15جولائی 2022ء کو ایئر کینیڈا کی نیو آرک ایئر پورٹ نیو جرسی امریکہ سے ٹورنٹو کے پیئرسن ایئر پورٹ کے لیے پرواز کئی حوالوں سے تکلیف دہ تھی۔ پرواز میں گھنٹوں کی تاخیر‘ تھکا دینے والا انتظار اور پھر پیئرسن ایئر پورٹ پر اپنا سامان حاصل کرنے میں بد نظمی۔ پہلی بار سنا اور دیکھا کہ الیکٹرانک بورڈ پر کیراسول نمبر 11پر ہمارا سامان آنا تھا۔ کم و بیش تیس منٹ لاحاصلی اور انتظارِ ساغر کھینچنے کے بعد سینہ بہ سینہ یہ معلوم ہوا کہ جی نہیں‘ اب کیراسول نمبر 8 پر سامان آئے گا۔ یہ شرمندگی الگ تھی کہ دوست بہت دیر سے باہر میرا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ سب باتیں مل کر وجود کے کسی کونے میں اپنا اپنا بوجھ ڈالتی رہیں اور بیزاری و کوفت میں سر درد کا بھی اضافہ ہوتا گیا۔ میرے میزبان اور ٹورنٹو میں مقیم بہت عمدہ غزل گو برادرم عرفان ستار اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر منتظر تھے۔ ان کا پہلا بنایا ہوا پروگرام پرواز کی تاخیر کی وجہ سے تلپٹ ہو چکا تھا چنانچہ وہ سیدھے ایک معروف چینی ریستوران میں لے گئے۔ پُر لطف گفتگو‘ بہت مختلف اور خوش ذائقہ کھانوں‘ دوستوں کی ہمراہی اور شکم سیری نے بالآخر طبیعت بحال کردی اور جب مجھے میرے ہوٹل پہنچایا گیا تو وجود سے بیزاری اور سر درد غائب ہوکر صرف تھکن اور نیند رہ گئی تھیں۔
ایک لمبی‘ گہری اور بھرپور نیند کے بعد صبح ناشتے پر پہنچا تو دھوپ اور پھول دونوں ایک ساتھ کھلے ہوئے تھے۔ صبح‘ جس کا آغاز بنفشی (violet) رنگ سے ہوا تھا لیکن بتدریج طلائی رنگ اس پرغالب آتا گیا۔
کھلی وہ صبح بنفشے کا پھول ہو جیسے
طلائی رنگ شروعات میں نہیں آیا
چمک دار نیلا آسمان آلودگی سے پاک فضا میں زیادہ ہی نیلا ہو جاتا ہے۔ قدرت کے اس جادو‘ اس مصوری کی داد کیسے دی جائے کہ ایک ہی رنگ میں اسی گھرانے کے کتنے رنگ چھپے ہوتے ہیں۔ کتنے خوب صورت نام ہیں رنگوں کے جو ہم نے فراموش بھی کردیے اور استعمال کرنا بھی چھوڑ دیے۔ صرف نیل فام گھرانے ہی کے کچھ لوگ یاد کیجیے۔ نیلا‘ آسمانی‘ نیلوفری‘ لاجورد اور اَزرَق۔ اس لاجورد کے لفظ کو دیکھیے۔ کتنا حسین لفظ ہے۔ یوں تو نیلے رنگ کے قیمتی پتھروں میں نیلم بہت مشہور ہے مگر Lapis lazuli نامی شوخ رنگ اور گہرا نیلا پتھر یعنی سنگِ لاجورد کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ اسی وجہ سے آسمان کا رنگ بھی بعض دفعہ لاجوردی کہلاتا ہے۔ گرم کافی کی چسکیوں کے ساتھ میں یہ منظر بھی جرعہ جرعہ پیتا گیا اور مسی ساگا‘ ٹورنٹو کینیڈا کی اس حسین صبح سے سیراب ہوتا گیا۔
براعظم شمالی امریکہ کا یہ خوبصورت ملک جسے ہم کینیڈا کے نام سے جانتے ہیں‘ زمینی رقبے کے اعتبار سے روس کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ ایک بڑے سمندر بحر اوقیانوس سے دوسرے بڑے سمندر بحر الکاہل تک اور شمال میں اوپر قطب شمالی تک پھیلا ہوا کینیڈا 9.98 ملین مربع کلو میٹر کا رقبہ رکھتا ہے۔ اگر اس میں ان جھیلوں کا رقبہ یعنی 11.76فیصد نکال دیا جائے جو کینیڈا میں بہت بڑی تعداد میں ہیں تو پھر یہ چوتھا بڑا ملک بن جاتا ہے۔ کینیڈا میں دنیا کی سب سے بڑی ساحلی پٹی ہے جس کی لمبائی دو لاکھ کلو میٹر سے زائد ہے۔ مغرب اور جنوب میں یہ امریکہ سے 8891 کلو میٹر لمبی سرحد کے ساتھ ملتا ہے جو دنیا میں کوئی بھی دو ممالک کے بیچ سب سے طویل سرحد ہے۔ کینیڈا 10 صوبوں اور تین مشمولہ علاقوں پر مشتمل ہے۔ دارالحکومت اوٹاوا ہے اور تین بڑے میٹرو پولیٹن علاقے ٹورنٹو‘ مونٹریال اور وینکوور ہیں۔ انگریزی اور فرانسیسی دونوں ہی قومی زبانیں ہیں کیونکہ کیوبک صوبے سمیت بہت سے علاقے فرانسیسی نژاد آبادی پر مشتمل ہیں۔ کینیڈا اپنے رقبے‘ وافر قدرتی وسائل اور تجارتی راستوں کی بدولت دنیا کے خوشحال ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن بات اتنی ہی نہیں‘ تعلیم‘ تمدن اور بہترین منصوبہ بندی نے بھی اس ملک کو بامِ عروج تک پہنچایا ہے۔ قطب شمالی کے قریبی علاقوں میں موسم سخت سرد اور ناقابلِ برداشت ہوتا ہے لیکن صوبہ اونٹاریو اور امریکہ سے متصل علاقوں میں سردی کی شدت بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ ٹورنٹو کے دوستوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر کینیڈا پر بھی پڑا ہے اور اب سردیوں میں برف کی وہ شدت نہیں ہوتی۔
