اگر میں یہ قسم کھاؤں کہ ہمارے محبوب چچا مفتی رفیع عثمانی جیسا اپنے بھتیجوں بھتیجیوں اور بھانجوں بھانجیوں سے بے پناہ محبت کرنے والا اور محبت کے مسلسل اظہار میں سب پر فائق ہمارے خاندان میں اور کوئی نہ تھا تو یہ قسم جھوٹی نہیں ہوگی۔ اور اس سے بڑھ کر اگر یہ کہنا ہو کہ میں نے کسی اور خاندان میں بھی ان صفات کا کوئی اور بزرگ کبھی نہیں دیکھا تو مجھے یقین ہے کہ میں اس قسم میں بھی سچا ہوں گا۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کے رعب اور دبدبے کا ہمہ وقت احساس ہونے‘ ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں پر ان کی بھرپور نظر رہنے اور اس کا خوف ہونے کے باوجود وہ ہمارے بہترین دوست تھے تو یہ بات بھی بالکل سچ ہوگی۔ اور اس دوستی کا کریڈٹ انہی کی خوش مزاجی‘ نرمی اور بے تکلفی کو جاتا ہے۔
20نومبر کے دن جب ہم نے مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد رفیع عثمانی (اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے) کو سپردِ خاک کیا تو بچپن سے آج تک کی وہ تمام چلتی پھرتی تصویریں ایک ایک کرکے آنکھوں کے عدسے دھندلا رہی تھیں جن میں چچا موجود تھے۔ ان کے علم و عمل‘ ان کے مقام و مرتبے کا ہم بے علموں کو نہ اس وقت اندازہ تھا‘ نہ اب تک ادراک ہے۔ اور اس دائرے میں قدم دھرتے ہوئے میرے تو پاؤں جلتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ علمی مرتبے پر بات میرے لیے ممکن نہیں ہے اور ذاتی اور خاندانی حوالوں سے بات کروں تو خود ستائی کا اندیشہ ہے؛ تاہم میرے لیے تو یہی ممکن ہے کہ خاندان کی ایک مرکزی شخصیت اور محبوب چچا کی حیثیت میں ان کی کچھ یادیں تازہ کر سکوں۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جیسے ہم بے علم چچا جان کے ان احوال و مقامات کا اندازہ نہیں کر سکتے جو اہلِ علم اور صاحبانِ کمال ہی کو نصیب ہے‘ ٹھیک اسی طرح بہت سے علمی طبقات بھی ان خصوصیات کا اندازہ نہ کر پائیں گے جو ان کی خاندانی زندگی میں ہمارے مشاہدے میں آتی رہی ہیں۔ اور جن کی وجہ سے وہ ہم سب کے بھی نہایت محبوب تھے۔
لیکن ایک اور بات جو گھر سے باہر کے لوگوں کو جاننے کا اشتیاق ہوتا ہے‘ ان آخری لمحات کا ذکر ہے جن سے گزر کر عم مکرم آخری سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ چنانچہ یادوں کا ذکر مؤخر کرتے ہوئے اس آخری دن کے آخری لمحات کا ذکر کردوں تو بہتر ہوگا۔ لگ بھگ دو سال قبل جب عم مکرم چچا رفیع صاحب کو کووڈ تشخیص ہوا اور دیگر پیچیدگیوں نے بھی جسم میں راہیں تلاش کر لیں تو فیصلہ یہی کیا گیا کہ انہیں ہسپتال میں داخل نہ کروایا جائے اور گھر پر ہی مکمل علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کرلی جائیں؛ چنانچہ آئی سی یو کی ضروری مشینیں‘ مانیٹرز اور آلات بھی مہیا کر لیے گئے اور ایک ماہر آئی سی یو سپیشلسٹ کا بھی ہمہ وقت بندوبست کر لیا گیا۔ اسد اس سے قبل میرے بھائی جان محمود اشرف عثمانی کی بھی بے مثال خدمت کر چکے تھے۔ چچا جان کے بے شمار جاں نثار شاگردوں میں مولانا انس صاحب بھی دن رات خدمت میں رہتے تھے۔ ان دونوں ساتھیوں کو اللہ کریم بہترین اجر عطا فرمائے کہ انہوں نے خیرخواہی اور خدمت کاحق ادا کردیا۔
جمعہ 24ربیع الثانی‘ 19نومبر 2022ء کو چچا جان کی طبیعت قدرے بہتر تھی۔ رپورٹس بھی بہتر آئی تھیں۔ جمعہ کے وقت انہوں نے خد مت گار سے کہا کہ مجھے مسجد لے چلیں۔ خدمت گار نے ہدایات کے مطابق یہ مناسب نہ سمجھا۔ گھر میں صرف چچی جان موجود تھیں۔ ان سے باتیں کیں اور خاص طور پر بیٹے کے بارے میں پوچھا جو اس وقت اپنے گھرانے کے ساتھ برطانیہ کے سفر پر تھے۔ عصر اور مغرب کے بیچ اسد کے دوست ان سے ملنے آئے تو انہوں نے ذرا دیر کے لیے جانے کی اجازت چاہی۔ چچا جان نے فرمایا کہ آپ کے دوست ہمارے بھی دوست ہیں‘ انہیں یہیں بلا لیں۔ چنانچہ وہ دوست ان کے کمرے میں آگئے اور چچا جان ان سے باتیں کرتے رہے۔ پھر کہا کہ ان کی خاطر مدارات کیجیے‘ انہیں لسی پلوائیے۔ دارالعلوم کی لسی بہت اچھی ہوتی ہے اور چچا جان کو بھی مرغوب تھی۔ یہ لگ بھگ شام سات بج کر سولہ منٹ کی یعنی انتقال سے پندرہ بیس منٹ قبل کی بات ہے۔ ان صاحب کے رخصت ہونے کے بعد چچا جان نے پانی مانگا۔ پینے کے بعد طبیعت بگڑنے لگی۔ اندازہ ہے کہ شاید دل کا دورہ ہوا۔ آکسیجن لیول ایک دم گر گیا۔ آئی سی یو کے ماہر کے طور پر اسد نے ممکنہ تمام کوششیں کیں اور انہیں کے ساتھ چچا تقی عثمانی کو‘ جن کا گھر متصل ہے‘ اطلاع دی۔ چچا تشریف لائے تو حالت تشویشناک تھی اور آکسیجن لیول زیرو تک گرا ہوا تھا۔ انہوں نے سورۂ یاسین کی تلاوت شروع کی۔ ڈاکٹر راستے میں تھے اور اس دوران دل کی بحالی کی کوششیں جاری رہیں۔ لیکن سب بے سود تھیں۔ وہ گھڑی آن پہنچی تھی جو ٹل نہیں سکتی اور جس کی تیاری چچا رفیع صاحب نے اپنے علم‘ عمل‘ کردار‘ گفتار سے تمام عمر کی تھی۔ چچا تقی صاحب فرماتے ہیں کہ ان آخری لمحات میں نہ کوئی تکلیف‘ نہ بے چینی‘ نہ آواز‘ نہ اضطراب‘ نہ کوئی تغیر۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ بس جانے والا اٹھ کر اس راہ پر چلا گیا تھا۔ جس پر بالآخر ہم سب نے جانا ہے؛
ہستی سے عدم تک نفسِ چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
آپ اور ہم اس غم اور اس جدائی کا اندازہ تو کر سکتے ہیں جو ہمارے دلوں پر زخم ڈال کر گزر رہے ہیں۔ لیکن عم مکرم چچا تقی (اللہ انہیں صحت کے ساتھ عمر دراز عطا فرمائے) کے غم کا شاید اندازہ بھی نہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ ضبط‘ صبر‘ حوصلے سے نوازا ہے اور ہم نے زندگی کے بے شمار مراحل پر ان کے مشاہدے کیے ہیں۔ خود اپنی کمزور صحت کے باوجود انہوں نے جنازے‘ تدفین اور دیگر معاملات کے جس طرح بر وقت فیصلے کیے‘ وہ کسی اور سے ممکن نہیں تھا۔ یہ سب فیصلے بھی کیے جاتے رہے اور دارالعلوم میں تدریس کا سلسلہ بھی معمول کے مطابق جاری رہا۔ دارالعلوم کے مزاج کے مطابق میڈیا پر تشہیر کا بھی کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ خبر تھی کہ تیز ہوا میں آگ کی طرح پھیلتی جارہی تھی اور غم تھا کہ ایک سینے سے دوسرے میں سفر کر رہا تھا۔
اتوار کے دن صبح 9بجے کے قریب ہزاروں لوگ جنازے میں شرکت کے لیے امڈ آئے تھے۔ اور ملک کے ہر حصے سے لوگوں کے پہنچنے اور راستے میں ہونے کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ جامعہ دارالعلوم کورنگی کی بڑی مسجد‘ جس میں ہزاروں افراد کی جگہ ہے‘ چھوٹی پڑ چکی تھی اور دارالعلوم اور چار دیواری کے باہر امام کے پیچھے ہر طرف صفیں بنی ہوئی تھیں۔ دارالعلوم کے باہر کورنگی روڈ بلاک تھی۔ رینجرز اور پولیس کے انتظامات کے باوجود کسی طرح یہ ممکن نہیں تھا کہ جناز ے کو یہ تمام افراد کندھا دے سکیں۔ ہم میت کے ساتھ دارالعلوم کے نورانی قبرستان پہنچے جہاں میرے دادا‘ دادی‘ نانا‘ بھائی جان‘ چچا‘ ماموں سمیت بے شمار محبت کرنے والے شاید ان کے انتظار میں تھے۔ چچا جان کو آخری آرام گاہ اپنے والدین کے عین بیچوں بیچ نصیب ہوئی تھی۔ اس دن محبت کرنے والوں نے ایک آفتاب کو سپرد خاک کرتے ہوئے اپنے حصے کی مٹی اس ڈھیری پر ڈالی۔ ''اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے‘ اور اسی کی طرف تمہیں لوٹائیں گے‘ اور اسی سے دوبارہ نکال کھڑا کریں گے‘‘۔ اس دن جب میں نے مٹھی بھر کر قبر پر ڈالی تو صاحبِ قبر کے لیے میرے دل نے یہ شعر بھی پیش کردیے۔
صدا سمیٹ دی‘ لطفِ سخن لپیٹ دیا
قضا نے حسنِ بیاں دفعتاً لپیٹ دیا
میں دیکھتا رہا اس پُربہار چہرے کو
پھر اس کے بعد کسی نے کفن لپیٹ دیا
تھی اس کی آخری منزل سرور و چین کے بیچ
یہ کون لاڈلا سویا ہے والدین کے بیچ