اوائلِ نومبر کی راتیں ٹھنڈی ہیں اور دن خوشگوار۔ ایئر کنڈیشنرز کا شور ختم ہوگیا ہے اور کوئی دن کی بات ہے کہ پنکھوں کی آوازیں‘ جو ابھی یہاں وہاں سے آرہی ہیں‘ دم توڑ جائیں گی۔ کم از کم ماہِ مارچ کے آخر تک یہ سکون رہے گا کہ ایک طرف اس شور سے نجات ملے گی اور دوسری طرف بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں سے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ آوازیں جو ویسے زندگی کے لیے لازم ہیں‘ ان مہینوں میں خاموش ہوتی ہیں تو کیسا سکون بھرا سکوت جنم لیتا ہے۔ وہ سکون جو اب شہروں میں تو کیا دیہات میں بھی میسر نہیں کیونکہ جہاں جہاں بجلی ہے‘ وہاں یہ شور بھی لازم ہے۔ سوتے وقت اوڑھنے کے کھیس اور موٹی چادریں نظر آنے لگی ہیں۔ صبح اور شام کے وقت ان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کچھ دن کے بعد ان کی جگہ پتلی رضائیاں لے لیں گی اور ان کی جگہ موٹے کمبل اور روئی کے لحاف۔ سردی کی آہٹ اکتوبر ہی سے سنائی دینے لگتی ہے۔ عام طور پر اکتوبر‘ نومبر میں لاہور اور بالائی پنجاب میں بارشیں نہیں ہوتیں اور یہ مہینے اسی لیے بڑے اجتماعات کے لیے موزوں سمجھے جاتے ہیں لیکن شمال سے آنے والی سرد ہواؤں کے ساتھ ایک بارش اس سردی کوگھر کے اندر لا کھڑا کرے گی جس کا انتظار ستمبر سے شروع ہو جاتا ہے۔ لاہور کی ہی بات نہیں‘ پورے ملک میں سردی کا انتظار رہتا ہے کیونکہ سردی اپنے ساتھ بہت سے تحفے لے کر آتی ہے۔ ایک نہیں بے شمار تحفے۔ لیکن سردی کا ذکر ہوتا ہے تو ان سرد ترین علاقوں کا خیال ضرور آتا ہے جہاں موسم سرما شدت کے ساتھ اور بہت دیر کے لیے مقیم ہوتا ہے اور بہت سے مکین بلند علاقوں سے وادیوں میں اتر آتے ہیں۔ ظاہر ہے ان علاقوں کے مسائل موسم سرما میں ممکنہ وسائل کم کرکے خود بڑھ جاتے ہیں۔ یہ پہاڑی بستیوں کی غنودگی اور نیند کے دن ہوتے ہیں لیکن یہ بھی خدا کا ایک عجیب نظام ہے کہ موسم سرما بلند پہاڑوں اور چوٹیوں پر وارد ہوتا ہے تو زیریں علاقوں اور میدانوں کے لیے وسائل ساتھ لاتا ہے۔ اربوں روپے کی برف برستی ہے اور منجمد شکلوں میں دریا‘ جھیلیں اور ندی نالے پورے ملک کا اثاثہ بن جاتے ہیں۔ مارچ آتے ہی یہ منجمد اثاثے سیال ہونا شروع ہوتے ہیں اور جسم کی رگوں‘ شریانوں کی طرح پورے ملک میں پانی کا یہ بے رنگ خون دوڑا دیتے ہیں۔ اندازہ کریں تو شاید ملک کے سب سے مال دار بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس بھی ایک وقت میں اتنی دولت نہیں ہوتی ہوگی جتنی اس منجمد شکل میں بلند علاقوں میں موجود ہوتی ہے۔ اور اس نظام کا کمال دیکھیے کہ یہ دولت جو ہر سال قدرت کی طرف سے انعام کے طور پر ملتی ہے‘ ایک طرف تو نہایت حسین ہے اور دوسری طرف نہایت محفوظ۔ صدیوں سے یہ سیال کرنسی نوعِ انسانی کو سیراب اور خوشحال کرتی آئی ہے۔
لاہور میں یہ موسم بہت سی خوش خبریاں اور بہت سے تحفے لے کر آتا ہے۔ گرمیوں کے پھل کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو جائیں گے۔ پھلوں کا شہنشاہ آم تو اپنا تام جھام سمیٹ کر کئی ماہ سے رخصت ہو ہی چکا ہے۔ اِکا دُکا ٹھیلوں پر سنگھاڑے نظر آنے لگے ہیں۔ اس موسم کی خاص سوغات شکرقندی اور سنگھاڑے بھی ہیں۔ خشک میوے کی ریڑھیاں اور دکانیں سجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ تلی ہوئی مچھلی کی مشہور دکانوں پر رات کے وقت رونق شروع ہو جاتی ہے۔ کشمیری چائے پر رات کو محفلیں جمنے لگیں گی۔ کافی شاپس مقبول ہونے کے باوجود لاہور کی روایتی ثقافت کا اس طرح حصہ تو نہیں بنیں جیسے چائے کے ڈھابے اور فٹ پاتھوں پر بنے قہوے کے اڈے۔ لیکن ایک بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں برانڈڈ کافی شاپس پر جاتے ہیں اور کافی تیزی سے یہ کافی لاہوری مزاج کا حصہ بن رہی ہے۔ انگاروں پر سینکے ہوئے گوشت کی اشتہا انگیز مہک سرد فضا میں سرِ شام شامل ہو جاتی ہے۔ یہ باربی کیو ویسے تو سال بھر چلتا ہے لیکن سردیوں میں ان دکانوںکا کاروبار اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
لیکن اس موسم کا ذکر یہاں ختم نہیں ہوجاتا۔ ایک عشرے سے سموگ اور آتی سردیاں بھی لازم و ملزوم ہیں۔ میری پیدائش لاہور کی ہے اور ساری عمر یہیں گزری ہے لیکن یہ موسم اور یہ لفظ کم و بیش نصف عشرے سے لاحق ہوا ہے‘ ورنہ یہ ہمارے موسموں میں شامل نہیں تھا۔ فضاکا یہ رنگ لاہور نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن اب ہر سال دیکھنا پڑتا ہے۔ سموک یعنی دھواں اور فوگ یعنی دھندکے لفظوں کو جوڑ کر بنایا گیا یہ لفظ سموگ لغت میں کافی کم عمر ہے۔ اور یہ مسئلہ زیادہ تر پاکستانی پنجاب‘ بھارتی پنجاب‘ ہریانہ اور ملحقہ علاقوں میں شدید ہے۔ وہ سارا علاقہ جو دھان کی فصل اٹھاتا ہے‘ سموگ کا منبع ہے۔ دراصل چاول کی فصل کاٹی جاتی ہے تو اوپر کا بڑا حصہ تو کاٹ لیا جاتا ہے لیکن نیچے ڈنٹھلیں بچ جاتی ہیں جو پورے کھیت میں اپنی جڑیں گاڑے کھڑی رہتی ہیں۔ یہ مڈھی کہلاتی ہیں۔ اسی طرح فصل اٹھانے کے دوران پورے کھیت میں جو بھوسہ بکھرتا ہے‘ اسے پیال کہتے ہیں۔ نئی فصل کاشت کرنے کا موسم یعنی اکتوبر‘ نومبر کا موسم آتا ہے تو کھیت سے یہ دونوں چیزیں صاف کرنی ضروری ہیں۔ اس کے بغیر نئی فصل کا بیج نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب یہ محنت اور مشقت طلب کام ہے اور آسان حل کسانوں کے پاس یہ ہے کہ خشک پیال اور مڈھی کو آگ لگا دی جائے۔ آگ انہیں صرف جلا کر راکھ ہی نہیں کرتی‘ ان کے جلنے سے زمین کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اگلی فصل میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ اس موسم میں بھارت کے پنجاب اور ہریانہ کے صوبے اور پاکستانی پنجاب کے میدان شعلے اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ناسا کی کھینچی ہوئی وہ تصویر یاد آتی ہے جس میں بھارت اور پاکستان کے یہ سرحدی علاقے سرخ ہیں۔ اور یہ سرخی آگ کی ہے جو ان میدانوں میں لگی رہتی ہے۔ بہت بڑی مقدار کا یہ دھواں ان میدانوں کے اوپر فضا میں چھتری کی طرح چھاجاتا ہے۔ بالکل جوشؔ کے شعر کے مطابق:
بخارات و دود و دخان و غبار
ہوا پر مسلط، سروں پر سوار
لیکن یہ دھواں کب تک میدانوں کے اوپر رہ سکتا ہے۔ تیز ہوائیں اسے بکھیرتی ہیں اور کبھی اسے دھکیل کر پاکستان میں اور کبھی دہلی اور دیگر شہروں کے اوپر پہنچا دیتی ہیں۔ ہوا میں نمی‘ ملوں اور فیکٹریوں کی فضائی آلودگی‘ گاڑیوں کا دھواں اور دیگر عناصر اس دھویں کے ساتھ ملتے ہیں اور سموگ بنا دیتے ہیں۔ وہ سموگ جو نہ صرف صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ حدِ نظر کو بھی اس حد تک محدود کردیتا ہے کہ پروازیں بھی منسوخ کرنا پڑتی ہیں اور ٹرینیں روک لی جاتی ہیں۔ سڑکوں پر سفر بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہوا کی یہ آلودگی بھارتی سرحد اور اس کے قریبی علاقوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آلودگی ناپنے کا جو بین الاقوامی معیار ہے اسے ایئر کوالٹی انڈکس (اے کیو آئی ) کہتے ہیں۔ اگر یہ صفر سے 50 کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہوا کی کوالٹی اچھی ہے۔ 51 سے 100 کے درمیان کا مطلب ہے درمیانے درجے کی کوالٹی۔ 101سے 150 کا مطلب ہے کہ سانس کے مریضوں اور حساس لوگوں کے لیے خطرہ۔ 151سے 200اے کیو آئی کا مطلب ہے کہ عام لوگوں کی صحت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ اب ذرا دیکھیے کہ لاہور میں اس وقت اے کیو آئی 150 سے زائد بتایا جارہا ہے‘ یہ ابھی بڑھے گا۔ سرحد کے دوسری طرف یہ صورت حال زیادہ خراب ہے۔ دہلی میں یہ لیول 170سے اوپر ہے۔ سموگ کی وجہ سے بہت سے شہروں میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے۔
اس خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے دونوں حکومتیں کیا اقدامات کر رہی ہیں اور وہ کس حدتک قابلِ عمل ہیں‘ یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر بھی بات کرتا ہوں۔ ابھی تو ذرا اُبلے ہوئے سنگھاڑوں اور شکر قندی کی چاٹ سے نمٹ لوں کہ فوری مسئلہ یہ ہے۔