھانے کا ایک وسیلہ سمجھتے ہیں لیکن پاکستان سے ذرا دور نکل جائیں تو یہ قربت اپنا آپ بتاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم قریب رہ کر یہ لمس یہ خنکی کیوں نہیں کشید کرپاتے ؟ یہ خوشبو‘ یہ سوندھ‘ یہ مہک ہم سے کیوں روٹھ جاتی ہے ؟ شاید اس لیے کہ پتھروں کو نہ لمس محسوس ہوتا ہے‘ نہ خنکی‘ نہ مہک‘ نہ گداز۔ پتھروں کو یہ چاہیے بھی نہیں
مظفر وارثی نے کہا تھا ؎
یہ دن اپنے آپ کو دہرانے کا دن ہے
پتھر جیسے لوگو! شیشے جیسا دن ہے
آئیے! 23 مارچ 2021ء کے شیشے جیسے دن کا استقبال کریں۔ اپنے آپ کو بدلنے اور دہرانے کے عزم کے ساتھ۔