جینز، جیکٹ، بڑے بالوں، الجھی داڑھی مونچھوں والا بوڑھا ترک جمال آفندی تھا۔ وہ اب عملی زندگی سے کنارہ کش ہوکر زندگی کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہونے میں وقت گزارتا تھا۔ پاکستان سے محبت اسے گھٹی میں ملی تھی اس لیے اس نے بڑی گرمجوشی کا اظہار کیا۔ جمال آفندی کو جانا کہیں اور تھا لیکن وہ مُصر تھا کہ میرے ساتھ چل کر مجھے مرمریس کی اہم جگہیں دکھائے۔ میں نے اسے بمشکل اس ارادے سے باز رکھا؛ البتہ یہ درخواست کی کہ میرے پاس چونکہ کم وقت ہے اس لیے وہ جگہیں منتخب کرکے مجھے بتا دے کہ مجھے کہاں جانا چاہیے۔ تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد یہ طے ہوگیا کہ مرمریس کے اطراف میں دو جگہیں خوبصورتی کے حوالے سے بہترین ہیں۔ ایک اچمی لیر دوسری سلیمیٰ۔ یہ دونوں نرم ریت کے سمندری ساحل یعنی بیچز ہیں اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ بے مثال خوبصورتی کی حامل ہیں۔
لیکن درست صورتحال سمجھنے کے لیے کچھ باتیں جاننا ضروری ہیں۔ مرمریس شہر خود تو بہت خوبصورت ساحلی شہر ہے لیکن اس شہر میں بیچ یعنی ریتیلا ساحل جس پر دنیا مرتی ہے، کوئی خاص نہیں ہے۔ ایک چھوٹی سی بیچ ضرور ہے لیکن اس میں ساحل اور سمندر کے درمیان ریتیلی جگہ بہت مختصر ہے۔ اس لیے اس کی زیادہ اہمیت نہیں۔ اچمی لیر اور سلیمیٰ باقاعدہ ریتیلے ساحل ہیں۔ یہ دونوں بستیاں مرمریس سے الگ اور کچھ فاصلے پر ہیں۔ ایسا سمجھ لیجیے جیسا پنڈی اور اسلام آباد دو الگ الگ شہر ہیں۔ اسی طرح مرمریس کی اپنی بستی ہے اور اچمی لیر، سلیمیٰ کی اپنی بستیاں۔ تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد یہ طے ہوگیا کہ مجھے پہلے اچمی لیر جانا چاہیے اور پھر وقت ملے تو باقی جگہوں پر۔ میں نے آفندی سے اجازت لی۔ نزدیک کھڑی ڈولمش میں بیٹھا اور کچھ ہی دیر میں اچمی لیر روانہ ہوگیا جو یہاں سے کم و بیش بارہ کلو میٹر پر تھا۔
اچمی لیر بھی دراصل ایک مچھیروں کی بستی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ قدرتی اور سمندری اسفنج کی تلاش کرنے والے غوطہ خوروں کی بستی بھی۔ پھر اس کی کمال خوبصورتی سیاحوں کو اس طرف لے آئی۔ اچمی لیر کی بستی تیزی سے جدید اور وسیع ہوئی اور پندرہ بیس سال پہلے سے اس کی ترقی کو پر لگ گئے۔ اب سیاح یہاں فرنشڈ اپارٹمنٹس لے کر مہینوں گزارتے ہیں جہاں ضروری تمام سہولیات بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس قیام میں قریب کے شہر، بستیاں، ساحل سب ان کی جولان گاہ ہوتے ہیں۔ یہ سیاح سعود عثمانی کی طرح ناواقف نہیں ہوتے کہ ایک ہی دن میں تمام منظر آنکھوں میں بھرنا چاہیں۔ حسن کے اپنے تقاضے ہیں جن میں سب سے بڑا تقاضا فراغت کے ساتھ حسن کا نظارہ ہے۔
چالیس منٹ کے بعد جب میں اچمی لیر بیچ کے قریب سڑک پر اترا تودھوپ بھی قدرے تیز تھی۔ ساحل کی طرف جانے والی ایک خوبصورت پیدل دو رویہ رہگزر نے میرا استقبال کیا جس پر ہرے بھرے درخت کھڑے تھے اور درمیان سے ایک نہر گزرتی تھی۔ یہ نہر مصنوعی معلوم ہوتی تھی اور اتنی چوڑی تھی کہ اس میں خوبصورت چھوٹی کشتیاں، موٹر لانچز وغیرہ کھڑی تھیں۔ رہ گزر کے دائیں بائیں دکانیں، سٹورز اور ریسٹورنٹ تھے۔ اچمی لیر کے موسم کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو یہ ہوگا کہ دھوپ میں تمازت اور سائے میں خنکی۔ میں چلتا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد یہ مڑتی ہوئی سڑک مجھے ایک لکڑی کے پل پر لے آئی۔ اس پل کو عبور کرتے ہی ایک مبہوت کن منظر میرے سامنے تھا۔ ایک کھلا منظر جس میں تین اطراف میں پائن کے جنگلات والے پہاڑ تھے اور سامنے دور تک پھیلا نیلا شفاف سمندر۔ سمندر کے ساتھ بہت کشادہ سنہری سفید ریت والا ساحل۔ اس ساحل پر دور تک رنگ برنگی چھتریاں پھیلی ہوئی تھیں جن کے تلے غسل آفتابی کے لیے جسم پھیلے ہوئے تھے۔ یہ ہلالی شکل کا ساحل تھا جو میلوں دور تک اس طرح نظر آتا تھا جیسے تماشائیوں کے لیے بہت بڑا سٹیڈیم بنادیا گیا ہو۔ سمندری ریت جہاں ختم ہوتی تھی وہاں پیدل راہگزر تھی جو ساحل کے ساتھ ساتھ ہلال ہی کی شکل ہی میں دور تک جاتی تھی۔ یہ اتنی لمبی قوس کی شکل کی واک تھی کہ پیدل چل کر اسے دیکھنے کے لیے بھی کئی گھنٹے درکار تھے۔ اس رہگزر کے ایک طرف مطعم، جنرل سٹورز، جوسز وغیرہ کی دکانیں تھیں۔ یہ نظارہ یقینا ایسا تھا جو دور سے آنے والے کی آنکھوں میں بس کر پہلی نظر میں دل میں اتر جاتا تھا اور اس نے میرے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ اس نرم دھوپ بھری تمازت میں ایک خنک لکیر آنکھوں سے دل تک اترتی چلی گئی لیکن اس میں ایک خونیں لکیر کا اضافہ ہونا باقی تھا۔ میں نے ذرا بائیں طرف پہاڑوں کی طرف دیکھا تو دل دکھ سے بھر گیا۔ پہاڑ اور ان پر درخت بری طرح جلے ہوئے تھے۔ ایک پہاڑ تو ایڑی سے چوٹی تک اس طرح جلا ہوا کہ چند درخت ہی بچ سکے تھے۔ باقی پہاڑوں کا بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ میں 24ستمبر 2021 کو اچمی لیر پہنچا تھا اور اگست تک پہاڑی جنگلات میں لگی یہ آگ بجھی نہیں تھی۔ جولائی 2021 میں بحر روم کے کنارے پہاڑی شہروں کے جنگلات میں کئی مقامات پر بیک وقت آگ بھڑک اٹھی تھی۔ یہ آگ 1700 کلومیٹر کے رقبے پر پھیل گئی اور بہت تگ و دو کے بعد بمشکل اسے بجھایا جاسکا۔ شبہ تھا اور ترکی نے اعلان بھی کیا کہ یہ ایک باقاعدہ سازش کا حصہ ہے۔ میں سیاہ پہاڑوں، سرمئی چٹانوں، کالے تنوں اور درختوں کے ٹھنٹھ دکھ کے ساتھ دیکھتا رہا۔ اگر یہ آگ کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی تب بھی کتنے دکھ کی بات ہے۔ حکومت یا حکومت کے افراد سے دشمنی ان درختوں سے نکالنا؟ کیسی بے رحمی ہے۔ ان بے زبان درختوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ یہ جو منظر کو ہریالی دیتے ہیں۔ پرندوں کو ٹھکانہ اور خوراک دیتے ہیں۔ بھیڑ بکریوں کوچارہ بخشتے ہیں۔ انسانوں کو سایہ اور پھل بخشتے ہیں۔ یہ تو محسن درخت ہیں اور محسنوں کو آگ لگا دینے والے پاگل ہی ہوسکتے ہیں۔ میں پہاڑی جنگلات دیکھتا گیا اور دکھ سے بھرتا گیا لیکن اسی کے ساتھ ساتھ میں نے قدرت کے اس کمال نظام کا بھی مشاہدہ کیا جو ہر زخم بھردیتا ہے۔ بہت سے جلے ہوئے تنوں اور سیہ شاخوں میں سے ہری کونپلیں نکل رہی تھیں۔ یہ شجر ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ سوختہ جسم اندر سے ہرے تھے اور زندگی ان کے اندر نمو کرتی تھی۔ ہریالی کی آرزو ان کے خمیر میں تھی اور یہ امنگ سبز پتے بن کر دنیا کو زندہ رہنے کا ہنر سکھا رہی تھی۔ سعود عثمانی! اس منظر کے ایک گوشے میں کھڑے ہوکر اپنا شعر یاد کرو:
راکھ سے پھوٹتی کونپل کو تو دیکھو کہ یہ بات
کتنی دشوار تھی اور کیسے ادا ہو گئی ہے
اس تلخی کو انارکے تازہ رس نے دور کیا۔ میں سائے میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا اور نزدیکی جوس والے سے تازہ رس منگوایا۔ نقرئی برف کے ٹکڑے عنابی مشروب میں تیر رہے تھے۔ ایک ٹھنڈک بھری آسودگی نے مجھے ایک بار پھربتایا کہ یہی درخت ہمارے لیے کیا سیرابی مہیا کرتے ہیں۔ سامنے دور تک ساحل پر مردوں اور عورتوں کا ہجوم تھا جو تیراکی اور غسل آفتابی دونوں کا لطف اٹھا رہا تھا۔ بہت سے لوگ پیدل راہ گزر پر تھے۔
اس ساحل پر پیدل چلنے کا لطف تھا لیکن جو چاہیں انہیں کرائے پر سائیکلیں بھی دستیاب تھیں۔ میں بنچ سے اٹھا اور بے مقصد، بے سمت سایہ دار سڑک پر روانہ ہوگیا۔ یہ نایاب خوشی تھی ۔ کبھی آپ نے سوچا کہ زندگی میں کبھی بے مقصد، بے سمت، وقت کی تقسیم کے بغیر نکل پڑنا کتنا کم میسر آتا ہے؟