"SUC" (space) message & send to 7575

چاندی کے آبشار تھے ‘ سونے کی راہ تھی

ہم ایک طرف کھڑے نیاگرا دیکھتے تھے اور سورج ایک طرف کھڑا دیکھتا تھا۔ اس کی ایک نظر سے رنگوں کے مزید رنگ پیدا ہوتے تھے۔کچھ دیر پہلے دھوپ تھی اور اب دھوپ چھاؤں۔سورج سرمئی بادلوں کے شگافوں سے ایک ترچھی نظر ڈالتا تو زمین کھلکھلا اٹھتی تھی۔آبشار کا پانی گہرائی میں گر کر پھر اٹھتا تھا تو پانی کے ہزارہا قطرے ہوا میں ٹھہرجاتے تھے۔ ان قطروں سے سورج کی کرنیں گزر کر ایک قوس قزح بناتی تھیں۔یہ قوس قزح مجھے بچپن نے پہلی بار دکھائی تھی اور اب میں اسے آنکھوں کی اوک سے پی رہا تھا۔یہ وہ ست رنگی قوس قزح تھی جس کا بارش سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ بارش کے موسم میں یہ بنتی ہی نہیں ہے۔
ہم ہارس شُو کی بائیں طرف‘ سامنے کھڑے تھے۔جہاں یہ نعل ختم ہوتا تھا‘وہاں کھائی کاکنارہ گھومتا اور ہمارے بالکل مقابل آجاتا تھا۔یہ نعل کی شکل میں نہیں بلکہ سیدھا کنارا تھااور یہاں آبشار ایک سیدھے براق پردے اور چادر کی شکل میں گرتی تھی۔ اس کے ذرا پیچھے‘ہمارے بائیں طرف ہریالی ایک سرسبز جزیرہ دکھاتی تھی۔ ایسا جزیرہ جسے ہر سمت سے پانی چھیڑتااور اٹھلاتا گزرتا تھا۔ذرا اور بائیں طرف نظر کی تو آبشار کے تسلسل میں ایک بڑا وقفہ تھا۔ کھائی کنارے خشکی کا یہ حصہ شاید امریکی زمین پر تھا‘ یہ ٹکڑا ختم ہوتا تھا اور آبشار پھر شروع ہوجاتی تھی۔ یہ امریکن فالز تھی۔دور سے بھی اندازہ ہو سکتا تھا کہ آبشار کا حسین ترین اور بلند ترین حصہ کینیڈا کے پاس ہے۔1819ء سے دریائے نیاگرا امریکہ اور کینیڈا کے بیچ بین الاقوامی سرحد ہے۔امریکی آبشار ختم ہوتے ہی وہ پُل تھا جسے قوس قزح پُل کہا جاتا ہے۔1941ء میں تعمیر ہوا اور جو کینیڈا‘ امریکہ کو نیاگرا کے آر پارایک دوسرے سے ملاتا ہے۔نیاگرا آبشار دراصل نیاگرا اسکارپمنٹ (Escarpment)کا بالکل بیچ کا حصہ ہے۔ اسکارپمنٹ کو آپ پہاڑی ڈھلوان یا کوہساری ڈھلاؤ کہہ لیجیے۔ اسکارپمنٹ لمبی ڈھلوان ہوتی ہے اور دومختلف اونچے نیچے حصوں کے بیچ سفر کرتی ہے‘نیاگرا اسکارپمنٹ بھی امریکی اور کینیڈین علاقوں میں لمبی گھومتی گھماتی ڈھلوان ہے اور مزے کی بات ہے کہ ہارس شو کی طرح یہ اسکارپمنٹ بھی تقریباً نعل کی شکل میں ہے۔
میں نے جھک کر دیکھا۔بہت نیچے دریا ئے نیاگرا میں کینیڈین اور امریکن کشتیاں چلتی اور سیاحوں کو دریا کی سیر کراتی تھیں۔ کینیڈین کشتی کے مسافر عنابی اور امریکی کشتی کے سوار گہری نیلی برساتیوں میں تھے۔یہ کشتیاں تیز‘مواج دریا پر سفر کرتی تھیں اورآبشاروں کے جھلملاتے پردوں کے عین سامنے سے گزرتی تھیں۔ایک بابِ حیرت کا در کھلتا تھا اور سیاح اس بے بہا پانی کو بلندی سے گرتے دیکھتے تھے جو ہزاروں سال سے اسی طرح گر رہا تھا۔ لگ بھگ 10ہزار سال سے ایک سیکنڈ میں دولاکھ دو ہزار مکعب فٹ پانی گرتا ہے یعنی ایک منٹ میں 60 لاکھ ٹن۔سردیوں میں آبشار منجمد ہوکر سفید ستونوں کا طلسم کدہ بناتی ہے۔کنارے کھلے پھول‘ گھاس کی پتیاں‘کھلتی اور مرجھا جاتی تھیں۔پیڑ پودے اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجاتے تھے۔ دیکھنے والی آنکھیں حیرت سے مبہوت ہوتیں اور پھر اپنے اپنے وقت پر مٹی کے نیچے مٹی ہوجاتی تھیں۔بے نیاز پانی ازل سے اس سفر پر تھا اور اس نے کروڑو ں دیکھنے والوں کو دیکھا تھا۔ اسے نہ دیکھنے والوں کی کمی تھی اور نہ سراہنے والوں کی۔اس نیلے سیارے پر جو معلوم حد تک اتنی بڑی کائنات میں پانی کا واحد ذخیرہ تھا‘وہ پانی جس کی تلاش میں سائنسدان کائنات بھر میں ہلکان ہوئے پھرتے ہیں۔ یہاں لاکھوں کیوبک میٹر اس طرح موجود تھا کہ انسان اس پر سفر کرتے تھے‘ اپنے اوپر گرتا دیکھتے تھے‘ جسم و جان سیراب کرتے تھے اور اس کے حسن سے آنکھیں بھر کر گھروں کو جاتے تھے۔وہ گھروں کو لوٹتے تھے تونیاگر ان کے ساتھ ان کے گھروں کو جاتی تھی۔
ہم اپنی بائیں طرف اور آگے بڑھے۔نیاگرا پارک ہمارے ساتھ ساتھ بل کھاتا چلتاتھا۔ بائیں طرف طعام گاہیں تھی اور پھر ان کے پیچھے سڑک۔سڑک پر وہ اونچے اونچے بلند ہوٹل تھے جو ایک بلندی سے آبشار دکھاتے ہیں۔ ان کے وہ مہنگے کمرے جو آبشار کے رخ پر ہیں‘ ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔منظر اِک بلندی پر کاش ہم بنا سکتے۔یہی ہر ذی نظر کی تمنا ہے۔ ہوٹل یہی تمنا پوری کرنے کا تجارتی ذریعہ ہیں۔دن کا منظر اور ہے‘ رات کا اور۔شام پڑتے ہی وہ ست رنگی روشنیاں جل اٹھتی ہیں جو سیدھی آبشار پر پڑتی ہیں اور رات کو بھی اس کا حسن چھپنے نہیں دیتیں۔ وہ آبشار جسے راتوں نے ہزاروں سال تک مستور رکھا‘ بے حجاب ہے۔ آبشار پر گرتی روشنیوں کی آبشا روں سے دریا کی روشنیاں الگ ہیں۔ یہ روشنیاں خود جھلملاتے دریا ہیں۔روشنیوں کی آبشار اور دریا پھیلی ہوئی سیاہ رات میں جگمگاتے جزیروں کی طرح اسیر کرتے ہیں۔ ایسی گرفتاری جس سے آنکھوں کی رہائی تا عمر ممکن نہیں۔اور کون کافربھلا رہائی چاہتا ہے۔ کاش جگر صاحب کا یہ شعر میں نے کہا ہوتا
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے
ایک راستہ نیچے اس سرنگ اورغار تک جاتا ہے جہاں جانے کے لیے قطاریں لگی رہتی ہیں۔یہ غار عین آبشار کے پیچھے ہے یعنی آپ آبشار کو اپنے سامنے گرتا‘جھلملاتا دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نظارہ الگ ہے اور اس نظارے کے لیے جو قطار بندھی تھی اور اس کے لیے جتنا وقت درکار تھا وہ ہماری جھولی میں نہیں تھا اس لیے اسے کسی اور وقت پر اُٹھا رکھنے کا عزم کیا اور جو میسر تھا اس پر خوش رہنے کے زریں اصول کو ایک بار پھر پلے باندھا۔
آبشار یعنی پانی کا کھلا راستہ یا پانی کی سرشاری۔ بڑے محقق شمس الرحمن فاروقی سے یہ طالب علم کیسے اختلاف کرے جو کہتے ہیں کہ 60‘70برس پہلے یہ لفظ مؤنث بھی مستعمل تھا لیکن اب مذکر ہی درست ہے۔ امیر مینائی نے مؤنث ہی باندھا اور صاحبِ نور اللغات نے حوالے کے ساتھ مؤنث ہی لکھا لیکن اثر لکھنوی نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ جس نے بھی کسی آبشار کا زور و شور اور حجم دیکھا ہے وہ اسے مؤنث نہیں کہہ سکتا۔ بات دل کو لگتی ہے۔ خیر ! یہ الگ بحث مگر ممکن نہیں کہ موسم اچھا ہو‘فراغت ہو‘صحت ہو‘حسن ہو‘ اور دل کی خوشی میسر ہو اور جسم کے مانگے بنا بھی بھوک نہ لگے‘ بغیر پیاس بھی مشروب کی طلب نہ ہو۔یہ جعلی بھوک اور مصنوعی اشتہا نہ ہوں تو قدم قدم پر طعام گاہیں بھی نہ ہوں۔روح کی غذا اپنی جگہ لیکن جسم کے تقاضے برحق ہیں۔ ثروت حسین یاد آئے:
بجھی روح کی پیاس لیکن سخی!؍ مرے ساتھ میرا بدن بھی تو ہے
ابھی واپسی کے لیے قدم اٹھائے بھی نہیں تھے کہ ایک اداس لہر سارے جسم میں دوڑنے لگی۔جن کے خمیر میں اداسی گوندھی گئی ہو وہ ہر جگہ اس کی سرسراہٹ محسوس کرلیتے ہیں۔ یہ زندگی میں رچ بس جاتی ہے۔ منیر نیازی نے ہم سب کی عادت کا ذکر کیا تھا جب کہا تھا کہ:
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
سعود عثمانی ! خدا کرے کہ پھر۔ لیکن پیارے! زندگی اتنی مہلت کہاں دیتی ہے کہ یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ پھر کبھی سہی۔یہ پھر کبھی‘کبھی میسر ہو کہ نہ ہو۔اگر مل جائے تو خوش قسمتی‘نہ ملے تو ہزاروں خواہشیں جن پر دم نکلتا ہو‘ ان میں ایک خواہش کا اور اضافہ سہی۔ سعود پیارے! ممکن تو ہے نا کہ محبو بہ پھر اپنی بانہوں میں سمیٹ لے۔ آخر تاج محل نے بھی تو بارِ دگر تمہیں اذنِ نظارہ دے ہی دیا تھا۔ ایک انسانی عجوبے نے یہ سخاوت کی تو کیا عجب کہ یہ قدرتی عجوبہ بھی بانہیں پھر کھول دے۔ خیر‘ اے ہندی لفظیات کے بے مثال مرحوم شاعر ناصر شہزاد! کیا آپ نے نیاگرا کے لیے یہ شعر کہا تھا؟
تجھ سے ملی نگاہ تو دیکھا کہ درمیاں
چاندی کے آبشار تھے‘ سونے کی راہ تھی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں