(ن )لیگ کے سربرآوردہ لوگوں کا بس نہیں چل رہا کہ وہ سبکدوش ہونے والے سپہ سالار کے بارے میں عمران خان کے سابقہ اور موجودہ مؤقف کے تضادات کو کیسے مزید کھول کر بیان کریں۔ اک پھول کامضمون سو رنگ سے باندھنے کے بعد بھی تسلی نہیں ہوپارہی۔2014 ء کے مشہور دھرنے اور امپائر کی انگلی سے لے کر موجودہ ایک آدمی کے ذکر تک خان صاحب کے تضادات کے بارے میں خواجہ سعد رفیق بھی نغمہ سرا ہیں اور دیگر ہم نوا بھی۔انہیں معلوم ہے کہ یہ وہ کمزور پہلو ہے جسے ہر منصف مزاج بھی غلط سمجھتا ہے اور جس کا دفاع عمران خان اور پی ٹی آئی کے لوگوں کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ مجھ سمیت بہت سے لکھنے والے 2014 ء میں بھی اس کے خلاف تھے اور آج بھی خان صاحب کی اصولوں سے ہٹ کر محض حصولِ اقتدار کے لیے کی جانے والی کوششوں کے مخالف ہیں۔امپائر کی انگلی ہو یا ایک آدمی کو ہر چیز کا ذمہ دار قرار دے دینا۔یہ محض غلط ہے‘جو ہوا وہ بھی اور جو ہورہا ہے وہ بھی۔
جناب عرفان صدیقی مسلم لیگ (ن) کے مؤثر ترجمانوں میں سے ہیں۔ بطور کالم نگار ایسی خصوصیات کے حامل جن کی نثر سے سیکھا جانا چاہئے۔ان کے مؤقف سے اختلاف ہوسکتا ہے‘ سلیقۂ اظہار سے ہرگز نہیں۔شاعری اور نثر دونوں کی تاثیر گھول کر پئے ہوئے حرف کار۔اس سلیقے اور ہنرمندی سے لکھنے اور گفتگو کرنے والا پی ٹی آئی میں کوئی ایک بھی ہوتا تو اسے بیسیوں چاند لگ سکتے تھے۔نواز شریف صاحب کے اثاثوں کا بہت ذکر ہوتا ہے لیکن ان میں جناب عرفان صدیقی کا ذکر نہیں ہوتا۔حالانکہ وہ ان کے نفس ناطقہ ہیں۔صدیقی صاحب نے اپنے حالیہ کالم میں خان صاحب کے ایک آدمی پر بات کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اسی ایک آدمی کے بارے میں فلاں تاریخ سے فلاں سال تک رطب اللسان رہا کرتے تھے۔اور اب ان کا کوئی بیان لتے لینے سے خالی نہیں ہوتا۔ لیکن بصد ادب عرض کرنا ہے کہ کیا انہی سب باتوں کا اطلاق خود ان کے ممدوحین پر نہیں ہوتا ؟ کیا مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ صاف ہیں؟ کیا وہ دائرے کے باہر کھڑے ہوکر اندر والے آدمی پر پتھر پھینکنے کے اہل ہیں؟ کیا وہ اس روحِ عصر کے قرب کے ہمیشہ خواہاں نہیں رہے جس نے چھ دہائیوں قبل ایوب خان کے جسم میں حلول کیا تھا؟کیا وہ ہمیشہ عقدِ سہولت کی سہولت سے فیضیاب نہیں ہوتے رہے۔ کیا ایوب خان سے شروع ہونے والے تسلسل میں جنرل ضیا ء الحق اور جنرل جیلانی کے ناموں کے پڑاؤ نہیں آتے؟کیا (ن) لیگ یہ کہنے کی اہل ہے کہ ان کا دامن آگے سے نہیں پیچھے سے پھٹا ہوا ہے ؟وہ دامن جو انہوں نے احساس ِتفاخر اور فرط ِشوق کے ساتھ اپنے ہاتھوں بار بار چاک کیا۔کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ جو لمحۂ موجود کی وزارتِ عظمیٰ ہے‘کیا یہ کسی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن تھی؟ اگر وہ 2014 ء سے ایک آدمی کے ڈسے ہوئے تھے تو انہوں نے 2022ء میں حکومت میں شرکت سے انکار کیوں نہیں کردیا؟کیا بات ہے کہ الگ ہوں تو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں‘شامل ہوں تب بھی ننگِ وجود کے لیے وہی ملک و قوم کا لبادہ کام آجائے ؟یہ کیا بات ہوئی کہ جب (ن) لیگ عقدِ سہولت سے مستفید ہو تووہی ایک آدمی فرشتہ بن جائے۔جب طلاق ہو جائے تو 'مجھے کیوں نکالا‘ کا مارچ شروع کردے۔ ہر دور میں یہی ہوتا رہا ہے۔ رات پردہ ڈال دے تو پنڈی کے آہنی دروازوں کے پیچھے ملاقاتوں‘ صفائیوں‘ وضاحتوں اور تعاون کی درخواستوں میں بھی حرج نہ ہو‘سورج طلوع ہو تو تبرا میں بھی برائی نہ سمجھی جائے۔کیا یہ ڈھکی چھپی بات ہے کہ (ن) لیگ کے اندر بہت طاقتور آواز یہ کہتی رہی ہے کہ مقتدرہ سے مفاہمت کرنی چاہیے‘ اپنا نقصان نہیں کرنا چاہیے۔ مبینہ طور پر گاڑی کے ٹرنک میں بیٹھ کر بھی جانا پڑے تو جانا چاہیے۔کون نہیں جانتا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی زبان شہباز شریف نہیں بولتے تھے۔نہ بولنے کے حق میں تھے۔تو کیایہ محض زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے سیاسی مصلحت تھی یا سچا مؤقف؟ ایک فیصلہ کرنا چاہئے کہ آپ مقتدرہ کے ساتھ ہیں یا ہر پیشکش کو ٹھکرا کر اصولی مؤقف پر کھڑے ہیں۔دور مت جائیے۔ جنرل ضیاء الحق اور غلام جیلانی کے معاملات بھی دہائیوں پیچھے چلے گئے۔اشفاق پرویز کیانی اورراحیل شریف تو کل کی بات ہیں۔ پرویز مشرف کو محفوظ راستہ عطا کرنا تو کل کی بات ہے۔وہ استقامت جو اقتدار سے نکل کر گلے آملتی ہے‘ اقتدار کے دنوں میں کیوں دروازے سے باہر کھڑی رہتی ہے ؟
حمام میں ننگے سب ہیں۔جن تضادات کا ذکر عمران خان کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ پہلے کیا کہتے رہے اور اب کیا کہتے ہیں‘ کیا (ن) لیگ خود انہی سے بارہا نہیں گزری؟ پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب سے متعلق تمام لیگی عمائدین کے ماضی کے بیانات‘ مقدمات اور اقدامات کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ صرف زرداری صاحب ہی نہیں‘پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما ؤں کے متعلق بھی۔ خود اس جماعت کو بھی دیکھ لیں۔ پیپلز پارٹی جو بنیادی طور پر مقتدرہ مخالف جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے‘بے نظیر بھٹو کے بعد قلب ماہیت سے گزر کر زرداری پارٹی بن چکی ہے‘ اب مقتدرہ کے اشارے کے بغیر حکومت میں نہیں آسکتی تھی۔ (ق) لیگ تو کھلم کھلا احساسِ تفاخر سے کہتی ہے کہ ہم ان کے آدمی ہیں۔تو پھر ایک آدمی کے آدمی کومسلم لیگ (ن) کس بنیاد پر وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش کر رہی ہے؟ (ن) لیگ کا یہ تضاد اتنا واضح ہے کہ (ق) لیگ کا کھلا اور اعلانیہ مؤقف ان سے بہتر نظر آنے لگتاہے۔سوال ایک ہے اور وہ بہت بڑا سوال ہے۔اور وہ یہ کہ منافقت بہتر ہے کہ ملازمت ؟
اگر کوئی سخن فہم کسی معاصر کے بے بحر مصرع پر کوئی اعتراض کردے تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہوجاتا کہ وہ غالبؔ کا طرف دار بھی ہے۔اس لکھنے والے کو بھی طرف دار نہ سمجھا جائے لیکن سچ یہ ہے کہ جناب پرویز الٰہی کی شریف خاندان سے بیزاری اتنی شدید نہ ہوتی تو (ن) لیگ سب کچھ بھلا کر ان سے اتحاد کرچکی ہوتی۔ اس کی واضح دلیل چودھری شجاعت حسین سے مفاہمت ہے۔تو پھر اعتراض کس بات پر ہے ؟عمران خان وہی کچھ تو کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں جو آپ بارہا کرچکے ہیں۔
غزل کا ہر شعر جدا مضمون کا ہو تو قباحت نہیں سمجھی جاتی۔الگ مضمون کے اس مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑے تو کہنے کی اجازت دیجیے۔ عمران خان کا دورِ حکومت انتہائی مایوس کن رہا ہے‘ لیکن (ن) لیگ کے سابقہ دورِ حکومت کے بارے میں‘ جس میں نواز شریف صاحب اور شاہد خاقان عباسی کے ادوار شامل ہیں‘ کیا خیال ہے ؟ دوسری باتوں کو چھوڑئیے‘عرفان صدیقی صاحب سے یہ توقع تھی کہ وہ کم از کم اردو زبان کو اس کا وہ حق دلانے میں ایوانِ وزیر اعظم میں بھرپور کوشش کریں گے جس کی مدد کے لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود تھا‘ لیکن ہم نے دیکھا کہ سود کا معاملہ ہو یا اُردو زبان کا‘ (ن) لیگ نے دونوں کو زمہریری سرد خانے تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے زمانے میں سرکاری اردو کانفرنسوں میں نفاذ ِاردو کی قرارداد تک پیش کرنا ممکن نہیں تھا‘نہ اردو کانفرنس کے نام پر بینرز اور اشتہارات میں اُردو کا کوئی لفظ نظر آتا تھا۔حالانکہ یہ وہ معاملات تھے جن میں اس ایک آدمی کی منظوری کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
ننگے سب ہیں‘لیکن تماشائیوں کو بادشاہ ننگا دکھائی دیتا ہے اور بادشاہ اور مصاحبین کو تماشائی۔ فیصلہ کون کرے کہ برہنگی کس کی زیادہ ہے ؟