"SUC" (space) message & send to 7575

خالہ اقبال

شعور کی آنکھ کھلتے ہی اپنے اردگرد جو مہربان اور مشفق چہرے دیکھے اس میں خالہ اقبال کا چہرا شاید کبھی نہیں بھولے گا۔
وہ ہماری سگی خالہ نہیں تھیں۔ سگی کیا، دور کی رشتے داری بھی نہیں تھی۔ صرف ہمسائیگی کا تعلق تھا لیکن اس زمانے میں ہمسایہ داری بھی ایسی ہوتی تھی جیسے خاندان کا ایک حصہ ہو۔ اس زمانے کے محلّے داری کو آج کی محلّے داریوں پر قیاس ہی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ زمانہ ہی کچھ اور سا تھا۔
وہ گھر بھی کچھ اور سا تھا۔ لاہور کے مشہور نیلا گنبد چوک سے جو سڑک میو ہسپتال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی دیوار کے ساتھ ساتھ انارکلی بازار کی ذیلی سڑکوں کی طرف جاتی ہے اس کا نام ایونگ روڈ ہے۔ یہ سڑک آگے جاکر بائیں طرف مڑتی ہوئی دھنی رام روڈ سے جا ملتی ہے اور دھنی رام روڈ آگے جاکر T کی شکل میں انارکلی بازار سے پیوست ہوجاتی ہے۔ نیلا گنبد چوک سے ایونگ روڈ پر چلیں تو دو ڈھائی سو قدم آگے بائیں ہاتھ ایک مسجد والی پتلی سی بند گلی آتی ہے۔ یہ گلی بچپن میں ہمیں اتنی پتلی نہیں لگتی تھی۔ جو مکان انگریزی ہندسے 7 کی الٹی شکل میں سامنے اور بائیں ہاتھ پر اس گلی کو بند کرتا ہے اس میں میرے والدین کافی مدت تک کرائے دار کی حیثیت میں رہے ہیں۔ پرانے انداز کے یہ مکان آپس میں ریل گاڑی کے ڈبوں کی طرح جڑے ہوئے تھے۔ اس طرح کہ درمیانی دروازے کھول لو تو سب گھروں میں اندر ہی اندر آنا جانا ممکن تھا۔ ہمارے گھر کے ساتھ جڑا ہوا زیب النسا کا گھر تھا جسے ہم زیبن کہتے تھے۔ اس کے ساتھ ثریا کا گھرتھا جو ماسٹر صاحب کی بیٹی تھی‘ اور اس کے ساتھ گلی کے منہ کی طرف آخری گھر خالہ اقبال کا تھا جس کا اصل رخ گلی کی طرف نہیں بلکہ ایونگ روڈ کی طرف تھا۔ یہ سب مکان شیخ منظور صاحب کے تھے اور انہوں نے کونے والا مکان اپنی سگی بہن خالہ اقبال کو جو جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں،رہائش کے لیے دے رکھا تھا ۔
کچھ نام اس زمانے میں شاید مذکر مؤنث کی قیود سے باہر تھے۔ کوثر، تسنیم، برکت وغیرہ کی طرح اقبال بھی ایک ایسا ہی نام تھا۔ اصلاً قصور سے تعلق رکھنے والے اس بڑے گھرانے کی فرد خالہ اقبال جوانی ہی میں بیوہ ہوگئی تھیں اور دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ یہاں رہتی تھیں‘ جنہیں ہم بھائی عبدالوحید، بھائی پرویز، باجی یاسمین اور باجی کوثر کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ میرے والدین اس اجنبی محلے میں آبسے تو ان گھروں میں کسی سے واقفیت نہیں تھی‘ لیکن محبت اپنا راستہ بہت جلد اور دھیرج سے بنا لیتی ہے۔ یہ گھر آپس میں ایسے شیروشکر ہوئے کہ ایک گھر کی طرح لگنے لگے۔ ہم اوپر تلے کے چھ بہن بھائیوں کے ساتھ زیبن اور ثریا بھی ہمجولیوں کی طرح تھیں اور درمیانی دروازے صرف رات کے وقت بند ہوتے تھے۔ خاص طور پرخالہ اقبال کی محبت اور مٹھاس تو میرے خون میں آج بھی تیرتی ہے۔ یہی محبت ان کے بچوں خاص طور پر باجی یاسمین، باجی کوثر اور بھائی پرویز میں بھی منتقل ہوئی تھی۔ باجی یاسمین اور بھائی عبدالوحید تو عین جوانی میں رخصت ہوگئے۔ بھائی پرویز اور باجی کوثر جہاں بھی ہوں اللہ انہیں خوش رکھے۔
میں اور میری چھوٹی بہن سمیرا چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اس لیے ہمارا بہت وقت خالہ اقبال اور باجی یاسمین کی گودوں میں گزرا۔ دیگر بہن بھائی بھی ہم سے زیادہ بڑے نہ تھے اور ہر چیز میں برابر کے شریک تھے۔ کھیل کود کر تھک جانے پر ہم بعض اوقات خالہ اقبال کے گھر میں ہی سوجاتے تھے۔ یاسمین باجی خالہ کی بڑی بیٹی تھیں۔ میں ان کے سامنے تخت پر بیٹھ جاتا اور وہ لقمے بنا بناکر مجھے کھلاتی رہتی تھیں۔ اسی طرح ان کے گھرکے برآمدے کی طرف جو چھوٹی سی کھانا پکانے کی جگہ تھی وہاں میرا ان کے سامنے پیڑھی پر بیٹھنا اور ان کا روٹی پکاتے ہوئے ساتھ ساتھ کتابی کہانیاں اور فلموں کی کہانیاں سنانا بھی کبھی ذہن سے نہیں اترے گا۔ سوچتا ہوں تو مجھے میرے نام ''سعود‘‘ کی وجہ سے ''سعودی عرب، چین‘ جاپان‘ انگلستان‘‘ کہہ کر بُلاتے ہوئے باجی یاسمین کی چمکتی شرارتی آنکھیں اور ہنستا مسکراتا چہرہ اب بھی میرے حافظے پر اس طرح نقش ہے کہ میں اس کے خدوخال بیان کرسکتا ہوں۔
بہت بار امی اور بھائی جی (ہم اپنے والد کو اسی نام سے پکارتے تھے) کی ڈانٹ ڈپٹ یا مار پیٹ کی خالہ اقبال کو نہ جانے کیسے خبر ہوجاتی تھی۔ وہ دوڑی دوڑی آتیں اور کبھی وہ اور کبھی ان کی بیٹیاں ہمیں اپنی گود میں چوزوں کی طرح سمیٹ کر دور لے جاتیں۔ مجھے یاد ہے ایک ایسے ہی موقع پر جب میری گوشمالی ہونے ہی والی تھی، بھائی پرویز جھپٹتے ہوئے آئے اور مجھے گود میں اٹھا کر دور لے گئے۔ خالہ کو سردرد کی شکایت اکثر رہتی تھی اور وہ سفید دوپٹہ یا پٹی ماتھے پر باندھ کراس کا علاج کرتی تھیں۔ میں اس زمانے میں ان کے ہنستے مسکراتے چہرے کا تصور کروں تو پٹی باندھے ہوئے چہرہ میرے سامنے آتا ہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ عین جوانی میں اچانک بیوہ ہو جانا اور بچوں کی پرورش میں زندگی گزار دینا کتنا مشکل رہا ہوگا۔ بظاہر ان کے بھائی کی مدد کے علاوہ ان کی کوئی ماہانہ آمدنی بھی نہیں تھی۔
امی اور خالہ اقبال کی آپس میں بہت محبت تھی اوردونوں اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے سے بیان کردیتی تھیں‘ اور صرف امی ہی کی بات نہیں‘ سامنے گھر والی استانی جی ہوں یا نذر محمد کی امی‘ ماسٹر صاحب کی بیوی ہوں یا حافظ جی کی بیگم‘ سب ان کے اسیر تھے اور وہ بڑی خیرخواہی سے سب کی دل جوئی کرتی تھیں۔ محلے کے سب بچے ان کا پیار سمیٹتے تھے۔ یہی نہیں کہ ہمیں صرف پیار ملتا تھا ڈانٹ بھی پڑا کرتی تھی۔ دس یادگار سال اس گھر میں گزار کر جب میرے والدین سمن آباد لاہور میں بنائے گئے اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہونے لگے تو خالہ اور ان کی بیٹیاں پھوٹ پھوٹ کررو رہی تھیں ۔ وہ منظر بھی اس طرح آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ یہی حال ہمارا بھی تھا۔ نئے اور اپنے گھر میں جانے کی خوشی اپنی جگہ اور خالہ سے دور جانے کا غم اپنی جگہ۔ دونوں گھروں میں آنا جانا رہا، اسی طرح محبتیں قائم رہیں لیکن ہمسائیگی والی میل ملاقات ختم ہوچکی تھی۔
زمانہ کہاں رکتا ہے اور زندگی اپنے پہلو بدلنا کب ختم کرتی ہے۔ باجی یاسمین عین جوانی میں چلی گئیں۔ کچھ سال کے بعد ہمارے بھائی جی بھی رخصت ہوئے جو گھر کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ پھر بھائی عبدالوحید بھی عین جوانی میں بچھڑ گئے‘ اور آخر میں ہماری امی‘ جو آناً فاناً دیکھتے ہی دیکھتے جدا ہوگئیں۔ خالہ نے یہ سب صدمے ہمت سے برداشت کیے۔ میری امی سے ان کا جو تعلق تھا اور جس طرح وہ انہیں یاد کرتی تھیں اس کے باعث ان کے پاس جاکر ہمیں سکون ملتا تھا۔ وہ پرانی انارکلی کے ایک گھر میں منتقل ہوچکی تھیں۔ میری شادی ہوئی تو وہ بیمار تھیں۔ شادی کے بعد اپنی بیگم کولے کر انہیں سلام کرنے گیا تو اپنی بیماری بھول کر اُٹھ بیٹھیں۔ وہی محبت، وہی لاڈ، وہی ڈانٹ ڈپٹ جس سے انہوں نے مجھے بچپن میں گودی میں کھلایا تھا، اب میرے ساتھ میری بیگم بھی اس میں شریک تھی۔ ان سے ملنے کی خوشی پہلے سی لگتی تھی لیکن اس دور میں ان کی صحت اچھی نہیں تھی اور ان کی طرف سے دھڑکا لگا ہوا تھا۔ اور پھر وہ وقت آپہنچا‘ ایک روز خالہ اقبال رخصت ہوگئیں۔ انہیں کندھوں پر اٹھانے سے پہلے آخری بار دیکھا۔ پرسکون چہرے اور مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ تھیں۔ رہے نام اللہ کا۔
آج خالہ اقبال اچانک دل کے نہاں خانے سے نکل کر سامنے کیسے آبیٹھیں، پتا نہیں‘ لیکن اس تحریر کو تہہ کرتے کرتے ایک سوال آپ سے پوچھتا چلوں جو سب کا ہے‘ سب کیلئے ہے۔ کیا ایسے کردار صرف کم وسائل اور زیادہ مسائل والے گھروں میں ہوتے ہیں؟ کیا بے غرض محبت، دکھ سکھ میں شرکت اور ہمسائیگی کا گھرانے کی صورت اختیار کرنے کا دور گزر چکا اور اب کبھی نہیں آئے گا؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ خالہ اقبال جیسے کردار اب پیدا کیوں نہیں ہوتے؟ میرے پاس تو ان کے جواب اس لیے نہیں کہ یہ سوال مجھے آئینہ دکھاتے ہیں۔ کیا آپ کے پاس جواب ہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں