کیا ہو گیا ہے میاں نواز شریف کو؟ کیا کرتے پھر رہے ہیں وہ اقتدار سے الگ ہوکر؟ کیا سوجھی ہے انہیں جلا وطنی میں اپنے لیے، اپنے خاندان کیلئے اور اپنی سیاسی جماعت کیلئے؟ کوئی بتا سکتا ہے؟ کیا نون لیگ میں کوئی ایسا شخص بچا ہے جو انہیں سمجھا سکتا ہو؟ کوئی انکے برابر تو پہلے بھی کبھی نہیں تھا، نہ ہوگا، لیکن کیا کوئی ہم عمر جرأت کرکے کہہ سکتا ہے کہ بندۂ خدا! کیا تمہیں اندازہ ہے کہ صرف ایک ملاقات، ایک جملے، ایک بیانیے، ایک تصویر سے خاندان، دوستوں اور نون لیگ کیلئے کیا مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہیں کتنی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ مخالفوں کے ہاتھوں میں کیا ہتھیار آجاتا ہے۔ ایک تصویر جو سیاسی افق پر پھیلی ہوئی ہے، اس کے خدوخال کھرچنے میں کتنی محنت لگتی ہے۔ ہے کوئی جری جو یہ بات کہنے کی جرأت کرے؟
بعض اوقات خیال آتا ہے کہ میاں نواز شریف کی نفسیات گزشتہ ایک دہائی میں بالکل بدل کر رہ گئی ہے۔ اب ان کا دماغ دل کے ہاتھوں میں ہے اور دل جذبات کے ہاتھوں میں۔ جذبات بھی وہ جس میں غصہ، رنج، صدمہ اور انتقامی کیفیات حاوی لگتی ہیں۔ ان کے پاس اس کے جواز ضرور ہوں گے، اور بہت سے قابل فہم بھی لیکن مجھ جیسے لوگوں کیلئے یہ دھچکے سے کم نہیں جو میاں صاحب، نون لیگ اور ان کے رہنماؤں کیلئے نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے ووٹ پر ان کیلئے مہریں بھی بارہا ثبت کرچکے ہیں۔ ان کے بدلتے ادوار، تبدیل ہوتے دوست اور سرپرست بھی سب جانتے ہیں لیکن یہ تبدیلیاں ناقابل یقین ہیں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کا رہا ہے‘ لیکن بدترین حالات میں اور اقتدار سے کئی بار نکالے جانے کے باوجود، جلاوطنی میں دن گزارنے کے باوجود، اور کئی حلقوں کی طرف سے سکیورٹی رسک کہے جانے کے باوجود بے نظیر بھٹو نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا جسے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے سے تعبیر کیا جائے‘ لیکن گزشتہ دس سالوں میں میاں صاحب پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں اور ان دس سالوں میں اقتدار کے دن بھی شامل ہیں۔ طاقتوروں کا زور توڑنے کیلئے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ایک پالیسی ہو سکتی ہے، لیکن بطور وزیر اعظم ملکی خودداری اور سلامتی کے بنیادی نکات کو نظرانداز کردینا پالیسی نہیں کہلائی جا سکتی۔ اقوام متحدہ سے لے کر عالمی فورمز تک ہندوستان کے اقدامات پر نرم الفاظ میں تبصرے ہوں یا تقاریر اور بیانات میں ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کے ذکر سے اجتناب، ہندوستان کے دورے پر مبینہ طور پراہم ملاقاتیں نظرانداز کرکے کاروباری ملاقاتیں ہوں یا دونوں ملکوں کے تعلقات کی بہتری کی یکطرفہ کوششیں۔ وہ یہ سب کرتے رہے اوریہ چیزیں ان کے خلاف جاتی رہیں۔ شریف گھرانے کی شادی پر اچانک نریندر مودی کا، جو جاسوسی ایجنسیوں کے سربراہوں کے ساتھ تھے، دورۂ لاہور بھی آج تک ہضم نہیں ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی وفد کو ویزا کی پابندیوں سے بالا رکھا گیا تھا۔ ان باتوں میں کتنی مبالغہ آرائی ہے، کہہ نہیں سکتے‘ لیکن ان کے تسلی بخش جواب کبھی نہیں مل سکے۔ بہت سی چیزیں نظرانداز کر دی جائیں، ساری پھر بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتیں۔
سچ پوچھیے تو جو کرپشن کے الزامات میاں نواز شریف پر ہیں، یہ طرز عمل ان سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور اسے رنگین خود میاں صاحب کے اقدامات نے بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے مخالفوں کا کام آسان کردیا اور اپنی جماعت کا مفاد اپنے فیصلوں پر قربان کردیا۔ تازہ ترین مثال افغانستان کے قومی سلامتی کے سربراہ حمداللہ محب سے ان کی لندن میں ملاقات ہے۔ ایک تو یہ وہ ادارہ ہے جو پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہا۔ دوسرے حمداللہ محب کا اس ملاقات سے قبل تازہ ترین بیان انتہائی نامناسب تھا۔ موصوف اس سے پہلے بھی ایسی ہی زبان پاکستان کیلئے استعمال کرچکے ہیں۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے اس پر ردعمل کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ حال ہی میں افغان صدر اور پاکستانی وزیر اعظم کی لفظی مڈھ بھیڑ کی گونج بھی ابھی موجود ہے۔ کابل حکومت کی مسلسل پاکستان پر الزام تراشی بھی سب کے سامنے ہے۔ سو حمداللہ محب کے تازہ ترین اشتعال انگیز بیان کے فوراً بعد میاں نواز شریف کی اس سے یہ ملاقات سمجھ سے باہر ہے۔ تین بار وزیراعظم رہنے والا اس ادارے اور اس شخص سے ایسا ناواقف تو نہیں ہوسکتا۔ کیا وہ پاکستانی عوام کے مزاج اور پسند ناپسند کو جانتے نہیں ہیں؟ کیا وہ ایسی ملاقاتوں اور رابطوں کے سیاسی نتائج سے ناآشنا ہیں؟ پھر اس ملاقات کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا میاں صاحب موجودہ پوزیشن میں کوئی معمولی کردار ادا کرنے کے قابل بھی ہیں کہ یہ ملاقات لازمی ہوجائے؟ اس لیے اگر حکومت کی طرف سے یہ بیانات دئیے گئے ہیں کہ اس ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی، اس کی وضاحت کی جائے، تو یہ قابل فہم ہیں۔ اس ملاقات کا مقصد کیا تھا؟ کیا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ہنوز بین الاقوامی شخصیات سے رابطے میں ہیں یا یہ بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا نیا رخ ہے؟
پھر اس ملاقات کی ٹائمنگ دیکھیے۔ یہ اس وقت ہوئی ہے جب کابل حکومت کے بارے میں یہ باتیں کھلے عام ہورہی ہیں کہ وہ اب کتنے مہینوں کی مہمان ہے۔ پاکستان میں آزاد کشمیر کے انتخابات کیلئے تمام پارٹیاں اپنا اپنا زور لگا رہی تھیں‘ اور نون لیگ کی حکومت وہاں اپنا دورانیہ مکمل کرکے نئے اقتدار کی کوششوں میں تھی۔ مریم نواز آزاد کشمیر میں جلسے کررہی تھیں اور تنورگرم ہوچکا تھا۔ ایسے میں کوئی قومی لیڈر یہ بے مصرف ملاقات کرکے اپنے مخالفوں کے ہاتھ میں ہتھیار دینے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟ لیکن عین اسی وقت میں جناب نواز شریف نے یہ ملاقات کرکے ثابت کردیا کہ وہ کسی اور کی کیا اپنے دماغ کی بھی نہیں سننا چاہتے۔
اب میاں صاحب کا دفاع کون کر رہا ہے۔ اقتدار سے رخصتی کے بعد میاں نواز شریف کے وزیر دفاع کا منصب مریم نواز نے سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس میں کیا حرج ہے؟ عالمی سطح پر ایسی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں‘ لیکن یہ بات عام آدمی کیا، نون لیگ کے اپنے رہنماؤں کے حلق سے نیچے اترنے والی نہیں۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ فائدے میں صرف افغانستان حکومت رہی اور سراسر نقصان نون لیگ کا ہوا۔ وہ آزاد کشمیر میں بری شکست سے دوچار ہوئی۔ ویسے تو آزادکشمیر کی یہ روایت ہے کہ اسلام آباد میں حکومتی جماعت ہی وہاں جیتتی اور حکومت بناتی ہے‘ لیکن دیگر وجوہات میں یہ کم اہم وجہ نہیں ہے کہ آزادکشمیر کی ختم ہونے والی نون لیگ کی حکومت بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔ رہی سہی کسر اس ملاقات اور باپ بیٹی کے بیانیے نے پوری کردی۔ یہ وجہ بہرحال شامل ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کا مؤقف عام شخص سے لے کر خاص آدمی تک کسی کو پسند نہیں آیا۔ آ بھی کیسے سکتا تھا؟ یہ کیا بات ہوئی کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے تمام اقدامات، تمام مظالم کا ذمے دار عمران خان ہے۔
کیا اس انتہا پسندانہ مؤقف سے نوازشریف اور مریم نواز واپس لوٹ سکیں گے‘ جو نون لیگ کیلئے بوجھ بنتا جارہا ہے۔ بہت سے بڑے رہنما خاموش ہوچکے ہیں۔ میاں شہبازشریف کا اس بیانیے سے اختلاف ڈھکا چھپا نہیں۔ مجھے یہ چلنے والا معاملہ نہیں لگتا۔ جو آوازیں ابھی دھیمی اور پارٹی کے اندر ہیں، وہ بلند بھی ہوں گی اور باہر بھی آئیں گی۔ سیاسی وفاداری ملکی وفاداری کو کب تک دبا سکے گی؟
کبھی سنا نہیں گیا کہ میاں صاحب کو کتابوں اور کسی بھی زبان کے ادب سے کچھ دلچسپی رہی ہو اس لیے بتانا پڑے گا کہ فارسی کے باکمال شاعر اور نثر نگار شیخ سعدی کی ایک کتاب ہے:گلستان۔ یہ کتاب اور اس میں موجود جملے صدیوں سے عالمگیر مقبولیت کے مقام پر فائز ہیں۔ اس میں سعدی نے ایک حکایت بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی! کایں رہ کہ میروی بہ ترکستان است۔ اے اعرابی! مجھے ڈر ہے کہ تم کبھی کعبہ نہیں پہنچ پاؤ گے اس لیے کہ جس راہ پر تم چل رہے ہو وہ ترکستان جاتی ہے۔