سرائیکی میں جھوک انسانوں کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اسی نام سے سرائیکی کا ایک معروف رسالہ بھی نکلتا ہے ۔ جھوک کا یہ لفظ جو شمال سے جنوب کی طرف سفر کرتا کبھی کوٹ‘ کبھی ڈھوک‘ کبھی جھوک اور کبھی گوٹھ بنتا ہے ‘انسانوں کی بستیوں کا احاطہ کرتا ہے ۔ کوہ سلیمان میں بھی اور اس کی وادیوں میں بھی جابجا جھوک آباد ہیں ۔ کوہ سلیمان جو دراصل کوہ ہندو کش کا ہی ایک بازو ہے‘افغانستان سے آتا ہوا بلوچستان اور پھر سرائیکی خطے میں داخل ہوتا ہے ۔یہ سنگلاخ پہاڑ چٹانوں اور پتھروں کے بیچ سے اگتی خود رو گھاس کے سوا عام طور پر بنجر ہیں ۔یہی گھاس اور پودے بھیڑ بکریوں کی چراگاہوں کا کام دیتے ہیں ۔ زراعت اور کھیتی باڑی پتھروں کی زیادتی او رپانی کی کمی کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کوہ سلیمان پر بارش برستی ہے تو سخت چٹانوں اور پتھروں میں جذب ہوجانے کے بجائے ‘پہاڑی ندیوں کی صورت میں وادی کی طرف پانی کے دھارے بہنے لگتے ہیں ۔ یہ ندیاں جنہیں رود کوہی کہا جاتا ہے ‘عام طور پر خشک رہتی ہیں اور ان کے کنارے کنارے جہاں جہاں زندگی ممکن ہے ‘جھوک آباد ہوجاتے ہیں۔ ایک خاندان‘ ایک قبیلے کے جھوک جو چالیس پچاس سے لے کر لگ بھگ سو گھروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ صرف کناروں پر ہی نہیں ‘ جیسا کہ ہمارے ہاں معمول ہے ‘ندی کے راستے بھی کچے پکے مکانات بنا کر آباد کرلیے جاتے ہیں۔ اسی خیال سے کہ یہ ندی ہمیشہ خشک ہی رہے گی ‘ پانی تو آنے والا ہے نہیں ۔ لیکن یہ محض ایک مغالطہ ہوتا ہے ۔لگ بھگ ہر دس سال کے بعد یہ ندیاں بپھر اٹھتی ہیں ۔ اس سال کوۂ سلیمان پر بہت بارش برسی ۔ معمول سے کہیں زیادہ ۔کم و بیش 13 پہاڑی ندیاں جو مدت سے سوئی پڑی تھیں ‘کسی وحشی اور بھوکی شیرنی کی طرح اس طرح جاگ اٹھیں کہ ان کی دھاڑپہاڑوں سے اتر کر میدانوں تک گئی ۔یہ پہاڑوں میں بھی غضب ڈھاتی اور مکانات ملیامیٹ کرتی آئیں ۔ لیکن کھیت نہیں۔پہاڑوں میں تو کھیتی باڑی تھی ہی نہیں ۔تونسہ اور ڈیرہ غازی خان سمیت کئی وادیاں اور کئی اضلاع جو کوہ سلیمان کے دامن میں ہیں ‘ان کی بستیاں اور کھیت ‘جو بھی رود کوہی کے راستے میں آئے ‘فنا ہوتے گئے ۔ یہ ندیاں بالآخر مشرق میں دریائے سندھ میں جاگرتی ہیں ۔ اس سال دریائے سندھ میں اتنا اونچا سیلاب نہیں تھا جیسا 2010ء میں ریکارڈ ہوا تھا لیکن دریا تک پہنچنے سے پہلے یہ رود کوہیاں علاقے کو تہس نہس کرچکی تھیں۔ جو علاقہ کوہ سلیمان سے جتنا قریب تھا‘ اتنا زیادہ برباد ہوا۔
پانی کا قہر ابھی جاری ہے ۔ اور جنوبی پنجاب تو اس قہر کا محض ایک متاثرہ علاقہ ہے۔بلوچستان میں بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔دریائے کنہار پر کئی جگہ پل ٹوٹنے کی اطلاعات ہیں ۔تربیلا میں سیلابی ریلا داخل ہورہا ہے ۔ وادیٔ سوات میں کالام پر ایک نیا بنا ہوا چار منزلہ ہوٹل منہدم ہوتے اور دریائے سوات کی نذر ہوتے دیکھا تو یاد آیا کہ اس ہوٹل میں تو ہم بھی گئے تھے۔اس وقت بھی یہ خیال آیا تھا کہ دریا کا راستہ بند کرکے‘ خوبصورت منظر تباہ کرکے ہوٹل کس محکمے کی جازت سے بنائے گئے ہیں ؟ ایک دو نہیں ہوٹلوں کی قطار کی قطار دریا کو ناراض کرکے اور اصول و ضابطوں کی خلاف ورزی کرکے بنائی گئی تھی۔آبی گزرگاہوں کو بند کرنے کا انتقام پانی خود لے لیتا ہے اور اس بار بھی کاغان ‘ سوات سمیت یہ انتقام نظر آرہا ہے ۔ ہم آسمانی آفتوں کی دہائی دیتے ہیں لیکن زمین پر انسانوں نے جو آفتیں مچا رکھی ہیں اور اپنے پیروں پر خود کلہاڑیاں چلا رکھی ہیں ان پر بات کم کم ہوتی ہے۔ آسمان اور زمین بپھرتے ہیں تو محکمانہ رشوت خوری اور ناجائز تعمیرات کی اجازت کاخمیازہ ساری بستی اور سارا شہر بھگتتا ہے ۔ہم نے انسانوں کے راستے تو بند کیے ہی تھے‘ پانی کے راستے بھی بند کردیے‘ لیکن پانی انسان نہیں ہوتا کہ رک جائے اور رو دھو کر چپ ہوجائے ۔ وہ اپنا راستہ بنانا جانتا ہے ۔
شمالی علاقہ جات میں پانچ نوجوان بیچ دریا میں ایک چٹان پر پھنسے اس مدد کا انتظار کرتے رہے جو کبھی نہیں آئی ۔بالآخر دریا اس چٹان پر سے بھی گزر گیا اور یہ لوگ اپنی جان سے گزر گئے ۔ ویڈیو لرزہ خیز ہے ۔کس کی گردن پر خون ہے ان لوگوں کا جو حکومتی غفلت اور کاہلی کی نذر ہوگئے ؟کون مدعی ہوگا اور کون شہادت دے گا۔ نہ مدعی ‘نہ شہادت حساب پاک ہوا ۔ یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق ِخاک ہوا ۔سرکاری بیان تو یہی ہوگا کہ ان کی آئی ہوئی تھی سو آئی ہوئی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں کہ اسے سیاست دانوں کی بے حسی کہیں یا کیا کہیں‘کوئی استثنا ہے تو جماعت اسلامی کا‘ جو قومی المیوں میں ہر بار سب سے آگے نظر آتی ہے ۔ غیر سیاسی لوگوں میں مذہبی حلقے‘ دردِ دل رکھنے والے لوگ جنہیں مدد کرتے ہوئے تصویریں کھنچوانے کا شوق نہیں ‘ سب سے پہلے پہنچے اور اب تک جان و دل سے لگے ہوئے ہیں ۔ خیر سے عمران خان کو بھی سیلاب زدگان کا خیال آگیا اور وہ بھی دورے پر نکل آئے ورنہ شہباز گل سے زیادہ کوئی اہم قومی معاملہ انہیں علم نہیں تھا۔ہر طرف سے تنقید ہوئی تو پیپلز پارٹی نے بھی توجہ کی ‘ورنہ جس سندھ کے وہ تیس سال سے حکمر ان ہیں ‘وہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ مریم نواز اور شہباز شریف بھی فعال ہوئے کہ اب آوازیں بہت بلند ہوگئی تھیں ‘انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا‘ لیکن دلوں پر جو چوٹ پڑنی تھی ‘ اس سنگ دلی سے پڑچکی ۔یہ بے حسی ‘جو ملک کے طول و عرض میں سیلاب کے عین بیچوں بیچ تھی ‘ بالکل غیر انسانی لگتی تھی ۔ اب یہ اہلِ سیاست جو بھی کریں یہ رویے یہ شعر تو کہلوا ہی چکے ہیں۔
پڑے ہیں خاک پر لاشے تمہارے
کلیجے کیوں نہیں پھٹتے تمہارے
بہا کر لے گئی ہے رُودکوہی
ہزاروں جان کے ٹکڑے تمہارے
کبھی پانی کبھی کیچڑ سے نکلے
تمہارے سامنے بیٹے تمہارے
جنہیں تم دفن کرنے بھی نہ آئے
یہ سارے لوگ تھے بچے تمہارے
ہمارے جھوک ہیں قبریں ہماری
اور ان قبروں پہ ہیں کتبے تمہارے
تمہاری بے حسی ان بے بسوں پر
کہ جن کو کھا گئے لہجے تمہارے
یہ پانی تو نہیں ہے آئینہ ہے
دکھاتا ہے ہمیں چہرے تمہارے
تو پھر چیخیں سنائی دیں تمہیں بھی
نمٹ جائیں جو یہ میلے تمہارے
تو پھر ہم پوچھتے آرام زادو!
بچھڑتے گر یونہی پیارے تمہارے
کہیں ملتی نہ تم کو خشک مٹی
جنازے یوں ہی رہ جاتے تمہارے
تم اپنی بد نصیبی جانتے ہو؟
تمہارے بھی نہیں اپنے تمہارے
تمہیں کچے گھروں کی بددعا تھی
تمہی پر آگرے ملبے تمہارے
تو کیا جب ختم ہوجائیں گے ہم لوگ
نمٹ جائیں گے یہ جھگڑے تمہارے؟
سبھی کچھ بھولنا ممکن ہے لیکن
یہ کالے بدنما چہرے تمہارے
بالآخر ایک دن آئے گا وہ بھی
کہ ہوں گے فیصلے میرے تمہارے