"SUC" (space) message & send to 7575

شاخ پر کھلا ہوا پرندہ

سرد علاقوں میں اکتوبر کا مہینہ شروع ہو جائے توسبز درخت سرخ اور نارنجی ہونے لگتے ہیں اور درختوں پر جتنے پتے ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ درخت کے نیچے پتاور میں بکھر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں جب شام ڈھلے خوب صورت شوخ اور اداس رنگ آسمان پر جگمگانے لگتے ہیں تو مجھے ''الکلی‘‘ یاد آتا ہے۔ یہ اکتوبر کا مہینہ ہے اور ان دنوں الکلی (Ilkely) کا ادبی میلہ اپنی گہما گہمی کی مہک میں مست ہوگا۔ الکلی آڈیٹوریم میں ادیبوں‘ شاعروں کا جمگھٹا ہوگا اور ادب کے شائقین مضامین‘ نظمیں اور غزلیں سن رہے ہوں گے۔ مینور ہاؤس میوزیم کے سامنے سڑک کے پاردریا میں اترتی سیڑھیوں پر کچھ لوگ بیٹھے ہوں گے اور سفید راج ہنسوں‘ برّاق بطخوں اور نیلی گردن‘ جامنی پروں والی مرغابیوں کو آہستگی سے دریا میں تیرتے دیکھ رہے ہوں گے۔ زندگی ویسی ہی شانت ہوگی جیسے اس دریائے وہارف (Wharfe) کا پانی۔ اس منظرکو میں بالکل سامنے دیکھ سکتا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا ہمارے سامنے تھا۔ ایک سرخ رنگ کا پرندہ درخت پر بیٹھا ہوگا جیسے کوئی شاخ پر کھلا ہوا پھول ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے اُس دن تھا۔
الکلی شمالی انگلینڈ میں ویسٹ یارک شائرکا ایک قصبہ ہے۔ ایک ایسا خوبصورت اور پُرسکون رہائشی قصبہ جہاں سے لیڈز (Leeds) اور بریڈ فورڈ (Bradford) جیسے بڑے شہر بھی تیس چالیس منٹ کی ڈرائیو پر ہیں۔ اور لوگ ان شہروں میں کام کاج کے لیے جاکر اس قصبے میں اپنے گھروں کو واپس آسکتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے بھی یہ جگہ قابلِ توجہ ہے کہ دھاتی دور کے انسان کی نشانیاں اس علاقے میں موجود ہیں۔ رومن دور کی تعمیرات بھی توجہ کا مرکز ہیں لیکن ہم ادیبوں اور شاعروں کے لیے تو اصل میں یہ قصبہ اپنے ادبی میلے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ شاید یہ ادبی میلہ نہ ہوتا تو الکلی اتنا اہم بھی نہ گردانا جاتا۔ ہر سال اکتوبر کے شروع میں یہ دو ہفتے کا ادبی میلہ سجتا ہے۔ اس سال یہ میلہ 29ستمبر سے 15اکتوبر تک اپنی 250 مختلف قسم کی تقریبات کے ساتھ جاری رہے گا۔ قصبے اور اطراف کے ادب دوست رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور ان دنوں الکلی برطانیہ کے اہلِ ادب کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ ان تقریبات میں ایک بہت منفرد اور رنگا رنگ بین اللسانی مشاعرہ بھی شامل ہوتا ہے۔ میں نامور شاعر جناب ناصر کاظمی کے بڑے بیٹے باصر کاظمی کے ذریعے اس مشاعرے سے متعارف ہوا تھا جو خود بھی معروف شاعر اور میرے دیرینہ دوست ہیں۔ میں انہی کے توسط سے فیسٹیول کی ڈائریکٹر ریچل فیلڈ برگ کی دعوت پر ان مشاعروں میں بطور مہمانِ خصوصی 2010ء اور 2012ء میں شرکت کر چکا ہوں۔ یہ مشاعرہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے میزبان اور منتظم گورے ہیں ایشیائی نہیں اور دوسرے یہ کہ یہ مشاعرہ بیک وقت انگریزی‘ اردو‘ بنگالی‘ ہندی اور دیگر زبانوں میں منعقد ہوتا ہے۔
یہ1971ء کی بات ہے جب الکلی کے مکین اور یارک شائر آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر مائیکل ڈاسن نے الکلی کے ایک اور مکین پیٹر ہارلینڈ سے الکلی میں ایک ادبی تہوار منانے کا خیال ظاہر کیا۔ پیٹر ہارلینڈ اس وقت دی ٹیلیگراف کے ایڈیٹر اور یارک شائر آرٹس پینل کے عہدے دار تھے۔ مائیکل ڈاسن انہی دنوں چیلٹن ہیم (Chaltenhem) ادبی تہوار میں شامل ہوکر آئے تھے اور دونوں دوست انہی خطوط پر الکلی میں بھی ایک روایت کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ کام بتدریج آگے بڑھا رہا‘ ادھر ادھر سے حوصلہ افزائی ہوئی۔ بس وہی بات کہ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ پہلا فیسٹیول اپریل 1973ء میں منعقد ہوا اور مشہور انگریز شاعر ڈبلیو ایچ آڈن (W. H. Auden) نے اس کا افتتاح کیا۔ بعد کے برسوں میں یہ پندرہ روزہ تہوار منعقد ہوتا رہا اور 1988ء سے اب تک بلا ناغہ ہر سال منعقد ہورہا ہے۔ اس کی موجودہ ڈائریکٹر ریچل فیلڈ برگ ہیں جو بہت کامیابی سے یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔باصر کاظمی اور یوکے میں مقیم دیگر پاکستانی اہلِ قلم کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے فیسٹیول کے منتظمین کی توجہ مشاعرے کی طرف دلائی اور اسے فیسٹیول کی تقریبات میں ایک تقریب کے طور پر شامل کروایا۔ اب مختلف زبانوں کے شاعر ایک ہی وقت میں یہاں سامعین کے سامنے اپنی اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں اور اکثر ان کے انگریزی تراجم بھی ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ یوں اس مشاعرے کی نوعیت دنیا بھر کے مشاعروں سے الگ اور منفرد ہو جاتی ہے۔
اس مشاعرے کی نظامت ہمیشہ ہیلن روز گڈوے کرتی ہیں اور انگریزی کے علاوہ زیادہ تعداد اردو شاعروں کی ہوتی ہے۔ اس تہوار میں میری ملاقاتیں یہاں بھارتی نژاد شاعرہ ڈیب جانی چیٹر جی اور سائمن فلیچر اور واٹسن نامی معروف انگریز شعرا سے بھی ہوئی۔ مزے کی بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ شعرا اردو غزل کے آہنگ اور صوتی خوبصورتیوں سے اتنے متاثر ہیں کہ وہ انگریزی میں قافیے اور ردیف کی پابندیوں کے ساتھ غزل لکھنے کا تجربہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے کی تخلیقات انہوں نے پیش بھی کیں اور یوکے میں مقیم پاکستانی شعرا نے ان کی رہنمائی بھی کی۔ ایک مشاعرے میں واٹسن کی انگریزی غزل کا اردو غزل میں منظوم ترجمہ یوکے میں مقیم معروف اردو شاعرہ گلناز کوثر نے پیش کیا۔ سائمن فلیچرسے یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ چاہے ہم اردو غزل کے الفاظ نہ سمجھ رہے ہوں لیکن اس کا آہنگ‘ ردیف کی تکرار اور آوازوں کی نشست و برخاست مطلب جانے بغیر بھی بھلے لگتے ہیں۔ ہماری اردو شاعری خصوصاً غزل نے جو دیگر زبانوں اور ان زبانوں کے لکھنے والوں پر جواثرات چھوڑے ہیں یہ جملہ اس کی ایک بار پھر تصدیق تھی اور اس طرح اپنے ادبی سرمائے پر فخر اور اسے بیش قیمت جاننے کا یقین اور مستحکم ہوا۔ الکلی مشاعرے کے بعد اترتی خزاں کے خنک موسم میں ہندوپاک کے انداز کے گرما گرم پکوڑوں اور چائے کافی کا لطف شاعری پر مستزاد ہوتا ہے۔ اور اسی چائے کے دوران ادیبوں شاعروں سے گپ شپ کا موقع بھی فراہم ہو جاتا ہے۔ 2012ء میں کوونٹری‘ برمنگھم سے الکلی اور پھر واپس کوونٹری کا سفر عزیز دوستوں شاہین مرزا‘ گلناز کوثر‘ ڈنمارک سے مہمان شاعرہ صدف مرزا اور امریکہ سے مہمان شاعرہ ناہید ورک کے ساتھ ہوا تھا۔ یہ سفر بذاتِ خود بہت پُرلطف تھا۔ اس لطف میں جملے بازی‘ لطیفے اور شاعری بھی شریکِ سفر تھے۔ الکلی یاد آئے اور یہ سفر یاد نہ آئے‘ کیسے ہو سکتا ہے۔
الکلی ایک خوبصورت قصبہ ہے جو 1319فٹ بلند الکلی مور (Ilkely moore) نامی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ ہم مشاعرے سے واپس لوٹتے ہوئے کچھ دیر اس پہاڑی پر ''گائے اور بچھڑا‘‘ کے پاس رکے۔ دراصل یہاں ایک بڑی چٹان اور اس کے قریب موجود ایک چھوٹی چٹان کو یہ نام گائے اور بچھڑا (Cow and Calf) دیا گیا ہے۔یہاں ایک چھوٹا سا چائے خانہ بھی موجود ہے۔ اس بلندی سے گائے اور بچھڑے کو پس پشت رکھ کر وادی کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں تو مدوّر ڈھلوانوں پر لہریں لیتی وادی سامنے کھلی نظر آتی ہے۔ دور تک نظر جاتی ہے اور جہاں تک نظر جائے سبز اور خاکی رنگوں کے امتزاج سے سیراب ہوتی نظر آتی ہے۔ پہلی بار اس منظر پر نظر ڈالی تو مجھے لگا کہ یہ مختلف زبانوں کی رنگ دار لہریں ہیں۔ ایک زبان دوسری زبان کے متوازی مگر اس سے پیوست ہے اور وہ اگلی زبان سے۔ ہر ایک زبان‘ ادب‘ ثقافت کا رنگ جدا ہے اور یہ سب رنگ مل کر ایک وادی کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایک رنگ رنگ کی ثقافت ہے جس کا نام الکلی ہے۔ الکلی اور ہے بھی کیا‘ زبانوں سے بنی ایک وادی ہی تو ہے۔ ایک باغ جس کی گفتگو اور طرح کی ہے۔
دیکھو تو یہ سرخ رنگ طائر
اس باغ میں پھول بولتے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں