جنوری کی ایک چمکیلی سرد صبح تھی۔ میں تہران کی شاہراہ فردوسی پر ایک بڑے بینک کے سامنے حیران کم پریشان زیادہ کھڑا تھا۔ بینک کے سامنے چھوٹی چھوٹی چوکیوں پر‘ اپنے اپنے سامنے شیشے کی شوکیسیاں سجائے بہت سے کرنسی تبدیل کرنے والے بیٹھے تھے۔ میں صرف 100 امریکی ڈالرز بھنوانے نکلا تھا اور اب پریشان تھا کہ ایرانی ریالوں کی وہ گڈیاں جیبوں میں کس طرح ٹھونسوں جو مجھے ملی تھیں۔ ایرانی کرنسی کے بارے میں ایک چکرا دینے والی بات تو یہ ہے کہ ساری کرنسی پر ریال کا نام چھپتا ہے اور سرکاری کرنسی بھی ریال ہے لیکن عام بول چال میں تومان کا لفظ اور یونٹ استعمال ہوتا ہے۔ ایک اجنبی‘ مسافر اور سیاح کے لیے یہ پریشان کن معاملہ ہے۔ یہ تو مجھے اندازہ اس وقت بھی تھا کہ ایرانی ریال کی قدر و قیمت بہت کم ہے لیکن جب میں نے 100 ڈالرز تبدیل کروائے اور دکاندار نے نوٹوں کی اتنی گڈیاں میرے ہاتھوں میں تھمائیں جو دونوں ہاتھوں میں پوری آہی نہیں سکتی تھیں تو حیرانی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت نے مجھے ڈھانپ لیا۔ اور پریشانی کی قابلِ فہم وجوہات تھیں۔ یہ نوٹ گنے کیسے جائیں؟ اور اس پر کتنا وقت صرف ہو؟ کیسے یہ معلوم ہو کہ دکاندار نے ڈنڈی نہیں ماری۔ اتنی گڈیاں جیب میں رکھی کیسے جائیں؟ جیب کیا‘ ان کے لیے تو ایک تھیلا درکار تھا۔ یہ تھیلا جگہ جگہ اٹھائے پھرنا ایک الگ مصیبت تھی۔ میں نے جوں توں یہ گڈیاں ٹھونسیں۔ ہر شے کی قیمت ہزاروں‘ لاکھوں ریال میں تھی۔ لاکھوں ریال کا دو وقت کا کھانا کھایا‘ لاکھوں ریال کی کتابیں خریدیں۔ بازار بزرک سے لاکھوں کا خشک میوہ خریدا۔ نتیجہ یہ کہ دوسرے دن میں پھر ڈالرز بھنوانے اسی دکان دار کے پاس کھڑا تھا۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ میں 12سال پہلے کی بات کر رہا ہوں جب ایرانی تومان اور ریال کے یونٹ اس طرح نہیں تھے جیسے آج کل ہیں اور جو چند سال پہلے شروع کیے گئے ہیں۔میں اس وقت بھی حیران ہوا تھا کہ لوگ روزمرہ خریداری کے لیے اتنا بوجھ اٹھا کر کیسے چلتے ہوں گے۔
یہ حیرانی آج بھی کم نہیں ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ ایک امریکی ڈالر سرکاری نرخ پر تو 42ہزار تین سو ایرانی ریال کے مساوی ہے لیکن کھلی مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت 2 لاکھ 81ہزار ایرانی ریال ہے۔ یعنی سات گنا زیادہ۔ یہ اس طرح سمجھئے کہ موجودہ ڈالر ریٹ کے مطابق ایک پاکستانی روپیہ 1250ایرانی ریال کے مساوی ہے۔ ایران ان ممالک میں ہے جہاں افراطِ زر دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے28 اگست2022 ء کو ایک پریس کانفرنس میں اقرار کیا تھا کہ ایران میں اس وقت افراطِ زر 60فیصد ہے جبکہ اس سے قبل سرکاری اعداد و شمار میں افراطِ زر کی شرح 54فیصد تھی۔ نتیجہ یہ کہ اشیائے خور و نوش انتہائی مہنگی ہو چکی ہیں۔
ایران ایک پیارا ملک ہے۔ لوگ خوب صورت ہیں۔ آرٹس اور فنونِ لطیفہ اس کی تاریخ اور ثقافت کی رگ رگ میں ہیں۔ پھر پاکستان کی ہمسائیگی ہمارے لیے اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتی ہے۔ زبان‘ ادب اور ثقافت کے رشتے الگ ہیں اس لیے اس کے دکھ سکھ ہمارے دلوں پر بھی وارد ہوتے ہیں۔ اور اگر ایک عام ایرانی تکلیف سے گزرتا ہے تو دوسرے ملکوں کی نسبت ہم پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ چابہار ہو‘ افغانستان ہو یا کلبھوشن۔ موجودہ زمانے میں ان پالیسیوں اور اقدامات کا تاثر ہماری حکومتوں اور عام شخص پر منفی پڑتا رہا ہے۔ حالانکہ یہ برادر ملک وہ ہے جس سے ہمارے ایک زمانے میں بہت قریبی رشتے قائم تھے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایران کا دوستانہ رویہ ہمیں آج بھی یاد ہے۔ آر سی ڈی‘ بعد میں( او آر سی ڈی) کے رشتے نے اسے مزید مضبوط کیا تھا۔ میں اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے اس رشتے کی مٹھاس دیکھی ہے۔ شاہِ ایران کی شہنشاہیت کا دور دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ شہنشاہ رضا شاہ پہلوی اور ملکہ فرح دیبا جب پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو ہم بچوں نے حیرت اور خوشی سے دیکھا تھا کہ اچھا! شہنشاہ اور ملکہ ان شکلوں اور ایسے لباسوں والے ہوتے ہیں۔ وہ تاثر کبھی ذہنوں سے مٹا نہیں۔ اس وقت بھی نہیں جب شاہِ ایران پناہ کی تلاش میں دنیا بھر میں مارا مارا پھر رہا تھا۔
سچ یہ ہے کہ برادر اور ہمسایہ ملک ہونے اور صدیوں پرانے متنوع رابطوں کے باعث یہ باتیں دل دکھاتی ہیں۔ ایران میں حالیہ مسلسل مظاہروں کے بعد جن کا پھیلاؤ اب تقریباً پورے ملک کو لپیٹ میں لے چکا ہے اور کم و بیش 20دن سے یہ سلسلہ روز افزوں ہے‘ صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو موجودہ واقعات کے پیچھے بے شمار دیگر معاملات بھی ہیں جن کی جڑیں معاشیات اور لوگوں کی مسلسل بے چینی میں گہری اتری ہوئی ہیں۔ ایران آج کل جن شدید مظاہروں کی زد میں ہے ان کا آغاز 12ستمبر کو ایک 22 سالہ کرد نوجوان لڑکی مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ناگہانی موت سے ہوا ہے جسے اخلاقی پولیس نے حجاب اور سر کا سکارف سرکاری ہدایتی طریقے کے مطابق نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا۔ مہسا پولیس حراست میں اچانک گری اور تین دن کومہ میں رہنے کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔ پولیس کے مطابق یہ موت تشدد سے نہیں دل کے دورے سے ہوئی لیکن مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ موت پولیس تشدد کے باعث ہوئی ہے ۔ یہ مظاہرے دو طبقات کی طرف سے شروع ہوئے۔پھر ان مظاہروں میں کرد قومیت کا عنصر بھی شامل ہوگیا۔ ایران میں مقتدر قوتوں کے خلاف ایک طبقہ تو شروع ہی سے تھا جو ایرانی انقلاب کے بعد اگرچہ طاقت میں نہیں تھا لیکن مسلسل بے چین تھا۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اگرچہ حکومت کے خلاف نہیں لیکن مہنگائی‘ اشیا کی نایابی‘ ملازمتوں کی کمی اور حکومت کی طرف سے ناقص کارکردگی کی بنیاد پر پہلے طبقے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ ایک انداز ے کے مطابق ایران میں جاری مظاہروں میں اب تک 80 سے 90 لوگ ہلاک اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس دوران سوشل میڈیا ایپلی کیشنز بند کر دی گئیں۔ اسی دوران زاہدان‘ جو ایرانی بلوچستان کا شہر ہے‘ ہنگاموں کی زد میں آگیا اور وہاں دو طرفہ فائرنگ میں 19افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ان مظاہروں کی پشت پناہی امریکہ اور اسرائیل کر رہے ہیں۔ یقینا یہ پشت پناہی ہو گی اور ماضی میں بھی رہی ہے لیکن بات صرف اتنی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ان مظاہروں کی قیادت خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ کبھی تہران یا ایران کے کسی شہر میں دیکھیں تو ایرانی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد علی الصباح کام پر جاتی دکھائی دیتی ہے۔ کم از کم میں نے اتنی بڑی تعداد میں خواتین کسی شہر میں کام پر جاتے نہیں دیکھیں۔ سیاہ عبایا میں ملبوس یہ خواتین چونکہ روزمرہ ملازمتوں اور کاروبار کے تجربوں سے گزرتی ہیں‘ اس لیے ان میں خود اعتمادی بھی بہت زیادہ ہے۔ جو لوگ گرفتار کیے گئے ان میں فائزہ ہاشمی بھی شامل ہیں جو سابق مرحوم صدر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی ہیں۔ سرکاری طور پر یہ اعلان بھی کیا گیا کہ جرمنی‘ پولینڈ‘ اٹلی‘ فرانس‘ نیدر لینڈ اور سویڈن کے 9افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو مظاہرین میں شامل تھے۔ بیرونی ممالک میں مقیم ایرانیوں نے بھی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔
بات یہی ہے کہ رجعت پسند قوانین اور اقدامات تنہا کسی معاشرے کو مطمئن کرنے کے لیے قطعاً ناکافی ہوتے ہیں جب معاشی طور پر لوگ جبر کی زد میں ہوں۔ آنے والے وقت میں ملکی قیادت کیا یہ بھانپ کر عوام کو ریلیف مہیا کر سکے گی؟ حکومت کے خلاف طاقت ور لہر سر سے گزرنے سے پہلے یہ ریلیف ضروری ہے۔ یہ لہر کتنی طاقت ور ہوگی اور کتنی دور اثر‘ یہ وقت بتائے گا۔ ہم تو اپنے ہمسایہ ملک کے لیے خیر کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