"SUC" (space) message & send to 7575

زندگی سے مالامال ادیب

ممکن نہیں کہ آج کل آپ خبریں پڑھیں ‘سنیں ‘دیکھیں اور آپ کو مایوسی گھیر نہ لے۔دل بیٹھنا شروع نہ ہوجائے۔جب ہر گھنٹہ کسی نئی بری خبر کا خوف آپ کے سر پر مسلط ہو توآپ کتنی دیر اعصاب مضبوط رکھ سکتے ہیں؟
کہتے ہیں کہ انسان جب ہر طرف سے گھرا ہو تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنی مشکلات پر بھی قہقہے لگانے لگتا ہے ۔میں آج اسی شکستہ کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا کہ باکمال نثر نگار شفیق الرحمن کے جملے یاد آگئے۔اوربے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کھل اٹھی ''ایک دانش مند کا مقولہ تھا کہ حالات خراب ہونے کی بھی انتہا ہوتی ہے۔ایک حد ہوتی ہے جہاں سے انہیں بہتر ہونا پڑتا ہے ۔لیکن فلاسفر کو شبہ ہوا :یہ بھی ممکن ہے کہ اس حد کے بعد حالات واقعی بہتر نہ ہوتے ہوں بلکہ تب تک محسوس کرنے کی صلاحیت ہی کند ہوجاتی ہو‘ ‘ ۔یہ جملہ یاد آنا تھا کہ شفیق الرحمن کے دیگر مزے دار جملے بھی یاد آنے لگے۔ان کے جملے بچپن اور لڑکپن سے یاد ہیں ‘ کبھی کبھی شبہ ہوتا تھا کہ شاید یہ پسندیدگی لڑکپن کے دور کی وجہ سے ہے لیکن اب ایک عمر کے بعد‘ بہت سی کتابیں پڑھ چکنے کے بعد میں انہیں پھر پڑھتا ہوں تو وہی پسندیدگی اور بڑھ جاتی ہے۔ میں اُٹھا اورایک بار پھر ان کی کتاب ''دجلہ‘‘ اُٹھا لی جو میری پسندیدہ کتاب ہے۔میرے خیال میں ان کا اسلوب دجلہ میں اپنے عروج پر ہے۔ان کا شگفتہ انداز جو انہی سے مخصوص ہے‘ وہ تو جابجا ہے ہی لیکن ان کا مشاہدہ‘ تاریخی شعور اور منظر نگاری بھی کمال پر ہے۔لگتا ہے کہ ہم دجلہ‘ نیل اور ڈینیوب کے دھاروں میں بہہ رہے ہیں لیکن میرا یہ بتانا بھی غیر ضروری سا ہے جب شفیق الرحمن آپ کو زیادہ بہتر بتانے پر قادر ہیں۔تو پڑھیے اور میری طرح پرملال کیفیت سے قہقہہ مار کر باہر نکل آئیے۔
' ' میاں !خوش رہا کرو۔خوامخواہ نفرت کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے خو دپانی‘ بھوک اور نیند تباہ ہوتی ہے‘بلڈ پریشر بھی بڑھتا ہے‘ لہٰذا عمر کم ہوتی ہے اور جس سے نفرت کی جائے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اس کے سر میں اتنا سا درد تک نہیں ہوتا‘‘۔''نیل نے مصر کی جغرافیائی پوزیشن کو کافی خراب کر رکھا ہے ۔یعنی نقشوں میں مصر کا اوپر والاحصہ نچلا نیل کہلاتا ہے۔اور زیریں حصہ بالائی مصر۔یہ اس لیے کہ شاید مصر اتنا اہم نہیں جتنا نیل ۔ اس لیے طلبا کی سہولت کے لیے اسے درست کردینا چاہیے ورنہ نیل کو اُلٹی سمت میں بہنا چاہیے‘‘۔''ہوائی جہاز اڑنے لگا۔میں نے نیچے جھانک کر دیکھا۔تاحدِافق چمکتی ہوئی ریت تھی یا مٹیالی چٹانیں۔شمالاً جنوبا ًایک گہری سبز لکیر کھنچی ہوئی تھی۔بیچ میں روپہلا تار تھا اور دونوں طرف ہریالی کا حاشیہ ۔جہاں دریا سیدھا بہتا تھاوہاں یہ حاشیہ بھی سیدھا چلتا‘جہاں دریا مڑتا وہاں یہ بھی مڑ جاتا۔ یہی وہ ملک ہے جہاں ریگستان اور سبزے کے درمیان یوں خط کھینچا جاسکتا ہے کہ ایک قدم ہریالی پر ہو اور دوسرا ریت پر‘‘۔ ''ہال میں داخل ہوتے ہی لڑکیوں کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے۔دائیں‘ بائیں سامنے‘جدھر نظر جاتی ‘لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔کچھ دیر میں جب کیمپ کی مسلسل تنہائی کا اثر کم ہوا اور انہیں گنا تو لڑکیاں صرف چھ نکلیں‘ ‘۔ '' جب اطلاع ملی کہ قریب ہی چائے کے باغات میں ایک حسینہ دیکھی گئی ہے جو لوکل لڑکیوں سے(جنہیں ڈاکٹر لوکل انستھیزیا کہا کرتا)کہیں بہتر ہے تو شیطان نے پوچھا : '' یہ باغات کتنی دور ہیں‘ ‘ ؟۔'' تقریبا بیس میل ہوں گے‘ ‘ ۔' ' بیس میل زیادہ ہیں۔حسین سے حسین لڑکی کو چھ سات میل سے زیادہ دور نہیں ہونا چاہیے‘ ‘۔ ' ' تیس اکتیس سال پہلے کا ذکر ہے کہ ملغوبہ واقعی خوبصورت تھی۔اب اس کا وزن (میک اَپ سمیت) تقریبا ًسوا دو من پختہ تھا۔تہمیدہ کہا کرتی تھی کہ سترہ سالہ ملغوبہ بیس چھبیس برس پہلے پیدا ہوئی تھی‘‘۔ ''وہاں مقامی پرندے بھی لاتعداد تھے۔ان کا ٹائم ٹیبل کچھ اس طرح تھا۔علی الصبح کبھی کبھی قوالی سی ہوتی جس میں پہلے لیڈر کی تان سنائی دیتی تھی پھر ہم نواؤں کی آوازیں آتیں۔سورج نکلتے ہی ایک موٹی آواز والا پرندہ پھررر۔پھررر کی لمبی سیٹی بجاتا جیسے ریفری فاؤل کا اعلان کر رہا ہو۔دس بجے کے قریب ایک لٹھ مار پرندہ ڈانٹنے لگتا: ''کون ہے۔کون ہے۔کون ہے‘‘۔ دوسرے جھنڈ سے آواز آتی : '' کیا کہا۔ کیا کہا۔کیا کہا‘‘ ۔دوپہر کے وقت کوئی مستری سا پرندہ آدھ آدھ گھنٹے تک ''ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک‘ ‘ کرتا رہتا۔دن ڈھلے ایک قنوطی سا پرندہ بڑی بے دلی سے کہتا '' مت کرو‘مت کرو‘مت کرو‘‘ ۔پھر اور بھی غمگین لہجے میں ''یہاں کچھ نہیں‘کچھ نہیں ‘کچھ نہیں‘‘۔سورج ڈوبنے سے پہلے کبھی کبھی شوخ آواز میں ''ساتھیو ساتھیو آگیا۔ساتھیو ساتھیو آگیا‘‘ دہرایا جاتا۔اور وہ جو سب کو پسند تھا کبھی کبھی نمودار ہوتا۔آتے ہی بڑی ملائمت اور شستگی سے کہتا: ''اچھا جی‘‘۔دو تین منٹ کے بعد: ' ' اچھا جی‘ ‘ ۔پھر وقفہ اور' ' اچھا جی‘ ‘ لیکن سب سے زیادہ انتظار' ' میٹ دی گرل‘میٹ‘ دی گرل meet the girl‘ ‘ ‘کی خوشخبری سنانے والے پرندے کا رہتا جو بہت ہی کم آیا کرتا‘‘۔ ''تمہاری آنکھیں ستاروں کی طرح چمکتی ہیں۔ہونٹ گلاب کی پتیاں ہیں اور دانت موتیوں کی طرح‘ ‘ ۔''مجھے خوشامد ذرا چھی نہیں لگتی‘ ‘ ۔'' مجھے پتہ ہے تبھی تو چاپلوسی کے بجائے سچ بول رہا ہوں‘ ‘ ۔ایسی چکر دار خوشامد سے وہ بہت خوش ہوئی۔ ' ' پریشان ہونا بہت آسان ہے لیکن سوائے اس کے کہ چہرے پر غلط جگہ لائنیں پڑ جائیں‘کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چہرے پر لائنیں پڑنی ہی ہیں تو فقط وہاں پڑنی چاہئیں جہاں مسکراہٹ سے بنتی ہیں‘ ‘ ۔''مشکوک جیسے آدمی ہر جگہ ملتے ہیں۔اگر ایسوں کو دور نہیں کر سکتے تو کڑھنے کے بجائے نظر انداز کرنا سیکھو۔جیسے کسی برے پڑوسی یا پرانے عارضے سے بھی بے اعتنائی برتنی آجاتی ہے‘‘۔ ''وائلن سے تو مجھے خاص چڑ ہے ۔اس کے گز میں گھوڑے کی دم کے بال اور تار بلی کے پوست سے بنتے ہیں۔عجب تماشا ہے گھوڑے کے بال بلی کے پوست سے رگڑے جائیں تو اچھے بھلے انسانوں پر غشی کا عالم طاری ہوجائے ۔بڑے افسوس کا مقام ہے‘‘۔ ' ' اس کا نام طویل تھا۔تین چار ابن ‘کچھ ابُو اورچند اَل آتے تھے تب مکمل ہوتا تھا۔لیکن سب اسے منصور کہتے تھے‘‘۔''پتہ نہیں لوگ شعر کیسے کہہ لیتے ہیں کیونکہ اس کے لیے ان دیکھی ‘ان جانی عجیب عجیب باتیں سوچنی پڑتی ہوں گی۔بار بار فرضی باتیں سوچو تو ان پر یقین سا ہونے لگتا ہے‘ ‘۔ ' ' بیزاری کا علاج ایک ڈیڑھ میل کی دوڑجس کے بعد بھوک لگے گی ‘نیند آئے گی اور بیزاری یاد تک نہیں رہے گی۔موڈ خراب ہو تو ایک سو بیٹھکیں اور ایک میل کی دوڑ۔جی نہ لگتا ہو تو سو ڈنٹر اور سو بیٹھکیں۔عشق ہوجائے تو بار بار دوڑ‘ڈنٹر اور بیٹھکیں جب تک کہ افاقہ نہیں ہوتا‘ ‘ ۔
شفیق الرحمن نے لفظوں سے جو تصویریں کھینچی ہیں ان کے رنگ کمال روشن اور کمال گیلے اور تازہ ہیں۔کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ کیمرہ بھی اپنے عدسے کو دھند میں دھندلا ہونے سے نہیں بچا سکتا لیکن ان کا عکس گر قلم ایسی جگمگ‘ واضح عکس گری کرتا ہے اور مناظر کے خدوخال ایسی نوک پلک کے ساتھ بناتا ہے کہ چار سُو دل آویز مرقعے آویزاں ہوجاتے ہیں۔ان کی تحریر میں زندگی ہے‘ تحرک ہے‘ رجائیت ہے اور خوش دلی ہے۔آپ نڈھال اور بے حال بیٹھے ہوں تو آپ کو ان چار کیپسولوں کی ضرورت ہی تو ہوتی ہے۔میں نے ایک بار پھر'' دجلہ‘‘ پڑھ کر بند کی تو ملال اور بد دلی دور دور کہیں نظر نہ آتی تھی ۔چار کیپسول ایک ہی بار کھالینے سے جو افاقہ ہوا وہ بے بدل تھا۔ یہ تو اکسیر نسخہ نکلا۔ سو‘ اے عمران خان! اے شہباز شریف!اے آصف زرداری! اے مولانا فضل الرحمن !کیا حرج ہے ‘یہ بھی آزما لیں ‘شاید نفرتیں ‘کدورتیں دور ہوجائیں اور سب مل کر مسکرانے لگیں ۔ممکن ہے اس دور کا خاتمہ اس نسخے سے ہوجائے ۔ باقی نسخے تو آزمائے جاچکے۔ آپ زندگی گزار تو رہے ہیں لیکن زندگی پڑھیے بھی تو سہی ۔ایک بار شفیق الرحمن پڑھیے تو سہی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں