"SUC" (space) message & send to 7575

آخری صدا کار کی موت

جناب ضیا محی الدین سے نہ کوئی ذاتی ملاقات‘نہ کبھی رابطہ ‘نہ تعارف لیکن ان کا جانا ذاتی نقصان کی طرح محسوس ہوا۔حرف کا رشتہ بھی کیسارشتہ ہے کہ دوری اور حضوری ایک کرکے رکھ دیتا ہے۔ لفظ کا تعلق بھی کمال ہوتا ہے کہ دور دراز کے دو علاقوں اور دو کناروں پر موجود دو افراد کو تمام عمر غیر مرئی ڈور میں باندھے رکھتا ہے۔ڈور اسی وقت ٹوٹتی ہے جب کسی ایک کا جسم و جان کا رشتہ ٹوٹتا ہے ۔لیکن ضیا محی الدین کا تعلق لفظ سے نہ ہوتا تب بھی یہ خسارہ اپنی جگہ رہتا کیونکہ وہ اس تہذیب ‘اس شائستگی ‘ اس مضبوط روایت کے بھی نمائندہ تھے جو اَب معدوم ہوئی جاتی ہے اور جس کا ہولناک قحط اب زندگی کے ہر شعبے میں واضح نظر آتا ہے ۔ جب تک یہ تہذیب معاشرے میں مستحکم رہی ‘ ہمارامعاشرہ بھی قابلِ داد اور قابلِ دید رہا‘اور جیسے جیسے اس ریشمی کپڑے میں چھید ہوتے گئے‘ ہمارے بیچ ہر طرف خلا نمودار ہونے لگے۔
حرف کار اور اداکار کے درمیان کی ایک کڑی صدا کار ہوتا ہے۔ صدا کار۔صوت و صدا کی تجسیم کرنے والا۔آواز کی تصویر بنانے والا۔اپنے لہجے سے اپنا مجسمہ تیار کرنے والا۔ویسے تو گلو کار بھی اپنی آواز سے دلوں میں اترتا ہے اورآواز کی سندرتا سے خود کو اور دوسروں کو خوبصورت بناتا ہے لیکن صدا کاری‘گلوکاری سے زیادہ مشکل کام ہے۔ صدا کارکو وہ بنیادی سہارا میسر نہیں ہوتا جو دلوں میں آواز کے ذریعے گھر کرنے کا بہترین وسیلہ ہے ‘یعنی ترنم‘ آہنگ‘غنائیت اور موسیقی ۔صدا کار کو اِن سب کے بغیر اپنے فن کا جادو جگانا ہوتا ہے ۔اس جادو کے لیے صدا کار کے پاس ایک بنیادی ہتھیار فطری اور خدا دادہوتا ہے‘ یعنی آواز کی کوالٹی اور معیار۔باقی اوزار وہ اپنی ریاضت ‘مشق اور محنت سے بناتا ہے ۔ الفاظ کے صحیح انتخاب‘لہجے کے درست زیر و بم اور بہترین تلفظ کے بغیر صدا کار کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔اور اگر بات شعر و ادب کی ہو تو شعر کا ذوق اور ادبی تربیت ایک اور اضافی صفت لازمی ہونی چاہیے ۔ ریڈیو تو جیسے ایجاد ہی صدا کاری کے لیے ہوا تھا۔ریڈیو کابنیادی جوہر ہی تصویر کے بغیر آواز تھا۔اسے آواز سے ہی تصویر بنانی ہوتی تھی ؛چنانچہ ایک شخص کو ریڈیو کے سامعین تک خوشی ‘ غم ‘ خوف‘ نفرت وغیرہ کی کیفیات پہنچانی ہوں تو وہ کیا کرے گا؟ اسے چہرے کے تاثرات سے نہیں آواز کے خد و خال اور نشیب و فراز سے یہ باتیں پہنچانی ہیں ۔ فلم یا ڈرامے میں آپ خاموش رہ کر بھی کلام کرسکتے ہیں ۔آپ کی خاموشی بھی بول اٹھتی ہے لیکن ریڈیو کے صدا کار کے لیے خاموشی تو موت ہے ۔ اسے تو بات کرنی ہے اور اس بات ہی سے اپنا کردار پہنچانا ہے ۔صدا کاری کی اہمیت بڑھی تو ایک سے بڑا ایک صدا کار پیدا ہوا ۔آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کے عہد ِزرّیں نے ہمارے ہاں کیا کیا اردوصدا کار پیدا کیے کہ ہر ایک اپنی جگہ بے مثال تھا۔
مجھے بچپن ہی سے اچھی آواز ‘عمدہ لہجہ اور بہترین تلفظ اپنی طرف کھینچتا رہا ہے ۔ میں اپنے پسندیدہ لوگوں کو بار بار سنتا رہا اور ان کی ادائیگی سے اپنی اصلاح بھی کرتا رہا ۔ذوالفقار علی بخاری ‘جو ریڈیو کے ادارے کے اندر بذات خود ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے‘صدا کاری کا منتخب نام ہے۔ ان کی بھاری ‘ کھرج دار آواز الگ پہچانی جاتی تھی اور ان کی شاعری سے وابستگی ان کے اوصاف کو اور چمکاتی تھی ۔لہجے ‘ اورآواز کے زیر وبم اور اعلیٰ تلفظ کے ساتھ انہوں نے اقبال کی '' مسجد قرطبہ‘‘ پڑھنے کا حق ادا کیا ہے۔ان کے ساتھ ریڈیو کے بہترین زمانے کے تربیت یافتہ بہت سے نام ذہن میں آتے ہیں جنہوں نے آواز کے ذریعے دلوں تک رسا ئی حاصل کی ۔مصطفیٰ علی ہمدانی ‘ابوالحسن نغمی‘ موہنی حمید ‘ضمیر فاطمی وغیرہ وہ چند نام ہیں جو اپنے صوتی حسن ‘لہجے اور بہترین تلفظ سے پہچانے جاتے تھے۔فلموں کے نامور اداکار محمد علی بھی آواز اور لہجے کے اتار چڑھاؤ کا عمدہ نمونہ تھے۔ پی ٹی وی کے ساتھ ابتدا ہی سے منسلک ہوجانے والے جناب طارق عزیزاپنی بھاری مردانہ آواز‘ذخیرہ ٔ الفاظ اور درست ادائیگی کے لیے گنے چنے ناموں میں سے تھے اور ان کی آواز مجھے بے حد محبوب رہی ہے ۔مشہور نیوز کاسٹر خالد حمید آواز کی کوالٹی سے لے کر بہترین ادائیگی اور شخصیت کی شستگی تک ہر معاملے میں ایک مکمل نمونہ ہیں ۔ باکمال اور بے مثال طلعت حسین بھی ان لوگوں میں ہیں جو مجھے ہمیشہ سے انہی خصوصیات کی بنا پر بہت پسند رہے ہیں۔ انہیں میں مرحوم اداکار شفیع محمد کا نام بھی آتا ہے جو عمدہ آواز کے مالک تھے۔بہت سے دیگر نام بھی ہیں۔
بات جناب ضیا محی الدین کی تھی جو دیگر افراد تک پھیل گئی ۔ میں نے ضیا محی الدین کو روبرو بیٹھ کر بھی بہت بار سنا۔ٹی وی پر بھی اور یو ٹیوب پر بھی۔ میں ان سے متاثر ہونے کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی آواز کی فطری کوالٹی کوئی غیر معمولی نہیں تھی وہ ان صداکاروں میں نہیں تھے جو بہترین آواز لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔لیکن انہوں نے اس آواز کو اپنی غیر معمولی محنت‘ریاضت اور مشق سے جس درجے پر پہنچایا ‘اس پر کوئی کوئی پہنچتا ہے۔کوئی شک نہیں ہے کہ وہ نظم یا نثر پارے کو زندہ کردیتے تھے۔ن م راشد کی نظمیں زندگی سے ڈرتے ہو‘یا جہاں زاد تو جیسے ان کی پڑھنت کے لیے ہی لکھی گئی تھیں۔ان کے بعد یہ نظمیں ہم خود راشد سے بھی سنتے تو بالکل نہ جچتیں ۔فیض کی نظمیں بھی ان کی زبان سے سجتی تھیں۔ اسی طرح کلام اقبال بھی ان کی آواز میں دو آ تشہ ہوگیا ۔ہم نے اپنے بچپن ہی میں ضیا محی الدین شو کی مقبولیت دیکھی ۔ اگرچہ ان میں کچھ شوز پر تنقید بھی ہوئی جیسے بزرگ ناول نگار ایم اسلم کے انٹرویو پر ۔ لیکن بحیثیت مجموعی یہ شو بہت کامیاب رہا اور رجحان ساز بھی بنا۔ویسے تو وہ عالمی فلمی دنیا کے اوسط درجے کے اداکاروں میں تھے لیکن پاکستان میں ضیا صاحب اسی شو سے ایک دم ہیرو بن گئے ۔ایک اور جہت ان کی تہذیب تھی ۔وہ شو بز میں بھی اور عملی زندگی میں بھی مجسم شائستگی تھے اور ان کی زبان سے کسی نے شاید کوئی بازاری لفظ نہیں سنا ہوگا۔ضیا محی الدین انگریزی ڈرامے کو گھول کرپیے ہوئے تھے اور شیکسپیئر کی زبان اور مکالموں کے ماہر تھے۔معین اختر نے جو بات کہی وہ معمولی بات نہیں کہ ضیا محی الدین انگریزی بولتے تھے تو بہترین۔ اس میں اردو کا کوئی لفظ استعمال نہیں کرتے تھے‘اور اردو بولتے تھے تو بہترین۔ اس میں انگریزی کا کوئی لفظ نہیں برتتے تھے۔یہ وصف اسی شخص میں ہوسکتا ہے جس نے اکتساب فن ڈوب کر کیا ہو اور اپنے دو طرفہ ذخیرہ ٔ الفاظ کو کمال وسعتوں سے آشنا کیا ہو۔
ضیا محی الدین نامور اور اعزاز یافتہ لوگوں میں تھے ۔نیشنل پرفارمنگ آرٹ اکیڈمی (NAPA )ان کی سربراہی میں کامیابی سے سفر کرتی رہی لیکن ایک بھرپور فنی اور ادبی سفر میں انہوں نے اپنا دامن ان آلائشوں سے بچائے رکھا جن میں فی زمانہ آرٹ اور ادب بری طرح لتھڑ چکا ہے۔وہ سیاست سے بھی دور رہے اور دل آزاری‘ تمسخراور استہزا سے بھی ۔ورنہ ایک گروہ وہ بھی ہے جس کے نامور ترین لوگ مذہبی‘ مسلکی‘لسانی ‘ گروہی دل آزاریوںمیں اس طرح لت پت ہوتے ہیں کہ ان کا چہرہ ان کی اپنی پھیلائی ہوئی کیچڑ سے الگ دکھائی ہی نہیں دیتا۔مزاح تو ان کے زہر افشانی کی محض ایک آڑ ہوتا ہے۔ دل آزاری‘تمسخر اور مزاح میں فرق نہ سمجھنے والوں نے ان سے کچھ بھی نہیں سیکھااور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے کبھی سیکھ بھی نہیں سکتے۔ضیا محی الدین اپنے شعبے کے ماہر ترین فرد تھے ور اس شعر کی زندہ مثال کہ
تجھے تو علم کے دو چار حرف لے بیٹھے
سمجھنے والے یہاں عمر بھر سمجھتے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں