بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی سرکاری ادارے یا وزارت یا اہم عہدے دار کی تحریری تعریف کرو تو یار دوست اسے چاپلوسی کے کھاتے میں ڈالنا شروع کردیتے ہیں یا مطلب براری سمجھ لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اس خوف اور ڈر سے بہت سے اہم کام جو واقعی قابلِ تعریف ہوتے ہیں‘ اپنے اصل حق سے محروم بھی رہتے ہیں اور ان کاموں کو وہ حوصلہ افزائی بھی نہیں ملتی جو کام کرنے والے کے جذبے کو مہمیزکرتی ہے۔ نتیجہ در نتیجہ یہ کہ جب وہ کام کرنے والا سبک دوش ہوتا ہے تب اسے اور ان کاموں کو یاد کیا جاتا ہے اور تب وہ تحریریں لکھی جاتی ہیں جو اصولاً بروقت لکھی جانی چاہئیں۔ یہی سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے اور رہے گا۔ واحد طریقہ یہی ہے کہ حرف کار ہر داد اور بیداد سے بالا تر ہوکر لکھے۔ جہاں تحسین بنتی ہے‘ وہاں بخل سے کام نہ لے اور جہاں تنقید کی ضرورت ہو‘ اس سے بھی گریز نہ کرے۔ اس کالم نگار کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے اور سابقہ کالم اور تحریریں اس کے گواہ ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان یعنی پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز قومی و علاقائی زبانوں‘ ادب اور ادیبوں کے لیے سب سے بڑا وفاقی ادارہ ہے۔ 1976ء میں قائم ہونے والا یہ ادارہ اب اپنی عمر کے 47سال پورے کر چکا ہے۔ اس تمام تر مدت میں بہت سے کام ہوئے بھی لیکن زیادہ تعداد ان کاموں کی ہے جو ہونے چاہیے تھے لیکن نہیں ہوئے۔ نہ ہونے کی وجوہات کیا تھیں؟ ہر سربراہ اپنی زنجیروں اور سرخ فیتوں کا بیان کرکے خاموش ہوتا رہا ہے لیکن ایک عام ادیب اور شاعر کا تاثر یہی رہا ہے کہ پچاس ساٹھ فیصد صورتوں میں یہ جواز درست نہیں ہوا کرتے۔ اکادمی ادبیات کی تقدیر میں اگر ادب اور ادیبوں کے لیے کام نہ ہوں تو پھر اس کا فائدہ محض یہی رہ جاتا ہے کہ یہ اپنے عملے کے پیٹ بھرتا رہے اور کوئی شک نہیں کہ ہم بہت سے گزشتہ ادوار میں یہی سب کچھ دیکھتے آئے ہیں۔ وہ ادوار بھی دیکھے جب ایک ایسے شخص کو ادارے کا سربراہ متعین کیا گیا جس سے زیادہ ادب سے بے بہرہ شخص کوئی مل نہیں سکتا تھا۔ وہ سال بھی گزرے جب اکادمی کا چیئرمین کسی اہم ادیب شاعر کو نہ پہچانتا تھا‘ نہ بھلے منہ بات کرنا پسند کرتا تھا۔ اس ادارے نے سیاسی تقرریاں بھی جھیلیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک اہم قلم کانفرنس کے موقع پر میں نے ایک سابق چیئرمین کی توجہ عدالتِ عظمیٰ کے نفاذِ اردو کے فیصلے کی طرف دلائی اور کہا کہ اس کانفرنس میں ایک قرارداد اس بارے میں بھی پیش ہونی چاہیے۔ بات کہتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ انہیں یہ بات سخت ناگوار گزری ہے؛ چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ یہ ہمارا کام نہیں‘ نہ ادیبوں کا کام ہے۔ آپ سوچئے کہ جب بے اعتنائی کا یہ حال ہو تو پھر کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
خیر‘ وہ ماہ و سال اپنے بنجر پن کے ساتھ گزر گئے اور بہت سے جاننے والوں پر وقت نے گمنامی کی خاک بھی ڈال دی۔ ہر آنے والے سے کچھ کر گزرنے کی امیدیں باندھی جاتیں اور پھر کچھ عرصے بعد ان امیدوں کی ڈوریں اپنے ہی ہاتھ سے توڑ دی جاتی تھیں۔ 2019ء میں جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی‘ شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر یوسف خشک کو چیئرمین اکادمی ادبیات مقرر کیا گیا۔ علم‘ ادب‘ تحقیق اور انتظامی حوالوں سے وہ معروف آدمی ہیں لیکن زیادہ امیدیں لگانے سے مایوسی بھی زیادہ ہوا کرتی ہے‘ سو زیادہ تر یہی سمجھا گیا کہ ایک اور سربراہ‘ ایک اور دورانیہ پورا کرکے اور مجبوریوں کے عذر پیش کرکے رخصت ہو جائے گا۔ اس تعیناتی کے فوراً بعد کورونا نے ملک کو آ دبوچا۔ اور بہت سے اقدامات سرے سے ممکن ہی نہ رہے لیکن اس کے باوجود وقتاً فوقتاً یہ دیکھ کر حیرانی ہونے لگی کہ آن لائن ادبی اجلاس اور مشاعروں وغیرہ کے ساتھ ساتھ رکے ہوئے تصنیفی کام بھی جو کب سے نظرِ التفات کے منتظر تھے‘ شائع ہونے لگے۔ یہ خبریں آنے لگیں کہ اکادمی فعال ہے اور مختلف جہات پر بہت سے کام ہورہے ہیں۔ کووِڈ نے شکنجے کچھ ڈھیلے کیے تو اہلِ قلم کانفرنس اور ایوانِ اعزاز کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ پہلے اس طرح کے اجتماعات میں بہت سی شکایتیں ہوتی تھیں لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس بار انتظامات بہت بہتر تھے۔ افسوس اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی فی البدیہہ تقریر اور ادیبوں سے بے نیازی زیرِ بحث رہی‘ میں نے بھی اس پر لکھا لیکن یہ بات بہت خوش آئند تھی کہ اکادمی اپنے مقاصد کو جانتی پہچانتی بھی ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہے۔
وقت بھی تبدیل ہوگیا اور حکومت بھی لیکن اکادمی کی اچھی خبریں آتی رہیں۔ پشاور میں اکادمی ادبیات کی اپنی عمارت کا افتتاح ہوا جو بڑا سنگِ میل تھا۔ کئی دیگر کانفرنسز منعقد ہوئیں۔ مختلف ملکوں کے سفیروں کے اکادمی کے دورے کی خبریں بھی ملتی رہیں اور قابلِ قدر ادبی شخصیات پر کتابیں بھی شائع ہوتی رہیں۔ ہر کام ایک خوشگوار حیرت لے کر آتا رہا حتیٰ کہ وقت گزشتہ دن کی ایک خوشگوار شام تک آپہنچا جو پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستانی ادب کے 75سال کے حوالوں سے شائع ہونے والی کتب کی تقریب اجرا تھی۔ لاہور کے معروف ادیب اور شاعر موجود تھے۔ استاذ الاساتذہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کی صدارت میں کئی مقررین نے عمدہ اظہارِ خیال کیا لیکن چیئرمین اکادمی ادبیات کا اظہار اور تصویری پریذنٹیشن اس حوالے سے بہت قابلِ ذکر تھی کہ انہوں نے ان تمام کاموں کا ذکر کیا جو اکادمی کے تحت اس دورانیے میں ہوئے ہیں یا زیر تکمیل ہیں۔ بے شمار ممالک سے ایم او یوز‘ پشاور کی عمارت‘ کانفرنسز‘ کورونا کے حوالے سے ادیبانہ تخلیقات‘ تحقیقی کام اور کتب وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب حاضرین سوچ میں تھے کہ کیا اس سے پہلے کسی دور میں اتنا متنوع کام کیا گیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ کبھی نہیں ہوا۔ دانش وروں‘ ادیبوں‘ شاعروں کی نازک مزاجی بھی سب کو معلوم ہے اور اب اگر ان کے منہ پر کلماتِ خیر ہیں تو یہ یقینا بڑی بات ہے۔ اصیل تخلیق کاروں کے لیے نام اہم نہیں ہوتا‘ کام اہم ہوتا ہے۔ کوئی بھی کر جائے‘ تحسین اس کے حصے میں بھی آئے گی۔
لیکن جو کام ابھی نہیں ہو سکا وہ زیادہ اہم ہے۔ نصف صدی کے قریب گزر جانے کے باوجود اکادمی ادبیات کے اپنے دفتر پنجاب‘ بلوچستان اور سندھ میں موجود نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا موقف یہ ہے کہ اس کے لیے زمین صوبائی حکومتیں فراہم کریں تو عمارت کے لیے رقوم دی جا سکتی ہیں۔ خدا خدا کرکے کے پی میں یہ مرحلہ طے ہوا۔ زمین صوبائی حکومت نے دی اور عمارت تعمیر ہوگئی لیکن باقی جگہوں پر اکادمی ہنوز در بدر پھرنے اور مانگے تانگے کی عمارتوں میں کام چلانے پر مجبور ہے۔ پنجاب بڑا صوبہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب چودھری پرویز الٰہی نے سابقہ دور میں پلاک جیسا علمی ادبی ادارہ قائم کیا تھا۔ کیا وہ ادھر توجہ کریں گے؟ کیا اس بڑے مقصد کے لیے چودھری صاحب فیاضی نہیں دکھا سکتے؟ لاہور کا لگ بھگ رقبہ 18سومربع کلو میٹر ہے۔ کیا پنجاب حکومت کے لیے اس میں سے چند کنال زمین نکالنا بہت مشکل ہے؟ پنجاب آگے بڑھے تو دوسرے صوبے بھی اس کی تقلید کریں گے۔ جناب چودھری پرویز الٰہی صاحب! کیا یہ ناممکن کام ہے؟