میرا کینیڈا پہلی بار جانا ہوا تھا اس لیے ایک اجنبی سرزمین کو نووارد آنکھوں سے دیکھنے کا جو لطف ہے وہ کشید کر رہا تھا‘ اور مزید کا ارادہ بھی تھا۔ اس دن یعنی 16جولائی کو دوپہر ظہرانے کے بعد وہ تقریب تھی جو ٹورنٹو کی بڑی ادبی شخصیت اور عمدہ شاعر جناب اشفاق حسین نے عرفان ستار کے ساتھ مل کر میرے لیے منعقد کی تھی۔ ہم اس تقریب میں پہنچے تو ٹورنٹو کی بہترین ادبی شخصیات موجود تھیں۔ یہ موجودگی اس لیے زیادہ خوش کن تھی کہ اسی دن ٹورنٹو میں کئی تقریبات منعقد ہورہی تھیں۔ ان لوگوں میں اکثر سے میری کہیں نہ کہیں پہلے ملاقاتیں ہو چکی تھیں‘ بعض شاعروں اور شاعرات سے براہِ راست ملاقات کا یہ پہلا موقع تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اشفاق حسین نے بہت جچے تلے انداز میں عمدگی سے اس تقریب کا انتظام کیا تھا۔ وہ اردو انٹر نیشنل کے بینر تلے بہت سی چھوٹی بڑی تقریبات کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے صرف مدعو شعرا اور شاعرات کو کلام سنانے کے لیے بلایا اور وہ بھی مختصر کلام۔ مقصد یہی تھا کہ مہمان یعنی سعود عثمانی کو زیادہ گفتگو اور کلام کا موقع مل سکے۔ صدارت ڈاکٹر شہناز شورو کی تھی جو شعر و ادب کا معروف نام ہے اور نظامت خود اشفاق حسین صاحب نے کی۔
میں نے شاعر ی سے قبل اپنی مختصر گفتگو میں عرض کیا کہ اگرچہ یہاں میں پہلی بار آیا ہوں لیکن ادبی دوستوں کے نام‘ کام اور مقام سے بخوبی آشنا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل مجھ سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ برصغیر پاک و ہند سے باہر اردو کی نئی بستیوں میں سب سے بڑا مرکز آپ کسے سمجھتے ہیں تو بے شمار شہروں کے اہلِ ادب سے آشنا ہونے اور ملاقاتیں ہونے کے باوجود ٹورنٹو کا نام ذہن میں آیا جہاں میرا جانا نہیں ہو سکا تھا۔ اس کی وجہ معیار‘ تنوع‘ رنگا رنگی اور مقدار سب کا ایک اجتماعی تاثر ہے۔ یہ تقریب بہت بھرپور رہی۔ منتخب اور اعلیٰ کلام نے بھی سرشار کیا اور ملاقاتوں نے بھی۔ میرے لیے یہ بہت خوشی کی بات تھی کہ میری گفتگو اور کلام‘ دونوں کو بہت سراہا گیا۔
جولائی کا مہینہ اگرچہ اونٹاریو‘ بلکہ نصف کینیڈا میں گرم مہینوں میں شمار ہوتا ہے اور جن دنوں میں وہاں تھا‘ اس وقت درجۂ حرارت 38اور 40 سینٹی گریڈ کے قریب پہنچ جاتا تھا۔ حکومت کئی بار ہیٹ وارننگ بھی جاری کردیتی تھی۔ مجھ جیسے لاہور کی گرمی چکھے ہوئے کو یہ موسم گرم نہیں خوشگوار ہی لگتا تھا؛ تاہم سورج کی تمازت مسلسل سائے کی طلب پیدا کرتی رہتی تھی۔ ذرا دیکھئے موسم اور ماحول ادب پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ میرے خیال میں عرب اور برصغیر سمیت گرم اور شدید گرم ممالک میں سایہ ادب میں جو قدر و قیمت رکھتا ہے اور اس پر جتنے شعر کہے گئے ہیں‘ سرد ممالک میں ان کے مقابلے میں شاعری میں سایہ دس فیصد بھی نہیں آیا ہوگا۔ سایۂ دیوار سے سایۂ شجر تک دھوپ اور سائے کے کتنے ہی رخ تلاش کیے گئے ہیں۔ اور تو اور محبوب کی پلکوں کے سائے تک تلاش کر لیے گئے ہیں۔ دو شعر سن لیں:
گزرے ہزار بادل پلکوں کے سائے سائے
اترے ہزار سورج اک شہ نشین دل پر
(احمد مشتاق)
سایہ طلب گئے جدھر‘ بول اٹھے وہی شجر
آئے ہو اب مسافرو! جب ہمیں دھوپ کھا گئی
(محشر بدایونی)